تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     20-09-2016

بھارت اور ڈنڈا فورس

خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے نہ بدحواسی کا مظاہرہ کرنے کی۔ خوف کے عالم میں درست فیصلہ نہیں ہوتا اور بدحواسی میں سمت کا تعین مشکل ہے مگر احتیاط اور دفاع کی بھرپور تیاری فرض ہے۔
بھارت کے تیور اچھے نہیں اور نریندر مودی جیسا غیر متوازن‘ جذباتی‘ عجلت پسند‘ متکبر اور تنگ نظر شخص کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بھارتی دانشوروں‘ سیاستدانوں اور دفاعی ماہرین کی یہی رائے ہے اور مودی کے بیانات اس رائے کی تائید کرتے ہیں۔ 
اُڑی کا واقعہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ اور مشیر سلامتی اجیت دوول کے ذہن کی اختراع ہے‘ محض ایک حادثہ یا کسی اندرونی کشمکش کا شاخسانہ؟ فی الحال یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ بھارتی میڈیا میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں‘ انگلیاں بھارت سرکار کی نااہلی‘ سکیورٹی اداروں کی نالائقی کی طرف اُٹھ رہی ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور مودی حکومت مگر ہر موقع سے فائدہ اٹھانے اور اپنی نااہلی و ناکامی کو مظلومیت اور پاکستان پر دبائو میں بدلنے کی خوگر ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں پُرامن اور پُرجوش عوامی جدوجہد کی وجہ سے دبائو کا شکار بھارتی حکومت اس واقعہ کو غنیمت سمجھ رہی ہے اور مہم جوئی کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ ستمبر اور اکتوبر کے مہینے بالعموم کسی مہم جوئی کے لیے موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ نریندر مودی نے پاکستان کو سفارتی سطح پر الگ تھلگ کرنے اور دہشت گردی کا مرکز قرار دلوانے کے لیے جارحانہ مہم چلائی‘ اندرا گاندھی کے سوا کوئی بھارتی حکمران ماضی میں اس حد تک نہیں گیا‘ طے شدہ سفارتی حدود سے تجاوز اور پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی دھمکی مودی کے عزائم کا اظہار ہے‘ جبکہ اوڑی کا واقعہ طے شدہ منصوبے کو پروان چڑھانے کی تدبیر ۔ بھارت‘ پاک روس‘ دفاعی مشقوں سے برہم ہے‘ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے بے حد پریشان اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں فوجی ناکامی سے بدحواس و خوفزدہ ۔برہمن قیادت طبعاً بزدل اور سازشی ہے‘ وہ مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار کے دوران مرتب ہونے والے ذہنی و نفسیاتی اثرات سے نکل نہیں پائی۔ 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد اُسے بے پایاں مسّرت اور اطمینان کا جو احساس ہوا وہ 1981ء میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے اور بعد ازاں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے ختم ہو گیا۔ امریکہ کی گود میں بیٹھ کر وہ اس نفسیاتی عارضے کا شکار ہے کہ پاکستان اندرونی عدم استحکام‘ بیرونی دبائو اور اس کی ریشہ دوانیوں کے باوجود نہ صرف قائم ہے بلکہ استحکام اور خوشحالی کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری انہی منصوبوں میں سے ایک ہے جو کسی ملک کے سیاسی‘ دفاعی اور معاشی استحکام میں کردار ادا کرتے ہیں اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اس حقیقت کا مظہر کہ ہم اندرونی چیلنجوں سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے برطانیہ‘ سری لنکا اور بھارت کو کئی عشرے لگے‘ ہم انشاء اللہ یہ سنگ میل چند برسوں میں عبور کر لیں گے۔ اس ایک ایشو پر قومی اجماع بھارت کے لیے پریشان کن ہے‘ ملک میں بھارتی تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک ایک کر کے قلع قمع اور بھارتی سرمایہ کاری کا ضیاع بھی برہمن قیادت کے لیے سوہان روح ہے۔ پاکستان میں سیاسی افراتفری اور کونوں کھدروں سے نکل کر دوستی‘ مفاہمت اور بقائے باہم کے پردے میں بھارت کی اقتصادی و فوجی برتری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیاستدان‘ دانشور اور صحافی البتہ اس کا آخری سہارا ہیں اور اُمید کی ٹمٹماتی کرن۔
1971ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو سیاسی سطح پر دال جوتیوں میں بٹ رہی تھی اور ہوس اقتدار کے مارے فوجی حکمران یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو قوم کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم اور تفریق کا کھیل کھیل رہے تھے۔ تب ہم سفارتی سطح پر اکیلے تھے اور اندرونی اتحاد کی نعمت سے محروم۔ اب صورتحال اگرچہ اتنی خراب نہیں‘ نیوکلیئر پاور دبائو میں ضرور ہے مگر یکّہ و تنہا ہے نہ دفاعی طور پر کمزور۔کہا جاتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار محض ایک دوسرے کو ڈرانے کے لیے ہیں‘ استعمال کرنے کے لیے نہیں مگر گولی چل جائے تو ضروری نہیں کہ جنگ جو‘ زمانہ امن کی کہاوتوں اور فلسفوں پر عمل کریں۔تاہم خوش فہمی کی گنجائش بھی نہیں۔
2000ء میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ‘ سنگاپور کے روزنامہ سٹریٹ ٹائم اور بھارت کے ہفت روزہ آئوٹ لُک میں دونوں ممالک کے مابین ایٹمی تصادم کا خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے اور اس جنگ میں امریکہ و چین کی براہ راست مداخلت کے نتائج و عواقب کا تجزیہ بھی۔ اس ہولناک اور انسانیت کش تصادم سے بچائو کی کنجی بھارت کے پاس ہے یا اس کے تازہ اتحادی امریکہ کی مُٹھی میں‘ مگر امریکہ عالمی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے مسلسل نریندر مودی کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور وہ جھگڑالو عورت کی طرح آمادۂ فساد۔
بھارتی میڈیا پاکستان میں سرجیکل سٹرائیکس اور محدود جنگ کے امکانات ظاہر کر رہا ہے‘ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد سے بھارت وار ہسٹیریا میں مبتلا ہے۔ ہر بھارتی رہنما کی تان پاکستان کو سبق سکھانے پر ٹوٹتی ہے اور پورا بھارتی میڈیا دیر کس بات کی؟ کے ورد میں مشغول ہے۔ چند آوازیں جنگی جنون کے خلاف ضرور اُٹھ رہی ہیں مگر انتہائی کمزور ہیں اور صرف کشمیری عوام کے آنسو پونچھنے تک محدود۔ خدانخواستہ نریندر مودی نے اپنے عقاب صفت ساتھیوں راج ناتھ‘ اجیت دوول اور دیگر کے مشورے بلکہ ہلّہ شیری پر کوئی مہم جوئی کی تو بھارتی رائے عامہ اس کی پشت پر ہو گی‘ پاک بھارت مفاہمت اور دوستی کا راگ الاپنے والے دانشور بھی۔ پاکستان میں صورتحال مگر یہ ہے کہ سیاستدان باہم دست و گریباں ہیں‘ دانشور تقسیم اور قوم انگشت بدنداں ؎
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربگر یباں کہ اسے کیا کہیے
حکومت کی ترجیحات میںبجلی کے منصوبے سرفہرست ہیں اور اپوزیشن محاذ آرائی پر تُلی ہے۔ مشرقی اور مغربی محاذ گرم ہے۔ اندرون ملک بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں سے آخری معرکہ برپا ہے مگر مسلم لیگ نون کے ڈنڈا بردار اور تحریک انصاف کے بلّا بردار کارکن ایک دوسرے کا سر پھوڑنے اور مُنہ توڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا اپنے کارکنوں کے ذریعے مقابلہ کرنے کی سٹرٹیجی 1977ء میں پیپلز پارٹی نے اپنائی تھی مقابلہ تو خیر کیا ہوتا‘ خانہ جنگی کا خطرہ بُری بھلی جمہوریت ہی کو لے ڈوبا۔ ہمارے بھائی زعیم قادری نے جانثار فورس کا مژدہ سنایا تھا ۔پورس کے ہاتھیوں کی فورس پریس کلب میں اپنے لیڈر کی پریس کانفرنس اُلٹا کر کامران ہوئی۔ صحافیوں سے بدتمیزی اس کا سود ہے جو مسلم لیگ چکائے گی۔
سیاسی کارکنوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کر اپوزیشن کی کسی تحریک کا مقابلہ ہو سکتا ہے نہ اپنی قوت و شوکت کا اظہار۔ حکومت کے پاس ریاستی فورس موجود ہے اور بے تحاشہ وسائل بھی۔ ویسے بھی وہ سیاسی کارکن اب کہاں ہیں جو اپنی قیادت اور جماعت کے لیے قربانیاں دیا کرتے تھے ۔ہوتے تو 1999ء میں میاں نوازشریف کی گرفتاری پر اپنی وفاداری ظاہر نہ کرتے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈر کانفرنس بلا کر بھارتی عزائم‘ پروپیگنڈے اور تیاریوں کا جائزہ لیا۔ مگر ہماری سیاسی قیادت؟ وزیراعظم میاں نوازشریف نیویارک میں ہیں مگر اُن کے متحرک ساتھی کہاں غائب ہیں؟ کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ حکومت قومی اتحاد و اتفاق کے لیے جوڈیشل کمشن تشکیل دے کر اپوزیشن کے ٹی او آرز پر پاناما سکینڈل کی تحقیقات کرائے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی شفاف تحقیق و تفتیش کا آغاز ہو اور سول ملٹری تعلقات کو ہموار سطح پر لانے کے لیے سنجیدہ تدبیر کی جائے۔ آج کے دور میں اکیلی فوج دشمن کا مقابلہ نہیں کرتی‘ پوری قوم کی پشت پناہی درکار ہوتی ہے مگر قوم کے نمائندے تو تفرقہ و اختلاف کو فروغ دے رہے ہیں اور اندرون و بیرون سلامتی اور دفاع کا فریضہ فوج کے سپرد کر کے اپنے آپ میں مگن ہیں۔ اردگرد سے بے خبر‘ اپنے مفادات کے اسیر اور اپنے مخالفین کو ملیامیٹ کرنے پر تیار‘ بھارت کا مقابلہ کرنے کا یہ طریقہ بھی خوب ہے۔ جنگی جنون کی ضرورت نہ سہی مگر تیاری کا تاثر تو چانکیہ کے پیروکار کو ملنا چاہیے۔ کیا یہ صرف جرنیلوں کی ذمہ داری ہے؟ ؎ 
دیکھ مسجد میںشکستہ رشتٔہ تسبیح شیخ!
بتکدے میں برہمن کی پختہ زُناّری بھی دیکھ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved