تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-09-2016

ہم حکمرانوں سے صرف اتنا چاہتے ہیں

من حیث القوم ہماری یادداشت صرف کمزور ہی نہیں، انتہائی کمزور ہے۔ بلکہ یادداشت نامی چیز تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ کوئی شخص ہماری برسوں ''منجی ٹھوکتا‘‘ رہے اور ایک دن نیم دلی سے معافی مانگ لے، ہم اسے فوراً بے گناہی کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیتے ہیں۔ کوئی شخص ساری عمر حرام کی کمائی پر گلچھرے اڑانے اور جائیدادیں بنانے کے بعد چار لوگوں میں اسی حرام کی کمائی سے سخاوت فرما دے، ہم اسے نیکی، سخاوت اور ایثار کا مجسم قرار دے دیتے ہیں۔ حکمران اپنی ایک ٹرم میں عوام کا، ملک کا اور قوم کا بیڑہ غرق کر کے اگلے الیکشن میں دوبارہ آئیں تو ہم ان کا استقبال اس جوش و خروش اور والہانہ پن سے کرتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے انہوں نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی تھیں۔ ایک بار فوجی حکمران سے ملک و قوم کا بیڑہ غرق کروانے کے بعد اگلی بار پھر پوسٹر لگا کر انہیں دوبارہ آنے کی دعوتیں دیتے ہیں اور ان کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ نہ ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی حالات سے۔ ہم کسی چور، ڈکیت، راشی، بدمعاش، نا اہل، غاصب اور بدعنوان کو صرف ایک آدھ سال کے وقفے اور ایک آدھ نیم دلانہ مانگی گئی معافی پر اس طرح بری کر دیتے ہیں کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہم داغدار کرداروں کو تھوڑے سے وقفے اور معمولی سی معذرت کے طفیل ایسے اُجلا قرار دے دیتے ہیں کہ کپڑے دھونے والے ڈٹرجنٹ پاؤڈر بھی ہکے بکے رہ جاتے ہیں۔
فوجی حکمرانوں نے آدھا ملک گنوا دیا، سیاچن سے فارغ کروا دیا۔ تین دریاؤں سے محروم کروا دیا۔ ملک کو کسی نہ کسی انتہا پسندی میں پھنسا دیا۔ ملک کا سارا سوشل فیبرک برباد کر دیا۔ لوگ باگ ایک بار پھر بیرکوں کی طرف نظر کیے بیٹھے ہیں۔ میں گزشتہ کئی ماہ سے کئی بزعم خود والے سمجھداروں کے منہ سے سپہ سالار کے بارے میں سن رہا ہوں کہ آخر وہ کیا کر رہا ہے؟ کچھ کرتا کیوں نہیں؟ ہم کو بالکل یاد نہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک تیس سال سے زائد عرصہ فوجی حکمرانی رہی ہے مگر حالات کو بہت سے معاملات میں پہلے سے بھی خراب کیا ہے اور معاملات کو سدھارنے کے بجائے برباد کیا ہے ۔
یہی دو پارٹیاں ہیں جو اس ملک کے سارے سیاسی نظام کی بربادی کا باعث ہیں مگر ہم باری باری انہیں کو آزماتے ہیں دس پرسنٹ والا اگلی بار سینٹ پرسنٹ بن کر واپس آتا ہے اور بات کروڑوں سے اربوں پر چلی جاتی ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ کروڑوں کے اثاثوں اور جائیدادوں کا سن کر منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا تھا، اب اربوں سے کم کی بات ہو تو سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ کاروباری حکمرانوں کے بارے میں پہلے انڈے، مرغی، دودھ، دہی اور چینی کے کارخانوں کی بات ہوتی تھی اب آف شور کمپنیوں اور دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں اربوں روپے کی پراپرٹی کی بات ہوتی ہے تو کوئی پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا۔ گزشتہ بیس پچیس سال میں عوام غریب تر اور حکمران امیر ترین ہو گئے ہیں لیکن کسی کو کچھ یاد نہیں۔ ذہنی بربادی اور یادداشت کی خرابی کا عالم یہ ہے کہ میںنے کئی اچھے خاصے عقلمندوں کو آصف علی زرداری کی صدارت کو حسرت سے یاد کرتے دیکھا ہے۔ یادداشت کا اس سے بڑھ کر دیوالیہ پن کیا ہو سکتا ہے۔
مہاجر قومی موومنٹ عرف متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم نے پاکستان کی ساری سیاست کو بالعموم اور اربن سندھ کی سیاست کو بالخصوص یرغمال بنائے رکھا اور ایک دو سال نہیں، ساڑھے تین چار عشرے۔ شہر قائد کی روشنیوں کو برباد کر کے رکھ دیا۔ بھتے اور چندے کی سیاست کی داغ بیل ڈالی۔ مخالفین کے جسموں میں برمے سے چھید کرنے کی اختراع ایجاد کی۔ بوری بند لاشوں کو متعارف کروایا۔ مخالفین کو نشانِ عبرت بنانے کا رواج ڈالا۔ اپنے خلاف آپریشن کرنے والے قانون کے محافظوں کو چن چن کر مارنے کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ کوئی اسے کبھی توڑنا تو ایک طرف رہا‘ برابر بھی نہ کر پائے گا۔ صحافیوں، اخباروں اور ٹی وی چینلز مع اینکر حضرات کو ایسا ڈرا اور دبا کر رکھا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھائی لوگ اخبار کے دفتر میں آکر خبروں پر نظر ڈالتے تھے اور کس خبر کو کہاں لگانا ہے؟ کونسی خبر کو غائب کرنا ہے اس کا فیصلہ سیکٹر انچارج کے ماتحت کا بھی ماتحت کرتا تھا۔ الائیڈ بینک سے تین ساڑھے تین ارب روپے جعلی دستخطوں سے ڈنڈے کے زور پر اس طرح نکلوائے کہ بینک سے پیسے بھی چلے گئے اور بینک نے یہ ساری رقم ابھی ''اصلی مالک‘‘ کو دینی بھی ہے کہ اصل مالک کے بقول اس نے تو یہ رقم نکلوائی ہی نہیں (ایسی درجنوں کہانیاں ہیں مگر بینکوں والے خوف سے اب بھی بولنے کو تیار نہیں)کس طرح سرکاری محکموں میں ہزاروں کارکن
بھرتی کیے گئے جنہوں نے کبھی تنخواہ کی وصولی کے علاوہ دفتر میں نہ شکل دکھائی اور نہ کبھی کام کیا (اب بھی ہزاروں ایسے افراد ڈنڈے کے زور پر تنخواہیں لے رہے ہیں)۔ فطرانے کی پستول کے زور پر وصولی کی ایجاد کا سہرہ بھی انہی کے سر جاتا ہے۔
کس طرح گزشتہ دو عشروں سے الطاف بھائی اس کو لندن سے ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرتے رہے۔ کس طرح صحافیوں کو قتل کیا گیا؟ ان مقتولین کے مقدموں میں گواہوں کو کس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ میڈیا ہاؤسز پر کس طرح باہر کے ٹیلی فون پر حملے کیے گئے۔ 12 مئی کو اس شہر میں کس کے حکم پر کیسے خون کی ہولی کھیلی گئی اور کس طرح مقامی قیادت نے بیرونی حکم پر لبیک کہا اور تعمیل کی۔ بلدیہ ٹاؤن میں سینکڑوں لوگوں کو کس طرح زندہ جلایا گیا اور ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔
یہ ساری تفصیل دراصل تفصیل نہیں‘ عشروں پر پھیلی ظلم و تشدد اور جبر و استبداد کی طویل کہانی کا مختصر ترین جائزہ ہے۔ یہ کہانی ابھی اور بھی چلتی مگر ام الخبائث کا بیڑہ غرق ہو کہ وہ کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی اور بقول شخصے ''دنیا کے سب سے زیادہ سچ، شراب خانے میں ہاتھ میں بوتل پکڑ کر بولے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں بائبل ہاتھ میں پکڑ کر بولے جاتے ہیں‘‘۔ عشروں تک ایم کیو ایم کی مقامی قیادت لندن والے بانی کی باتوں کے اپنی مرضی کے ترجمے اور مفہوم نکال کر کام چلاتی رہی کہ زباندانی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ؟تاہم بائیس اگست والی تقریر اتنی واضح اور نعرے اتنے کھلے کھلے تھے کہ اب وضاحت اور تاویل سے کام نہیں بن سکتا تھا لہٰذا مقامی قیادت نے باقاعدہ ہاتھ کھڑے کر دیے کہ اب ان نعروں کا باطنی مفہوم نکالنا اور عام آدمی کو سمجھانا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔
مقامی قیادت نے پینترہ بدلا اور اچانک بانی تحریک سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا، بالکل ویسا ہی اعلانِ لا تعلقی جیسا ایم کیو ایم نے اجمل پہاڑی اور صولت مرزاسے اور پی پی پی نے عزیر بلوچ سے کیا تھا۔ چلو جی! سب کچھ صاف ہو گیا۔ ساری سلیٹ دھل گئی۔ ساری سیاہی مٹ گئی۔ بلدیہ ٹاؤن کے دو سو نواسی مرنے والوں کو انصاف مل گیا۔ کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے قانون نافذ کرنے والے ہلاک شدگان کو قبر میں چین مل گیا۔ ولی بابر کے قاتل قانون کے شکنجے میں آ گئے۔ ولی بابر کے قتل کے گواہان کو دوبارہ زندگی مل گئی۔ سینکڑوں بوری بند لاشوں کے قاتل تختہ دارپر چڑھ گئے۔ بھتے کی اربوں کھربوں کی رقم واپس متاثرین میں تقسیم ہو گئی۔ زبردستی وصول کی گئی قربانی کی کھالیں اور فطرانہ گھر گھر جا کر معذرت کے ساتھ واپس کر دیا گیا۔ لندن بھجوائی گئی اربوں روپے کی مالی امداد کا اعتراف کر لیا گیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں سے حساب لے لیا گیا۔ صرف گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران پکڑے گئے درجنوں ٹارگٹ کلرز کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ دور کیوں جائیں۔ گزشتہ ہفتے تحریک کے نئے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے دوران ایک بار پھر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں کو فاروق ستار نے وہیں کھڑے کھڑے ایم کیو ایم سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی ہو گیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا۔
فاروق ستار اینڈ کمپنی عشروں سے جاری اس بھیانک ڈرامے کے اہم کردار ہیں اور ہر کام میں شریکِ کار۔ اب انہوں نے اچانک ایک دن اس سارے معاملے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ ساری خطائیں معاف ہو گئیں۔ ساری غلطیاں صاف ہو گئیں۔ سارے الزامات دھل گئے اور سارے جرائم ختم ہو گئے۔ یہ صرف پاکستان کی سیاست میں ہی ممکن ہے کہ ایک اعلان ہوا اور سب کچھ ختم، سارا حساب بے باق اور سارے جرائم معاف۔ اس دوران ایم کیو ایم مقامی نے جو محیر العقول اقدامات کیے وہ درج ذیل ہیں:
1۔ الطاف حسین کی 22 اگست والی تقریر سے اظہار لا تعلقی کر دیا۔ (پاکستان کے خلاف کی جانے والی بکواس اور ایسی ہرزہ سرائی سے لا تعلقی جو ساری دنیا نے سنی‘ سے لا تعلقی بھی مقامی قیادت کا کارنامہ تصور کی جا رہی ہے)۔
2۔ ایم کیو ایم کے دستور سے الطاف حسین کا نام نکال دیا ہے۔ (بقول ندیم نصرت الطاف حسین ہی ایم کیو ایم ہے اور قائد کے بغیر ایم کیو ایم کا کوئی تصور نہیں، آئین سے الطاف حسین کا نام نکالنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے اور اس ترمیم کا عملی طور پر الطاف حسین کو رتی برابر نقصان نہیں‘ اگر الطاف حسین اب بھی اندر خانے ایم کیو ایم کا گاڈ فادر ہے)۔
3۔ اپنا پرچم بدل دیا ہے۔ (پرچم سے صرف الطاف حسین کا نام نکالا گیا ہے اور یہ اسی تسلسل کا حصہ ہے جس میں الطاف حسین سے لا تعلقی کا اعلان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے جھنڈے سے الطاف حسین کا نام نہ نکالا جاتاتو اس لاتعلقی کو کون تسلیم کرتا؟)۔
عملی طور پر ان سب تبدیلیوں کا تعلق صرف الطاف حسین سے لا تعلقی پر ہے ۔سابقہ جرائم سے لا تعلقی کسی اعلان کے ذریعے ممکن نہیں کہ عدل و انصاف بھی کوئی چیز ہے۔ میرے ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ ''ہم ایم کیو ایم سے مزید کیا چاہتے ہیں؟‘‘۔ حضور! ابھی تو پچھلے جرائم کا حساب باقی تھا‘ اوپر سے چار چھ روز قبل فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے دوران دوبارہ پاکستان کے خلاف نعرے لگے ہیں۔ ہم ان سب کا حساب چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو صرف اور صرف خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری پر ہی حرکت میں نہیں آنا چاہئے۔ آئینی تحفظ صرف ایک صوبے کے لیڈر آف اپوزیشن کے لیے نہیں ہونا چاہئے ‘قانون کا اطلاق آئین کے مطابق ہر شہر ی کے لیے ہونا چاہئے۔ ہم حکمرانوں سے صرف اتنا ہی چاہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved