تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     20-09-2016

طریقہ ہائے علاج (2)

گزشتہ ہفتے میرے کالم کا لب لباب یہ تھا کہ مختلف طریقہ ء ہائے علاج میں صرف ایلو پیتھک ہی میں جدید ترین تحقیق اور مجموعی انسانی حکمت کا درست استعمال کیا جاتاہے۔ یہاں کچھ معیارات Standards) (کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے ۔ کچھ کرم فرمائوں کو اس سے رنج پہنچا۔ ایک صاحب نے لکھا : تشخیصی سائنس (Diagnosis)اور طریقہ ء علاج دو الگ الگ چیزیں ہیں ، جنہیں میں نے نادانستگی میں یکجا کر دیا ہے ۔ 
حقیقت یہ ہے کہ تشخیص کے لیے درکار جدید ٹیسٹ جیسا کہ ایکس ریز، اینڈو سکوپی یعنی کیمرے سے معدے اور آنتوں کا جائزہ لینا، سٹی سکین، الٹرا سائونڈ، ایکو(Echo)، ای سی جی، ای ای جی اورخون کے مختلف ٹیسٹ ایلوپیتھک ہی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایلو پیتھک ڈاکٹر علاج سے قبل تشخیص کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں ۔ دوسری طرف آپ مختلف حکیم صاحبان اوریونانی دواخانوں کو دیکھیں تو وہاں ایک صاحب آپ سے علامتیں پوچھ کر دوا تجویز فرمادیتے ہیں ۔ بعض حکیم صاحبان ادویات میں چاندی کے ورق استعمال کرتے ہیں ۔ گردے انہیں صاف کر کے جسم سے خارج نہیں کرپاتے اور وہ ناکارہ ہو جاتے ہیں ۔ 
صرف اور صرف ایلو پیتھک یا انگریزی طریقہ ء علاج ہی میں ہر مرض اور مختلف اعضا کے ماہر الگ ہوتے ہیں ۔ مثلاً گردوں کا ڈاکٹر آپ کو جلد کی دوا نہیں دے گا۔ یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک ہی حکیم آپ کو جلد سے لے کرپھیپھڑوں تک کی دوا کیسے تھما سکتا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایلو پیتھک میں ایک کم از کم معیار (Minimum Standard)کا خیال رکھا جاتاہے۔ اس سائنس میں پڑھائی اور عملی امتحان بہت سخت ہوتے ہیں ۔ انٹر کے بعد چھ سال میں ایم بی بی ایس کے سخت امتحانات پاس کرنے والے بعد ازاں ہائوس جاب کرتے اور ایک ایک چیز سیکھتے چلے جاتے ہیں ۔ شروع میں جن ٹیسٹوں کا میں نے ذکر کیا ہے ، جیسا کہ الٹرا سائونڈ، ایکسرے اور اینڈو سکوپی اور بلڈ ٹیسٹ وغیرہ، ان سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی عضو ، جیسا کہ گردہ ٹھیک کام کررہا ہے یا نہیں ۔ اس کے برعکس دوسرے طریقہ ء ہائے علاج میں بہت سا قیمتی وقت ٹامک ٹوئیاں مارنے میں ضائع ہو جاتا ہے ۔ ایلو پیتھک کے سخت معیارات کے برعکس، دوسرے طریقہ ہائے علاج میں نالائق افراد کی ایک بڑی تعداد معالج بننے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ ایسے ہی ایک کرم فرما نے ایک بار مجھے یہ بتایا:پتّے میں پتھری کی اصل وجہ یہ ہے مریض کو شروع شروع میں قبض ہوتی ہے ۔ جب اس کا علاج نہیں ہوتا تو معدہ متاثر ہوتاہے اور جب معدے کا علاج نہیں ہوتا تو پتّے میں پتھری بن جاتی ہے ۔صحت کی بنیادی سائنس سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے ۔سونے پر سہاگا یہ کہ اس نے ایک دوا بنا رکھی تھی ، اس کے بقول جسے کھانے والا پتّے کی پتھری سے بچا رہے گا۔ 
مجھے جلد کے کچھ مسائل وراثت میں ملے ہیں ۔ سر اور چہرے پر خشکی کے بڑے بڑے ٹکڑے) (flakesبن کر اترتے ہیں ۔ ٹانگوں میں زخم بن جاتے ہیں ، جن سے بدبو آتی ہے ۔ شفا انٹر نیشنل ہسپتال میں ڈاکٹر رشید احمد اور شافی انٹر نیشنل میں ڈاکٹر سامعہ نے مرہم نما دوا لکھ کر دی۔ یہ بات انہوں نے صاف بتا دی کہ جلد کی ساخت ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔ یہ مسائل ساری زندگی ساتھ چلیں گے لیکن دوا باقاعدگی سے لگا کر تکلیف سے بچا جا سکتاہے ۔ مہینے میں چار پانچ روز دوا لگا لی جائے تو مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات کہ اکثر میں بھول جاتا ہوں اور تکلیف ہونے پر ہی دوا لگاتا ہوں۔ ٹانگوں کے زخم جراثیم کی ایک قسم فنگس کی وجہ سے تھے اور وہ تقریباً مندمل ہو چکے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر حکیم صاحب کے پاس جائیے تو وہ بتاتے ہیں ، گوشت نہیں کھانا، سبزی کھانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب جب وہ کینسر سے لے کر پتّے اور آنکھوں سے لے کر جلد تک ہر چیز کے ماہر بنے بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے جلد کی ساخت پڑھی ہے ، نہ خوردبین میں دیکھی ہے اور جب انہیں جراثیم کے نام تک تومعلوم نہیں ۔ نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ جراثیم ہوتے کس طرح کے ہیں اور نہ یہ خبر کہ کس کیمیکل یا عنصر سے انہیں تلف کیا جا سکتاہے تواس کے سوا اور کیا مشورہ دے سکتے ہیں ۔ 
جہاں تک دوائوں کے منفی اثرات (Side Effects)کا تعلق ہے تو ہر دوا کے نقصانات ہوتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہوتاہے کہ دوا لینے سے مریض کو فائدہ زیادہ ہوگا یا نہ لینے سے نقصان زیادہ ہوگا۔ جو بھی ادویات آ پ لیتے ہیں ، وہ مختلف عناصر ہیں ۔ جو چیزیں انسانی یا حیوانی جسم کے لیے مفید ہیں ، وہ قدرتی طورپر اگتی ہیں اور انہیں کھانا نقصان دہ نہیں ہوتا، جیسا کہ گندم، چاول، خربوزہ، کھجور وغیرہ ۔ اب اگر ایک بندے کو ایسی بیماری لاحق ہے ، جس میں اسے کوئی کیمیکل بڑی مقدار میں لینا پڑے تو ظاہری سی بات ہے کہ اس کے نقصانات بھی ہوں گے ۔ ڈاکٹر حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ ادویات ٹافیاں نہیں ہیں کہ جنہیں کھانے کا کوئی نقصان نہ ہو۔ ہاں البتہ دوا نہ لینے کا نقصان بہت زیادہ ہوتاہے اور دوا لینے کا نقصان بہت کم ۔مثلاً گردے کا مریض اگر سالہا سال مشین سے خون صاف کراتا رہے تو اسے ہیپاٹائٹس بی ہونے کا خطرہ ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں کہ اگر ڈائلسز نہ کرایا جائے تووہ ہفتوں کے اندر اندر مر جائے گا۔ 
جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا ، ہر گھر میں آپ کو ایک آدھ ایسا بندہ مل جائے گا، جو آ پ کو ایک ایسے حکیم، جوگی ، یونانی دوا خانے وغیرہ کا پتہ بتائے گا، جس کی ایک خوراک کھاتے ہی آپ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔ اس کا تعلق حقیقت کی بجائے یقین کرنے (willingness to believe)سے ہوتاہے ۔ مثلاً پتّے میں پتھری کا درد شدید ہوتاہے ۔ اب اگر آپ حکیم سے علاج کرا رہے ہیں تو ساری دنیا کو بتاتے پھریں گے کہ تین دن دوا کھائی اور درد ٹھیک ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پتھری نے حرکت کرنا بند کر دی اور آپ کی درد ختم ہو گئی ۔ عین ممکن ہے کہ دو سال تک وہ ساکن رہے ۔ یہ بات البتہ طے ہے کہ جب بھی وہ حرکت کرے گی ، درد دوبارہ اٹھے گا۔ سرجری کے ذریعے اسے نکالنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ۔ 
میں نے کہاـ: ڈاکٹر صاحب مریض درد سے تڑپ رہا ہے ۔ ڈاکٹر نے یہ کہا : ایک دفعہ دردکش انجیکشن لگایا جا چکا ہے ۔ چھ گھنٹے سے پہلے دوبارہ لگا یاتو گردوں کو نقصان ہو سکتاہے ۔ اس کے برعکس اگر آ پ یونانی دوا خانوں اور حکما وغیرہ سے رابطہ کریں تو وہ آپ کو ایسی ادویات دیں گے ، جن سے درد فوراً ختم ہو جائے گا۔ بعد ازاں جسم کے مختلف اعضا گردوں اور جگر وغیرہ کو کیا نقصان پہنچے گا، وہ آپ کی اپنی قسمت۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved