تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-09-2016

پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا : ؎
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر
جیسا کہ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا : ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔
اتوار کی شب کراچی پہنچا اور اب بدھ کی دوپہر تک کئی باخبر لوگوں سے ملاقات ہو چکی۔ کچھ ان کے سوا بھی جو اندازوں اور افواہوں پہ بسر کرتے ہیں۔ ایک رائو انوار باقی ہیں۔ اُمید ہے کہ کچھ دیر میں ان کے نیاز حاصل ہونگے اور ایک حد تک تصویر مکمل ہو جائے گی۔
بیس برس ہوتے ہیں‘ لاہور کے قوّت متخیلہ سے مالا مال ایک اخبار نویس دہلی پہنچے۔ کلدیپ نیئر سے ملاقات ہوئی تو فصاحت کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ کچھ دیر ہنستے رہے۔ پھر پوچھا : کب سے آپ اس شہر پہ عنایت فرما رہے ہیں۔ ''سات دن سے‘‘ انہوں نے کہا۔ بزرگ اخبار نویس نے حیرت سے انہیں دیکھا اور بڑ بڑائے‘ نصف صدی سے دارالحکومت میں مقیم ہوں‘ مگر اس اعتماد سے گفتگو نہیں کر سکتا۔
جو جانتے ہیں‘ وہ محتاط ہیں؛ چنانچہ فتویٰ صادر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ جن کی کوئی ذمہ داری نہیں اور کسی کے سامنے وہ جوابدہ نہیں‘ وہ کچھ بھی ارشاد کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دوست نے کاروبار جن کی تگ و تاز کا مظہر ہے‘ کل شب سمندر کنارے کی ضیافت میں ہم سب کو مطلع کیا کہ کراچی میں رینجرز کا ہر چوتھا آدمی ذاتی کاروبار میں مصروف ہے۔ مزید برآں یہ کہ امسال پاکستانی فوج نے‘ شوال میں اربوں روپے کی چلغوزوں کی فصل کا نصف ہتھیا لیا۔ پہلی بات پر حتمی تبصرے سے مسافر نے گریز کیا۔ دوسری افواہ پر عرض کیا : اپنی ایک ماہ کی تنخواہ میں آپ کی نذر کروں گا‘ اگر آپ یہ الزام ثابت کر سکیں۔ اس پر تھوڑا سا وہ کسمسائے‘ حسب توفیق تھوڑا سا شرمائے اور یہ فرمایا : مارکیٹ میں اطلاع یہی ہے۔
افواہوں اور مغالطوں کی اس گرم بازاری کے باوصف‘ خواص اور عامی‘ ملکی اور غیر ملکی‘ لیڈر اور اخبار نویس‘ این جی اوز کے بھڑبونجے‘ اپنی استعداد کے مطابق، مسلسل جس میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں، کچھ حقائق واضح ہیں اور کچھ سوالات پوری طرح نمایاں۔
سب سے اہم یہ کہ 22 اگست سے پہلے کا کراچی اب کبھی بحال نہ ہو سکے گا۔ وہ دن جب الطاف حسین نے پاکستان کو دنیا کا کینسر کہا اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ دوسری جماعتوں سے یہ مختلف رہی ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے، سیاسی کارکن اور عہدیدار، دوسری پارٹیوں میں بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ایک لشکر ہے، تربیت یافتہ اور اشارے کا منتظر۔ خون بہانے کا عادی Trigger Happyسیکٹر انچارج، جن کے دفاتر تھے اور جو ایک مافیا کی تشکیل کا، اہم ترین حصہ تھے۔ صدر دفتر 90 سمیت، جس کا دوسرا نام بیگم خورشید ہال بھی ہے، یہ سب کے سب دفاتر اُجڑ چکے۔ فاروق ستار خواہ الٹے لٹک جائیں، ان کی بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن وہ لڑ سکتے ہیں، ووٹ لے سکتے ہیں، تقریر فرما سکتے ہیں، صف بندی کرسکتے ہیں، مگر ہڑتال نہیں کرا سکتے۔ وہ کیا، کوئی اور بھی شہر کو خوف زدہ نہیں کرسکتا۔ بلیک میل نہیں کر سکتا۔
غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر گرائے جا چکے، باقی برباد ہیں۔90 اب کبھی انہیں واپس نہ ملے گا۔ اس کا ایک بڑا حصہ سرکاری اراضی پر مشتمل ہے۔ جتنا جائز ہے، وہ الطاف حسین کے ایک بھائی کے نام ہے۔ پارٹی کا کوئی تعلق اس سے نہیں۔ کیا اسے گرا دیا جائے گا، یا کسی قومی ادارے کی شکل اختیار کرے گا۔ اس سوال پرسنجیدگی سے غوروفکر کا آغاز ابھی نہیں ہوا۔
تربیت یافتہ قاتلوں میں سے ساڑھے چھ سو گرفتار ہیں، کچھ فرار ہو کر بیرون ملک چلے گئے یا ملک کے باقی حصوں میں۔ واپسی کے وہ آرزومند ہیں مگر واپس آ نہیں سکتے۔ پیر اور منگل کے دن واسع جلیل اور ندیم نصرت کی تقاریر سے آشکار ہے کہ وطن واپسی کی امید ختم ہو چکی۔ باقی زندگی وہ بھارت کا گیت گاتے رہیں گے۔ مہاجروں، بلوچوں اور پشتونوں کے لیے ''آزادی‘‘ کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ برطانوی حکومت سے کچھ زیادہ امید نہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ بہادراور بھارت کا وہ تزویراتی حلیف ہے اور کم از کم لندن کی ایم کیو ایم بھارت کے علاوہ‘ خود ان کا ایک اثاثہ۔چین کے ساتھ‘ پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی روابط‘ ارض پاک میں بیجنگ کی طرف سے‘ سینکڑوں ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے امکان نے انکل سام کو ناراض کر دیا ہے‘ انگریز سرکار کو بھی‘ بھارت مشتعل ہے۔ اس کے لیڈر اعلان کر چکے کہ پاک چین تجارتی راہداری بنانے کی وہ اجازت نہ دیں گے۔
بار بار جنرل راحیل شریف کا جملہ یاد آتا ہے‘ ایوان صدر اسلام آباد میں‘ صدر اشرف غنی کے اعزاز میں برپا تقریب میں‘ جو انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا۔ امریکہ کا وہ قصد رکھتے تھے۔ عرض کیا: افغانستان اور چین کے دورے تو کامیاب رہے‘ امید ہے ‘ اس کی بھی بھر پور تیاری آپ نے کی ہو گی۔ ایک ذرا سی تمہید کے بعد کسی توقف اور تامل کے بغیر کہا: اس خطے کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔
چین کو امریکہ اب اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ وہ امریکہ جو ستر برس سے ایک نیا عالمی نظام تشکیل دینے کے لیے سرگرم ہے اور جنرل ڈیگال کے بقول دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ پاکستان چین کا حلیف ہے ۔ دفاعی معاہدہ کوئی نہیں۔ مستقبل قریب میں ہو گا بھی نہیں لیکن پاکستان کی بقا اور استحکام‘ بیجنگ کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے امریکہ کے لیے اسرائیل کے۔ اسرائیل کے برعکس پاکستان ایک ناجائز ریاست نہیں۔ اس کے اندرونی معاملات میں چین کی کوئی مداخلت بھی نہیں۔ بھارتی عزائم اور دونوں کی مشترکہ ضروریات اب انہیں قریب تر لاتی جائیں گی۔ اڑی حادثے کے بعد‘ پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں‘ چین کو اس پر لازماً تشویش ہوگی۔ معلومات نہیں‘ تجزیے کی بنیاد پر میں عرض کرتا ہوں کہ تبادلہ خیال کا
سلسلہ خاموشی سے جاری ہو گا۔ بعید نہیں کہ جلد ہی اعلیٰ سطح کا ایک چینی وفد پاکستان کا دورہ کرے۔ امریکہ اور برطانیہ یہ پسند کریں گے کہ پاکستان کو بھارت کم از کم چھوٹا موٹا زخم لگانے میں کامیاب رہے۔ چین اسے ٹالنے کی کوشش کرے گا۔ نریندر مودی عوامی جذبات سے کھیلنے والے ایک اتھلے سیاستدان ہیں۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کے (کارندے) کمزور پڑ گئے۔ مہم جوئی اگر کی تو لازم نہیں کہ اسے محدود رکھ سکیں گے۔ پاکستان کو وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر بھارت کا عالمی طاقت بننے کا خواب ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہو جائے گا۔ یہ ہے پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام اور یہ پاکستان کی فوج کھڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف تیرہ سالہ جنگ نے‘ جسے دنیا کی بہترین لڑاکا فوج بنا دیا ہے۔ وہ مستعد اور بیدار ہے۔ برطانیہ کے ایک ممتاز عسکری تھنک ٹینک کے بہت پہلے مرتب کئے گئے ایک مطالعے کے مطابق‘ خارجی خطرہ برپا ہوا تو پاکستانی قوم تیزی سے متحد ہو جائے گی۔ عمران خان کا احتجاج باقی نہ رہے گا۔ پرویز رشید‘ طلال چوہدری اور دانیال کی زبانیں بند کردی جائیں گی۔ منظر ہی دوسرا ہوگا۔
ایک طرف پاکستان کا ایک ایک دشمن بے نقاب ہو رہا ہے۔ دوسری طرف لاحق خطرات کی شدت میں اضافہ ہے۔ ایک آدھ دن کی کسل مندی کے بعد بھارت کے مقابل‘ عسکری اور سیاسی قیادت ‘ایک ساتھ بروئے کار آئی ہے۔ اگلے چند دنوں میں زیادہ سرگرمی کا امکان ہے۔
اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا: ؎
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved