تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     22-09-2016

یادیں اور پچھتاوے

مرتضیٰ بھٹو کی 20 ویں برسی پر ہمیں اپنی ایک پرانی تحریر یاد آئی‘ سترہ‘ اٹھارہ سال پہلے کی ایک تحریر...جدہ میں بارہ سال قیام کے بعد‘ واپسی پر بہت سی چیزیں وہیں رہ گئیں۔ کام کی کچھ چیزیں ہی ساتھ لا سکے۔ ان میں ہمارا وہ آرٹیکل بھی تھا جو محترمہ بینظیر بھٹو کے ایک مختلف اور منفرد انٹرویو پر لکھا گیا۔ انگریزی روزنامے عرب نیوز میں شائع ہونے والے اس انٹرویو میں محترمہ نے بڑے دلگداز انداز میں اپنے ذاتی المیوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ مرتضیٰ بھٹو کی 20 ویں برسی پر خیال آیا کہ کیوں نہ اس آرٹیکل کے کچھ حصے آج کے کالم میں نذر قارئین کر دیئے جائیں:۔
''بھٹوز تو پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوتے ہیں‘‘ بیگم نصرت بھٹو نے یہ الفاظ عجب عالم سرخوشی و سرمستی میں ادا کئے تھے۔ یہ ان کی صاحبزادی کا دوسرا دور اقتدار تھا اور خود بینظیر صاحبہ نے ایک بار نہیں‘ متعدد بار یہ بات کہی ''ہم کوئی فقیر فقرا اور غریب غربا تو نہیں‘ میں وزیراعظم‘ بنتِ وزیراعظم‘ ابنِ وزیراعظم ہوں‘‘۔ ماں بیٹی کے یہ دعوے کچھ ایسے بے بنیاد بھی نہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو نے اگرچہ سندھ کے الیکشن میں قاضی فضل اللہ سے شکست کھائی تھی لیکن نواب آف جوناگڑھ کا دیوان ہونے کا اعزاز تو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا تھا (تب دیوان کو وزیراعظم ہی کے معنوں میں لیا جاتا تھا) ''ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ سرشاہنواز کا چھوٹا صاحبزادہ اپنے بچپن اور لڑکپن ہی میں برادری کے دیگر لڑکوں سے مختلف نظر آتا تھا‘ بلا کا ذہین... موقع محل کی مناسبت سے اپنی ادائوں سے دوسروں کے دل جیت لینے والا...قانون کی اعلیٰ تعلیم کے بعد‘ وطن واپس آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سکندر مرزا کی مارشل لاء کابینہ میں وزیر بن گیا۔ کہا جاتا ہے اس میں اس کی دوسری بیگم ایرانی نژاد نصرت بھٹو کا اہم کردار تھا جو سکندر مرزا کی ایرانی نژاد اہلیہ ناہید سے گہری قربت رکھتی تھیں۔ 20 روز بعد جنرل ایوب نے سکندر مرزا کو رخصت کر کے اقتدار براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیا تو برطرف شدہ کابینہ میں صرف ذوالفقار علی بھٹو تھے جو نئی کابینہ میں بھی موجود تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار اسمبلی میں گوہر ایوب پر آمر کی اولاد ہونے کی پھبتی کسی تو گوہر ایوب نے ''نکتہ وضاحت‘‘ پر کہا ''ہمارا ایک بھائی ذوالفقار علی بھٹو بھی تھا‘‘۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے واقعی بھٹو کو اپنے بیٹوں کی طرح چاہا‘ بھٹو بھی انہیں ڈیڈی کہا کرتے تھے۔
1971ء کے المیہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد‘ بھٹو صاحب بچے کھچے پاکستان میں برسرِاقتدار آئے تو سیاست میں ان کا آئیڈیل سوئیکارنو اور نکرومہ جیسے ڈکٹیٹر تھے۔ وہ بھی عشروں تک برسرِاقتدار رہنے کے خواب دیکھنے لگے۔ انہیں اپنی ذات اور خود اعتمادی پر بہت ناز تھا‘ یہاں تک کہ وہ خود فریبی کا شکار بھی ہو جاتے۔ 1977ء میں اپنے وفادار ترین جرنیل کے ہاتھوں ایوانِ اقتدار سے رخصتی اور پھانسی کے پھندے پر جھول جانا قسمت کا کھیل بھی ہو گا لیکن اس میں خود ان کی اپنی فسطائی حکمت عملیوں اور آمرانہ رویوں کا دخل بھی کم نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 3 اپریل 1979ء کو جب نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو ان سے آخری ملاقات کے لیے آئیں‘ جناب بھٹو اس وقت بھی ''پراعتماد‘‘ تھے۔ انہوں نے سسکتی بلکتی بیوی اور بیٹی سے کہا تھا ''ان سے کہو ڈرامہ بند کریں۔ یہ مجھے پھانسی نہیں چڑھا سکتے۔ یہ ڈرامہ مجھے خوف زدہ کرنے کے لیے ہے‘‘۔
اپنے باپ کا انتقام لینے کے لیے جواں سال مرتضیٰ اور شاہنواز کی خود ساختہ جلاوطنی‘ الذوالفقار کا قیام اور اِدھر اندرونِ ملک ماں بیٹی کی طویل نظربندی‘ غریب الوطنی میں شاہنواز کی موت‘ بھٹو خاندان کے المیوں کی فہرست طویل ہوتی جا رہی تھی۔ مارشل لاء کے خاتمے اور ضیاء الحق کی چھتری کے نیچے جونیجو کی سول حکومت کے دوران بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور یہاں پُرہجوم خیرمقدم نے زخموں پر پھاہا رکھ دیا تھا۔
1988ء میں جونیجو حکومت کی برطرفی اور پھر خود جنرل ضیاء الحق کی اپنے سینئر رفقاء کار کے ہمراہ سانحہ بہاولپور میں رحلت کے بعد بھٹو خاندان پر اقتدار کے دروازے دوبارہ کھلے لیکن اقتدار کے ساتھ یہ ہنی مون صرف اٹھارہ ماہ چلا۔ صدر اسحاق نے جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کی تائید و حمایت کے ساتھ ان کی رخصتی کا فرمان جاری کر دیا تھا... لیکن بھٹو کی بیٹی سوا تین سال بعد پھر برسرِاقتدار تھی‘ اس بار پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ... اب صدر بھی ان کا اپنا تھا‘ آرمی چیف بھی بھروسے کا تھا‘ امریکہ کی سرپرستی بھی حاصل تھی (کہ امریکی نوازشریف کے اقتدار میں بہت نالاں رہے تھے) پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں حکومتیں بھی اپنی یا اپنے حلیفوں کی تھیں‘ لیکن اس بار پھر وہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکیں۔ اب حملہ اپنے صدر نے کیا تھا۔ لیکن اقتدار سے محرومی کی نسبت کہیں زیادہ گہرا زخم مرتضیٰ کا قتل تھا جو اپنی بہن کے اقتدار میں اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر کسی نقاب پوش دہشت گرد کے ہاتھوں نہیں بلکہ سرکاری کارندوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں تمام زخموں اور تمام صدموں کے باوجود‘ مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرنے والی بے نظیر بھٹو اپنی داخلی شکست و ریخت کو چھپا نہ پائیں۔ حسرتوں اور پچھتاووں کی یلغار میں وہ پکار اٹھتی ہیں: ''میں نے مرتضیٰ سے صلح کے لیے زیادہ کوشش کیوں نہ کی۔ میں اس کی برتھ ڈے (18 ستمبر...اس کے قتل سے دو دن پہلے) بیمار کیوں پڑ گئی۔ سوچتی ہوں‘ میں اس روز اسے سالگرہ کی مبارکباد کے لیے فون کرتی تو شاید وہ اپنی گرفتاری کے خدشے کا اظہار کرتا اور میں اسے بتاتی‘ نہیں میر! تمہاری گرفتاری کے لیے کوئی وارنٹ جاری نہیں ہوئے۔ میں اسے یقین دلاتی کہ وفاقی حکومت کی کلیرنس کے بغیر اس کی گرفتاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔
حسرت کی ایک اور لہر ابھرتی ہے‘ ''مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں گزشتہ دس سال میں ان لوگوں کو کیوں نہ پہچان سکی جنہوں نے میرے لیے مصیبتیں پیدا کیں۔ میں لوگوں پر اتنا اعتماد کیوں کر لیتی ہوں؟‘‘ اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ''مجھے فی الواقع بہت دکھ ہے کہ میں یہ اندازہ ہی نہ کر سکی کہ کرپشن کا ایشو کتنا سنگین ہو گیا ہے۔ مجھے اس حوالے سے پائے جانے والے تصورات کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے تھی‘‘۔
اپنے المیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں! ''میری زندگی کا پہلا بحران میرے والد کی پھانسی تھی۔ دوسرا اور تیسرا المیہ شاہنواز اور مرتضیٰ کی اموات تھیں جنہوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ چوتھا المیہ فاروق لغاری کی ''غداری‘‘ تھی۔ آخری لمحے تک وہ یہی ظاہر کرتا رہا کہ میرا وفادار ہے۔ میں اس سے پوچھتی‘ تم مجھ سے ناخوش ہو؟ اور ہمیشہ اس کا جواب ہوتا ''نہیں تو‘‘...پانچواں بحران خاوند اور بچوں سے جدائی ہے۔ خاوند جیل میں ہے اور میں بچوں کو کراچی میں محفوظ تصور نہیں کرتی تھی جہاں دہشت گرد کھلے چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ میری بہن صنم نے پیشکش کی کہ میں بچوں کو اس کے پاس لندن بھجوا دوں لیکن دبئی تو صرف دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔‘‘بے نظیر نے خلائوں میں دیکھتے ہوئے کہا : ''میں اپنے آبائی قبرستان میں تین قبریں دیکھ کر غم میں ڈوب جاتی ہوں۔ تب مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب ہم بچے تھے اور کراچی میں ''المرتضیٰ‘‘ (70 کلفٹن) کے باغیچے میں دوڑتے پھرتے۔ ہم اکٹھے وہاں ہرن کو گھاس اور طوطوں کو دانہ ڈالتے۔ ہم اکٹھے کھیلتے‘ قہقہے لگاتے‘ ہم بہت مذاق کرتے۔ ہم کتنا خوش نصیب گھرانہ تھے۔ میں سوچتی ہوں‘ اسے کس کی نظر لگ گئی۔ یہ سب کیا ہوا؟ اس وقت میری مایوسی اور بڑھ جاتی ہے جب میں سوچتی ہوں کہ میرے مقتول بھائیوں کے بچے میری شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں۔ ان کے معصوم ذہنوں کو ہمارے خلاف کتنا زہرآلود کر دیا گیا ہے؟‘‘
تب یوں لگتا ہے‘ فولادی اعصاب کی حامل خاتون پگھلنا شروع ہو گئی ہے ؎
خزاں دلوں میں جڑیں چھوڑنے کی فکر میں ہے
کہاں گیا مرے پروردگار موسم گُل
(12اپریل 1999ء)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved