تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-09-2016

اگر آئین اور قانون ہوتا؟

ایک مرکزی وزیر میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر دھڑلے سے عمران خان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیر اور مشیر اپنی پریس کانفرنسوں میں نواز لیگ کے مسلح جتھوں کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں اور لمبے لمبے ڈنڈے پکڑا کر پوری دنیا کو میڈیا کے ذریعے پیغام دے رہے ہیں کہ اگر عمران خان نے رائے ونڈ جانے کی کوشش کی تو پھر عمران خان سمیت کوئی بھی نہیں بچے گا۔ ایک اطلاع کے مطا بق رائے ونڈ کے قریب مبینہ طور پر خطرناک اور ممنوعہ بور کے اسلحہ کا بہت بڑا ذخیرہ اکٹھا کر لیا گیا ہے، جس سے ملک کے حساس ادارے اور اس کی خفیہ ایجنسیاں بھی یقیناًََ آگاہ ہوںگی۔ ایسا لگتا ہے کہ شریف خاندان نے1977ء کی تاریخ دہرانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے‘ لیکن شائد وہ اس کا انجام بھول چکے ہیں۔
پانچ جولائی1977ء کو جب جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو چارج شیٹ میں ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ مصطفیٰ کھر کے ذریعے لیاقت باغ راولپنڈی میں 1973ء میں ہونے والے متحدہ جمہوری محاذ کے جلسہ کی طرز پر قومی اتحاد کی پہلی‘ دوسری اور تیسری سطح کی قیادت کے قتل عام کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ بھٹو حکومت تو یہ سب کچھ خفیہ طور پر کر رہی تھی لیکن مسلم لیگ نواز کے وزراء کی جانب سے دھمکیوں اور مسلم لیگ نواز کی کلہاڑیاں اور ڈنڈا بردار فورس کی نمائش آئے روز میڈیا کی سکرینوں پر کی جا رہی ہے ۔ لیکن پولیس ، وزارت داخلہ، نیکٹا اور نہ ہی کوئی عدالت اس کا نوٹس لے رہی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا کوئی ذمہ دار بھی ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیںکر رہا ہے ۔ اگر سب سوئے رہے اور خدانخواستہ عمران خان کی جان کو نواز لیگ کے ہاتھوں نقصان پہنچا تو تصورکیا جا سکتا ہے کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا۔ مرکزی اور صوبائی وزارء کی عمران خان کو جان سے ماردینے کی دھمکیوں کے بعد وہ صوبہ، جس کی سرحدیں افغانستان سے جا ملتی ہیں ‘ وہاں امن و امان کی صورت حال کہاں تک جا سکتی ہے اور اس سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ شائد ہم ایک ملک میں نہیں بلکہ کسی جنگل میں رہ رہے ہیں جس کا نہ کوئی آئین ہے نہ قانون۔ اگر اس ملک میں آئین اور قانون کی حقیقی عملداری ہوتی تو ڈ اکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ ‘ماڈل ٹائون میں جبری داخل ہونے کی کوشش میں دروازے پر کھڑی ہوئی پانچ ماہ کی حاملہ خاتون تنزیلہ اور اس کی نند شازیہ سمیت چودہ افراد کو بے رحمی سے قتل اور 79 کو کیمروںکے سامنے زخمی نہ کر دیا جاتا۔ اس سانحہ کو دو سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی ذمہ دار کو گرفتار کرنے کی بجائے ان کو شاباش دیتے ہوئے اگلے عہدوں پر ترقیاں دے کر ملک سے باہر پر کشش عہدوں پر تعینات کر دیا گیا ہے ۔ تنزیلہ اورشازیہ کے ساتھ دنیا میں آنے والی ایک پانچ ماہ کی روح کو کلاشنکوف کے برسٹ نے چاٹ لیا اور ذمہ داروں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی۔
نندی پور میں مبینہ طور پر 34 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کی گئی اور یہ کرپشن اس کے علا وہ ہے جس کی وجہ سے یہ پراجیکٹ بجلی کی مطلوبہ پیداوار دینے میں نا کام چلا آ رہا ہے ۔ اگر یہ پراجیکٹ ایمانداری سے مکمل کیا جاتا تو اس سے اب تک حاصل ہونے والی بجلی سے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کو دو کھرب روپے سے زائد کی آمدنی ہوچکی ہوتی۔ اس اعتبار سے پاکستانی عوام کے ڈھائی کھرب روپے کرپشن کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن نہ تو کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کے کئے کی سزا دی جا رہی ہے۔
پچاس ارب روپے کی لاگت سے لاہور کی میٹرو بس سروس مکمل ہوئی تو ایک صبح اچانک ایجرٹن روڈ لاہور پر واقع ایل ڈی اے پلازہ آگ کے شعلوں کی نذر ہو گیا۔ پہلے پانچ چھ گھنٹے کسی کو سمجھ ہی نہ آنے دی گئی اور حسب منشا سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔ متعلقہ لوگ جانتے تھے کہ یہاں کس پراجیکٹ کا ریکارڈ تھا ۔ پلازہ کی اُس منزل پر موجود سٹاف کے لوگ نہ جانے دھکوں سے یا اپنی غلطی سے اُوپر سے کودتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور ان کی تعداد 31 تک جا پہنچی۔ جب آگ کے مہیب شعلے نیچے کی جانب بڑھنے لگے تو پھر فائر بریگیڈ کا خیال آیا۔ دوسال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے‘31سے زائد گھر اجڑگئے ہیں لیکن کوئی پتا نہیں چل سکا کہ یہ آگ کیوں لگی اور اس کے شعلوں کے ذریعے کیا کیا جلا دیا گیا؟ پلازے کے بڑے افسر کو ترقی دے دی گئی‘ ذمہ داری کسی پر بھی نہیں ڈالی گئی اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔
فیصل آباد میں تحریک انصاف کی ریلی میں شرکت کے لئے آنے والے نوجوان حق نواز کو دن کی روشنی میں میڈیا کے کیمروں ، پولیس اور سینکڑوں افراد کی مو جود گی میں موزر سے سیدھے فائر مارتے ہوئے شہید کر دیا گیا لیکن سزا کسی کو بھی نہیںہوئی۔ زین کی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کے قتل پر سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ ''میری بیٹیاں جوان ہیں اور میں بیوہ عورت اس بھرے ملک میں اکیلی ہوں اس لئے اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے مقدمہ لڑنے کی ہمت نہیں رکھتی‘‘۔ اگر اس ملک میں آئین اور قانون کی عملداری ہوتی تو کانجو کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔
سپریم کورٹ گزشتہ ایک سال سے بار بار نیب کو تنبیہ کر رہی ہے کہ 150 افراد کی کرپشن کے میگا سکینڈل کو سامنے لایا جائے لیکن بار بار کے احکام کے باوجود نیب کے کانوں میںجوں تک نہیں رینگی ۔ کیا نیب سپریم کورٹ سے بڑا آئینی ادارہ ہے جو عدالت عظمیٰ کے احکامات کونظر انداز کر رہا ہے؟ چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر کوئی سزا نہیں دی جا رہی جبکہ اسی ملک کے وزیر اعظم گیلانی کو اسی جرم میں چند سکینڈ کی سزا دے کرنا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
میمو گیٹ سکینڈل ‘رینٹل پاور پلانٹ ‘NICL ‘ سوئس بینکوں میں 60 ملیں ڈالر‘ اسحاق ڈار کا دفعہ164 کے تحت منی لانڈرنگ کا اقبالی بیان اورحدیبیہ پیپر مل سکینڈل میں بھی کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ میں سولہ برس سے زیر التوا ائر مارشل اصغر خان کا کیس آج تک معرض التوا میں ہے۔ پی پی پی کے غلام عباس کی جانب سے سپریم کورٹ میں 20 برس سے زیر التوا LDA کے کئی ہزار پلاٹ مفت نواز لیگ کے کارکنوں میں تقسیم کئے جانے کا کیس‘ جن کی قیمت پچاس کھرب روپے سے زائد بنتی ہے ‘ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ملک کا آئین اور قانون کہاں ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved