پاناما لیکس کو منطقی انجام تک پہنچانے
کے لیے سنجیدہ ہیں۔خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''پاناما لیکس کو منطقی انجام تو پہنچانے کے لیے سنجیدہ ہیں‘‘ البتہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکا کہ اس کے منطقی انجام کیا کیا ہو سکتے ہیں اور زیادہ تر اتفاق رائے اسی پر ہے کہ چونکہ یہ کرپشن جیسی خراب اور بُری چیز کے بارے میں ہے اس لیے اس پر ہمیشہ کے لیے لعنت بھیج دی جائے کیونکہ اس کے لیے اس سے زیادہ عبرتناک انجام اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا سارا زور روپے پیسے پر ہے کہ یہ کہاں سے آیا اور کس طرح‘ کہاں گیا اور یہ سارے کا سارا جاسوسی سے متعلقہ کام ہے اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ کسی جاسوس کی خدمات حاصل کرے؛ اگرچہ روپے پیسے کی بھی کوئی خاصی اہمیت نہیں ہے کہ سب کچھ یہیں پڑا رہ جائے گا اور سکندر اعظم کی مثال سب کے سامنے ہے کہ مرنے کے بعد وہ کتنے پیسے ساتھ لے گیا تھا؛ چنانچہ اسی طرح چوہدری نثار کے پاس خاکسار کی جو فائلیں پڑی ہیں‘ ان کے لیے مناسب اور محفوظ جگہ اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتی اورجہاں تک حکومت کے خلاف تحریک وغیرہ چلانے کا تعلق ہے تو اس کے لیے عمران خان جیسا مردِ میدان
اکیلا ہی کافی ہے جبکہ میں نے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے اور اس کے فوائد سے آگاہ کر کے اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے اپنا حصہ ڈال دیا ہے اور سنا ہے کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور بھی کر رہے ہیں جبکہ غور تو سنا ہے کہ وہ ہر چیز پر ہر وقت ہی کرتے رہتے ہیں اور اسی میں ان کی صحت مندی کا راز بھی ہے۔ آپ اگلے روز میر پور ماتھیلو میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
تعلیم و ترقی کا مارچ۔۔۔؟
خادم اعلیٰ پنجاب نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''آئو مل کر تعلیم و ترقی کا مارچ کریں‘‘ کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ آئو مل کر محاسبے کا مارچ کریں۔ تعلیم و ترقی کا مارچ بھی بہت اچھی بات ہے لیکن اس سلسلے میں خادمِ اعلیٰ نے اتنے مواقع ملنے کے باوجود اکیلے یہ مارچ کتنا کیا ہے جبکہ اصل مقصد یہ ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف مارچ پر مٹی ڈالیں اور ان کے ساتھ مل کر تعلیم و ترقی کا مارچ کریں۔ یہ ایک بیمار ملک ہے اور کرپشن نے اسے مکمل طور پر لاغر و لاچار کر رکھا ہے۔ سو‘ ایک مریض کوئی مارچ کامیابی کے ساتھ کیونکر کر سکتا ہے جبکہ تعلیم کا مارچ تو اتنے برسوں میں بہت ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں سکولوں میں بھینسیں بندھتی ہیں اور گھوسٹ اساتذہ کی بھر مار ہے جبکہ ترقی کا مطلب صرف حکمرانوں کی ذاتی ترقی ہے جس میں وہ دن رات لگے ہوئے ہیں اور عمران خاں کو بھی شاید ایسی ہی ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ مریض کا علاج کر کے پہلے اسے چلنے پھرنے کے قابل تو کیا جائے کہ ایک ہانپتا کانپتا بیمار شخص مارچ خاک کرے گا؟ مریض تو بستر پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور آپ اس سے مارچ کروانا چاہتے ہیں‘ دونوں مارچ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں لیکن بہتر ہے کہ پہلے مریض کو لاحق بیماری کو درست کیا جائے اور اس کے بعد خادم اعلیٰ عمران خاں سے یہ کہتے بھی اچھے لگتے ہیں کہ آئو مل کر تعمیر و ترقی کا مارچ کریں کہ بیساکھیوں کی مدد سے کیا مارچ ہو سکے گا!
رینجرز اختیارات؟
وزارت داخلہ کی طرف سے رینجرز کو پنجاب میں محدود علاقوں میں مخصوص کارروائی کے اختیارات دینے کی سمری پر حالیہ اجلاس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اگرچہ اس میں خاص خاص علاقے پہلے ہی نکال دیئے گئے تھے اور حسبِ معمول پوری پوری احتیاط سے کام لیا جا رہا تھا اور اس سمری کو بھی پیش ہونے کی سعادت ایک طویل انتظار کے بعد حاصل ہوئی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہیں اور اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر ہی سمجھتے ہیں اور اپنی مرضی سے وہ سارا کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں جس سے انہیں ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے تاکہ ایکشن پلان کے مقاصد جلد از جلد پورے نہ ہو سکیں۔ لیکن یہ سب نے دیکھ لیا ہے کہ یہ حضرات ایکشن پلان کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں اور اپنے ان اعمال کو چھپانے کا تردّد بھی روا رکھنے کو تیار نہیں‘ کوئی ہے انہیں پوچھنے والا؟
اور اب ممتاز شاعر ڈاکٹر ضیاء الحسن کی یہ خوبصورت غزل جو ''ادب لطیف‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے:
مرا گماں ہے کسی کا یقیں کہیں نہ کہیں
یہ آسماں ہے کسی کی زمیں کہیں نہ کہیں
چمک رہے ہیں ستارے ان آسمانوں کے
مرا ستارہ بھی ہو گا وہیں کہیں نہ کہیں
جو لامکاں میں کسی دُور کے جہان میں ہے
میں ڈھونڈ لوں گا اُسے بھی یہیں کہیں نہ کہیں
عجیب طرح کا ہونا نہ ہونا ہے اُس کا
جو لگ رہا ہے کہ ہے اور نہیں کہیں نہ کہیں
کہیں تو ہو گا مرا نخلِ طور بھی اے دل
ملے گا مجھ کو وہ آخر کہیں‘ کہیں نہ کہیں
یہ اور بات کہ مجھ کو نظر نہیں آتا
چمک رہا ہے وہ روشن جبیں کہیں نہ کہیں
مگر کہیں بھی نہیں ہیں یہ ساڑھے سات ارب
سمجھ رہے ہیں جو اپنے تئیں کہیں نہ کہیں
اور اب چلتے چلتے پلندری سے ماجد محمود ماجد کا یہ لاجواب شعر ؎
ہوس ہوتی تو پوری کر بھی لیتے
محبت تھی‘ ادھوری رہ گئی ہے
آج کا مقطع
لگاتا پھر رہا ہوں عاشقوں پر کفر کے فتوے
ظفر‘ واعظ ہوں میں اور خدمتِ اسلام کرتا ہوں