تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-09-2016

ہنسانے والے باپ کی رلانے والی بیٹی

یہ لینہ حاشر کون ہے؟جن کا زیرنظر کالم سوشل میڈیا سے ڈھونڈکر ،آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ''عزیزی ‘‘انور مسعود کی بیٹی نے مجھے رلا دیا۔ دیر تک روتا رہا۔ ہنسانے والے باپ کی‘ رلانے والی اس بیٹی کے دل میں، کس قدر ہمہ جہت دکھ بھرے ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے ۔
''ماں جی!
میری عمر نو دس برس کی تھی ‘جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے ‘گھر سے بے گھرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بے حس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد ''روانی‘‘ تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیظ و غضب کے آگے بھی تھمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تھا کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھیں مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بھی۔
محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں سے ،جب ابا بے قابو ہو جاتے ،تو پھر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقوش لئے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا ،جو پورے گھر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن ،جب رات میں ڈھلتا ،تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤںآتیں۔ مجھے سینے سے لگاتیں، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتیں۔ میرا سر اپنی گود میں لئے ،گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتیں۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری ہچکیاںبندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ ،اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ؟ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی رہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی ،اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں ،گھر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی ،مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا؟ یہ رحمت ہر بار میرے لیے زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں !میرے ہر سوال کے جواب میں ،تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بھری نگاہ ڈالتی اور کچھ نہ بولتی۔ بس !کبھی تم میرے ماتھے کا بوسہ لیتیں اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر‘ اس بات کی گواہی دیتیں کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تھک جاتا اور نیند کی آخری آغوش میں چلا جاتا ۔ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی ؟جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ،ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔
ہاں! تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے ،میں یہ دعا بھی کیا کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لبادہ اوڑھ لیتی ،جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔جس دن ابا نے مجھے گھر سے نکالا، اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر، رکھی ہوئی لالی سے، اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے۔ تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے ،تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کر،خوش ہو رہا تھا۔ بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے ،مجھ پر پھر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پھرگالی گلوچ کرتے اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے ‘مجھے ''زنخا زنخا‘‘ کہتے ہوئے اور مجھے ہمیشہ کے لئے سب گھر والوں سے دور کر دیا۔میرے لیے ابا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ''آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔‘‘ یہ جملہ سنتے ہی ،میری ہاتھوں کی گرفت ،جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا، کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہو گئی۔ میرے آنسو تھم گئے ،کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم !ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتیں۔
اس کے بعد، ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چھوڑ گئے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانے کی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی ۔لیکن جب کبھی موقع ملتا ، میںتمہاری محبت میں گرفتار اپنے گھر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے، جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پھر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر ،میرے بہن بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لئے، میں اکثر گھر کے باہر رکھی ہوئی سوکھی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بھگو بھگو کر کھاتا۔
بعد کی عیدیں ،تو تنہا ہی تھیں ،پر جب ،گھر بدر نہ ہوا تھا، تب بھی عید پر، جب ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکھتے ،تو میرا ہاتھ پھیلا ہی رہ جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بھر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی رہ جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے، تو میرا سر جھکا ہی رہ جاتا۔صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل ،جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا ،تو ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں۔ مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی رہی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد ،میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا، جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند شرفا، گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ ماں! میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کھو بیٹھا تھا۔ پھر اسی بے ہوشی کے عالم میں ،مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا ،مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاہ نہ تھی۔پھر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا۔ در در نوکری کی تلاش میں پھرتا رہا۔ مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔
ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گھر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔ حالانکہ ہماری رگوں میں بھی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے، جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح ہی دھڑکتا ہے۔ تو پھر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟ شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔
ماں !میں ساری زندگی جینے کی چاہ میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر، تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر، ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکھانے کی کوشش میں، آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ ''اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔‘‘ میں نے بہت مشکل سے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ'' اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟‘‘ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لئے، چند لمحوں کی درخواست کی۔ نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ !کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے لگائو گی۔ میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر، میرے زخموں کی ٹکور کر کے، مجھے اس دنیا سے رخصت کرو گی۔ لیکن موت کے فرشتے نے ، چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔
سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کے حوالے سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پھیرنا۔
تمہاری محبت کا طلبگار
تمہارا بیٹا‘‘
بشکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved