تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-09-2016

کچھ مُفت کے مشورے

الطاف حسین کا زخم خوردہ جن انگڑائی لے کر پھر اَُٹھنے والا ہے لیکن قوم کو اس سے ڈرانے کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اس محاورے کی پاسداری کی ہے کہ چور کی نہیں‘ چور کی ماں کو مارو۔ کیونکہ اگر چور کی ماں کو نہیں ماریں گے تو چور اسی طرح دندناتے پھریں گے۔ لیکن جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ چور کی ماں کون ہے‘ کوئی اُسے پوچھتا تک نہیں۔ اُسے چوروں کی حمایت اس لیے درکار ہے کہ اس کا اپنا کیا دھرا سارا خطرے میں ہے۔ چنانچہ اپنے ذاتی اور سیاسی تحفظ کے لیے وہ سب کچھ دائو پر لگانے کو تیار ہے اور یہ سب کچھ ہم آپ سب کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔
رینجرز کے ذریعے فتنہ پردازوں کو نکیل ڈال کر کراچی کو خاصی حد تک امن کا گہوارہ بنا دیا گیا تھا۔ الطاف بھائی کے جہاں اپنے کابلے کسنے کا اہتمام ہو رہا تھا وہاں ان کے سرکردہ جانبازوں پر بھی ایک ایک کر کے ہاتھ ڈالا جا رہا تھا۔ صاحب موصوف سمیت دیگران کے خلاف ثبوت بھی موجود تھے لیکن ابھی تک کسی کے خلاف بھی سزا و جزا کی نوبت نہیں آئی تھی کیونکہ ایک حکمت عملی کے طور پر درگزر کا ایک انداز جو روا رکھا جا رہا تھا‘ وہ صاف نظر بھی آ رہا تھا۔ بھارت کے جاسوسوں اور تربیت یافتگان کو چُھوٹ اس لیے دی جا رہی تھی کہ خود بھارتی وزیراعظم کے لیے دل میں نرم گوشہ موجود تھا۔ الطاف حسین کے خلاف بھی کسی کارروائی میں یہی امر مانع تھا۔
کراچی کی گردش ایام کو اب کُھل کر پیچھے دوڑانے کی کارروائی باقاعدہ شروع کی جا چکی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنا اصل چہرہ دکھانا 
شروع کر دیا ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد یہ اعلان بھی سامنے آ سکتا ہے کہ اب الطاف بھائی مکمل طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں اور آئندہ ان کی طرف سے کسی ناشائستہ اور غلط بات کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے اور وہ خود بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ اوّل تو اب اس کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حالات نے ان کے حق میں خود ہی کروٹ لے لی ہے اور ان کے کعبے کو خود ہی صنم خائوں سے پاسبان مل گئے ہیں۔
برطانیہ کے بارے میں کھل کر کہا جانے لگا ہے کہ بھائی برطانیہ کا خاص منظور نظر ہے اور ہم برطانیہ کو پھر بھی اپنا دوست ہی گردانتے ہیں۔ یہی صورتحال امریکہ کی بھی ہے۔ لیکن اگر ہم خود ہی اپنے دوست نہیں ہیں تو دوسروں سے کیا شکوہ‘ پورے ملک اور اس کے وسائل کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اسے تو فی الحال ایک طرف ہی رکھیے‘ کراچی کو اپنی سابقہ حالت پر لانے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے اس کے لیے الگ پریشانی کی ضرورت ہے۔ عمران خاں ابھی کوئی بڑی سیاسی شخصیت یا طاقت نہیں ہے لیکن وزیراعظم خود اتنے کمزور اور سیاسی دبائو کا شکار ہو چکے ہیں کہ عمران خاں ان کے اعصاب پر باقاعدہ سوار ہو چکے ہیں۔ اس لیے انہیں کراچی کی حد تک بھی پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم 
کیو ایم کی بھی ضرورت ہے اور جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور ماشاء اللہ جا بھی رہے ہیں اور جس کے مظاہر اور علامات سامنے بھی آ رہے ہیں۔
ایکشن پلان پر جس بے دلی سے عمل کیا جا رہا ہے بلکہ ایک طرح سے اسے ناکام ہی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ وہ سب پرعیاں ہے‘ اصل مسئلہ خاصی حد تک نفسیاتی بھی ہے کہ انہیں آرمی چیف کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ہر دلعزیزی ایک پل چین نہیں لینے دیتی حالانکہ ان کے مقاصد میں یہ شامل ہی نہیں تھی۔ چنانچہ اگر اچھے کاموں کی وجہ سے ان کو ہر طرف سے شاباش مل رہی ہے اور صاحب موصوف اپنے کارہائے نمایاں و خفیہ کی وجہ سے بدنامی مول لے رہے ہیں تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ہے۔ چنانچہ یہ اسی حواس باختگی کے شاخسانے ہیں جو وہ اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مارتے دکھائی دیتے ہیں اور اس بات کی بھی پروا نہیں کر رہے کہ وہ اس طرح ملکی سلامتی کی راہ میں کیسی کیسی دیواریں کھڑی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اصل میں تو ان کا سارا کام ہی ضرب عضب آپریشن سے خراب ہوا ہے کیونکہ وہ تو قیامت تک طالبان سے مذاکرات ہی جاری رکھنا چاہتے تھے تاکہ دونوں کا اُلّو سیدھا رہے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور وہ اس چوٹ کو اب تک سہلا رہے ہیں اور ان ساری چیزوں نے مل کر ان کے لے نفسیاتی مسئلہ پیدا کر دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کو اپنا اصل حریف سمجھنے لگ گئے ہیں جبکہ عمران خان کی پیدا کردہ پریشانی نے ان کے سونے پہ سہاگے کا کام دے دیا ہے اور لوگوں کے علاوہ اپنی تسلی کے لیے بھی وہ فوج کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہونے کا ڈھونگ بھی رچا رہے ہیں اور چونکہ دونوں کا ان کے پاس کوئی علاج نہیں ہے اس لیے وہ بروقت اپنے آپ کو مضبوط اور محفوظ کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ مرتا آخر کیا کرتا۔
اب چونکہ موصوف حکمت عملی کے طور پر یہ طے کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہر صورت آرمی چیف کے اُلٹ ہی چلنا ہے چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے تو ہمارے خیال میں بہتر یہی رہے گا کہ آرمی چیف خود ہی پیچھے ہٹ جائیں اور اس مرزے یار کے لیے گلیاں بے آباد کر دیں اور ملکی سلامتی کے بارے میں بھی پریشان ہونا چھوڑ دیں کیونکہ اگر اس ملک نے قائم رہنا ہے اور پھر یہ موجودہ حکمرانوں کے باوجود ابھی تک قائم ہے تو اُسے کچھ نہیں ہوتا ۔
آرمی چیف کو اس سارے دخل در معقولات کو چھوڑ کر اپنے اس کام سے کام رکھنا چاہیے جو بنیادی طور پر اس کا ہے یعنی سرحدوں کی حفاظت۔ خارجہ امور سے بھی دست کش ہو جانا چاہیے اور یہ بھی وزیراعظم کی معروف سٹیٹس مین شپ کے حوالے کر دینے چاہئیں جبکہ کشمیر پالیسی وہ پہلے ہی نہایت کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ ایکشن پلان جیسی فروعات سے قطع تعلق کر لینا چاہیے تاکہ جمہوری حکومت کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملے اور وہ اپنے جوہر دکھا سکے‘ ہیں جی؟
ابتدائی طور پر صاحب موصوف کو کراچی سے رینجرز کو واپس بلا لینا ہو گا تاکہ صوبائی حکومت ان کی راہ میں صبح و شام روڑے اٹکانے کی بجائے یکسو ہو کر دونوں ہاتھوں سے حسب سابق عوام کی خدمت میں مصروف ہو جائے اور کراچی کو اللہ میاں کے سپرد کر دیا جائے جو سب سے بڑا کارساز ہے بلکہ اس سے بھی پہلے انہیں پنجاب سے بھی رینجرز کو واپس بلانا چاہیے پیشتر اس کے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات شروع ہو جائیں کہ آدمی کی عزت خود اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اوّل تو رینجرز کی پنجاب میں اب ویسے بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ جملہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کو جانباز پنجاب پولیس نے اِدھر اُدھر بھگا دیا ہے کہ کہیں رینجرز کے ہتھے نہ چڑھ جائیں کہ آخر جان بچانا تو ویسے بھی فرض ہے۔ ع
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
آج کا مطلع
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دنیا میں رہتا ہوں
مگرمچھ سے نہیں بنتی مگر دریا میں رہتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved