عمران خان کو کون سمجھائے کہ بھولے بادشاہ! نواز لیگ اور اس کے اتحادیوں نے اس دفعہ 2014ء کی طرح کھل کر نواز شریف کا ساتھ دینے کی بجائے ایک نئے طریقے سے آپ کا راستہ روکا ہے۔ غضب خدا کا آپ خورشید شاہ کی نواز شریف سے اپوزیشن پر یقین کر بیٹھے! فرض کیجیے اگر اڈہ پلاٹ پر آپ کا مجوزہ جلسہ متاثرکن ہو جاتا ہے تو میڈیا کے ذریعے پبلک میں یہی پیغام جائے گا کہ یہ تحریک انصاف نہیں بلکہ سات جماعتوںکا جلسہ تھا۔ اس لئے عمران خان کو صرف اپنے قدرتی اتحادی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہی چلنا ہوگا، ناقابل اعتبار نئے شراکت داروں سے جان چھڑانا ہوگی ۔ اگر یہ بات عمران خان کی سمجھ میں نہیں آ رہی اور ان کے مصاحبین انہیں گمراہ کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں تو انہیں نواز شریف اور آصف زرداری کا وہ باہمی معاہدہ کیسے نظر آ ئے گا کہ پی ٹی آئی کے ووٹ کاٹنے کے لئے پنجاب کے ہر ضمنی انتخاب میں پی پی پی کا امیدوار ضرور حصہ لے گا، جس کا مظاہرہ جہلم کے بعد اب چیچہ وطنی میں بھی کیا جا رہا ہے۔ نواز لیگ سمجھتی ہے کہ اگر پی پی کا امیدوار میدان میں نہ ہوا تو ان کے ووٹ بھٹو کو پھانسی دینے والوں اور محترمہ بے نظیر کی نقلی شرمناک تصاویر بنانے والوں کی بجائے تحریک انصاف کو ڈالے جائیںگے۔
کپتان کی سمجھ میں یہ بات بھی کیوں نہیں آ رہی کہ آج کی جوان نسل اب جلسہ جلسہ کھیل کر تنگ آ چکی ہے، وہ ایک دن کی ریلی یا جلسے کے لئے باہر نکلنے کو تیار نہیں، وہ تو ایک نئے پاکستان کے لئے آپ کی آواز پر باہر نکلتی رہی ہے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف سے حقیقی تبدیلی کی امید رکھنے والی پاکستان کی نو جوان نسل 126دن تک سخت گرمی، سردی، بارش اورگرم ہوا کے علاوہ بھوک پیاس اورگھروں سے دور رہ کر پولیس کے مظالم سہتے ہوئے دھرنے کی رونق بڑھانے کے لئے پاکستان کے کونے کونے سے پہنچتی رہی، صرف اس لئے کہ یہ نئی نسل پاکستان میں برسوں سے قدم گاڑے ہوئے گڑے سڑے نظام سے چھٹکارہ چاہتی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ یہ دھرنا ملک کے اس بد بو دار نظام کو عمران خان کی قیادت میں جڑوں سے اکھاڑ پھینکے گا۔ اس دوران آپ نے دیکھا کہ اسلام آباد کے دھرنے کے پہلو بہ پہلو ملک کے ہر حصے میں بھی جلسے منعقد کئے جاتے رہے جن میں خواتین کی بھاری تعداد سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لوگ جو دھرنے میں نہیں آ سکتے وہ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
کپتان کو یاد ہوگا کہ ان دھرنوں کے دوران انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ مزید کیا کرنا چاہیے تو میں نے گزارش کی تھی کہ دھرنے کو صرف اسلام آباد تک محدود نہ رکھیں بلکہ عوامی تحریک کو ساتھ ملاتے ہوئے اسے لاہور، فیصل آباد،گوجرانوالہ، ملتان، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، سرگودھا، میانوالی، کراچی، حیدر آباد اورکوئٹہ تک پھیلا دیں اور اس کی قیادت مقامی اراکین اسمبلی، عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کی ضلعی اور ڈویژنل سطح کے رہنمائوں کے سپرد کرتے ہوئے، باری باری ان کے پاس جا کر ان کا مورال بلند کرتے رہیں تاکہ پولیس فورس ایک جگہ جمع نہ ہو سکے۔ لیکن بجائے اس پر عمل کرنے کے آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دانشوروں نے آپ کو سول نافرمانی اور بجلی کے بل ادا نہ کرنے جیسی تجاویزدینی شروع کر دیں۔ مقام افسوس ہے کہ یہی لوگ آج بھی آپ کے ارد گرد موجود ہیں اور خود کو تفویض کردہ مقاصد پورے کرنے میں مصروف ہیں۔
کپتان کو گزشتہ دو ماہ کے دوران پشاور سے نوشہرہ خیر آباد کی ریلیوں کے سوا دیگر مقامات کے جلسوں میں جوش اور جذبے کی کمی سے احساس ہو جانا چاہیے کہ لوگ آپ کے ساتھ باہر نہیں نکل رہے۔ وہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیںکہ پاناما کی سونامی جو شریف خاندان کو بہا کر لے جا رہی تھی اس کے سامنے بند کس نے باندھے؟ اس سونامی کا رخ ٹرک کی بتی کے پیچھے کس نے موڑا؟ اس سونامی کی رفتارکس نے کم کی؟ افسوس! آپ اپنی پارٹی کے صف اول کے لیڈروں کے ہاتھوں ٹیم کے بارہویں کھلاڑی بنے ہوئے ہیں اور ان کے آپ پر حاوی ہو رہے ہیں۔ کیا اس قوم نے2011ء کے مینار پاکستان کے وسیع و عریض میدان والے جلسے میں آپ کو بارہواں کھلاڑی سمجھتے ہوئے شرکت کی تھی ؟ جناب والا! انہوں نے آپ کوکپتان کی حیثیت سے اپنا رہبر چنا تھا۔ افسوس کہ آپ کپتان بننے کے بجائے عام کھلاڑی بننا پسند کر رہے ہیں۔کراچی میں نبیل گبول اپنے پورے گروپ سمیت آپ کے ساتھ شامل ہونے کے لئے تیار ہے، لیکن آپ کے نورتن ان کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔
لوگ کپتان کی آواز پر باہر نکلتے رہے نا کہ بارہویں کھلاڑی کے لئے۔ کپتان کو احساس ہونا چاہئے کہ لوگ اب جلسہ جلسہ کے کھیل سے تنگ آ چکے ہیں، اب انہیں جلسوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ یقین جانیے، لاہورکی ریلی سے چند دن پہلے مال روڈ کے درجنوں تاجرکہہ رہے تھے کہ اگر عمران خان یہاں دھرنے کا اعلان کرے تو ہمیں اپنے کاروبارکا غم نہیں ہوگا لیکن آئے روز کی بے مقصد ریلیوں سے شریف برادران کا کیا بگڑتا ہے۔ وہ مال روڈ کی ایک ایک گلی کو خاردار باڑوں اور پولیس کی فورس کے ذریعے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر واپس کر وا دیتے ہیں اور باقی پانچ دس گھنٹے انتظار کرنے کے بعد اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ قوم کپتان کے ساتھ دوبارہ اسی طاقت، اسی عزم اور اسی حوصلے سے صرف اس صورت میں نکلنے کو تیار ہوگی جب انہیں یقین ہوگا کہ وہ ان کے ساتھ جلسہ جلسہ نہیں کھیلیں گے۔ اس کے علاوہ آپ کے ایک جلسے کا جواب دینے کے لئے نواز شریف دو جلسے کر دیتے ہیں۔
طرزکہن کی سیاست جس کی جانب کپتان کو ان کے نو رتن دھکیلے جا رہے ہیں، آج کی نوجوان نسل اور باشعور طبقے کی منزل نہیں، ان کی منزل ایک انقلاب ہے، ایسا انقلاب جس میں ان کے پاسپورٹ کو عزت سے دیکھا جائے۔ ایسا انقلاب جہاں وسائل چند ہاتھوں میں سمٹے ہوئے نہ ہوں۔ ایسا انقلاب جس میں انہیں روزگار اور بہتر تعلیم کے لئے دولت کی نہیں بلکہ قابلیت کی ضرورت پڑے۔ ایسا انقلاب جہاں ان کے اور ان کے خاندان کے لوگ علاج کے لئے ہسپتالوں کے بر آمدوں اور بد بو دار کمروں میں زندگی کے دن نہ گزاریں، انہیں مہنگی ادویات نہ خریدنی پڑیں۔ جہاں ان کی بہنیں اور بیٹیاں مہنگے رسم و رواج کی نذر ہوکر ویران چہروں سے کسی کا انتظار کرتی نہ رہ جائیں۔ جہاں ان کے ماں باپ اپنی جوان بیٹیوں کے سفید ہوتے بالوں کو دیکھ کر آنسو نہ بہائیں۔
یہ صحیح ہے کہ کپتان کی جدو جہد بہت طویل اور کٹھن مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچی ہے۔ اس کے لئے یقیناخلوص نیت، استقامت اور حوصلہ شامل رہا ہے لیکن اس موقع پر لوگ آپ سے چند گھڑیوں کے جلسے کی نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن جدو جہد کی امید رکھتے ہیں۔ جس گھڑی انہیں یقین ہو گیا کہ انہیں کسی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی نہیں بلکہ ہار جیت کے خدشوں سے بے نیاز کپتان پکار رہا ہے تو تاریخ ایک بار پھر مینار پاکستان کی تاریخ دہرا کر دکھا دے گی۔ لیکن اس کے لئے آپ کو اپنی ٹیم کی سلیکشن کے ساتھ ساتھ کپتان بھی بن کر دکھانا ہو گا!