تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-09-2016

سیاست کی دیوارِ گریہ

پہلے اُورسلم، پھر، یروشلم اور اب سورۂ اسراء کے نزول سے لمحہئِ قیامت تک بیت المقدس ،ابراہیمی ؑسلسلے کے تین مذاہب کا مرکز ہے۔عیسائیت،یہودیت اور اسلام۔
دیوارِ گریہ یہودیوں کی سب سے بڑی مذہبی علامت سمجھی جاتی ہے۔اسے انگریزی میں(Wailing-Wall) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اردو میں اسے دیوارِ گریہ اور عربی زبان میں حائیط المبکی کہتے ہیں۔حائیط ،حطہ یا احاطہ سے ہے جس کا مطلب ہے دیوار۔مبکی آہ و بکا سے جس کے معنی ہیں رونا دھونا ۔ناتراشیدہ لمبی داڑھی ،دونوں کانوں کے آگے سے لٹکی ہوئی بالوں کی لَٹ اور سر پر'' ہیئر پِن‘‘سے فکس کی ہوئی ٹوپی پہنے یہودی مذہب کے راہب بیت المقدس کی جس دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر آگے پیچھے ہلتے اور زور زور سے روتے نظر آئیں وہ دیوارِ گریہ ہے۔یہ نوحہ گری حضرت سلیمان ؑ کے تعمیر کردہ ہیکلِ سلیمانی کی یاد میں صدیوں سے جاری ہے۔
ایک دیوارِ گریہ پاکستان کی سیاست میں بھی ہے۔جس کے نوحہ گر اور لانگری رائے ونڈ لانگ مارچ روکنے کے لیئے تڑپ رہے ہیں۔اس دیوارکے محافظ نواز شریف کے جا نثار ہیں۔ کئی قسم کے جانثار۔ان جانثاروں کے بارے میں نواز شریف صاحب نے متعدد مرتبہ خود کہا کہ '' جب مڑ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو قدم بڑھاؤ نواز شریف کے نعرے لگانے والے بھاگ جاتے ہیں۔‘‘سیاست کی دیوارِ گریہ پنجاب اور وفاق کے بجٹ سے تعمیر ہو رہی ہے۔یا شاید دونوں سے کیونکہ اس میں دو برادرانِ شریف رہتے ہیں۔
ضمنی گرانٹ ،تعلیم اور صحت کے بجٹ سے قوم کا پیسہ نکال کر اتنی چوڑی ،ایسی لمبی اور اس قدر اونچی سریے اور سیمنٹ کی پہلی دیوار برلن میں تعمیر ہوئی تھی۔دیوارِ برلن کوفتح کے نشے میں بدمست اتحادی جرنیلوں نے دیوار تعمیر کرنے کے بعدعالمی استعمار نے سمجھ لیا تھا ۔کہ اب مشرقی جرمنی سدا کے لیے ''غریب غلام‘‘ہی رہے گا۔جبکہ مغربی جرمنی ہمیشہ کے لیئے معذور اور محکوم ۔لیکن قدرت کے اٹل قانون کے سامنے جنگلے ،سیمنٹ اور سریے کی دیوار ِ برلن ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔جرمن عوام کے ایک دھکے نے نہ صرف اسے روند ڈالا بلکہ یہ دیوار عوام کے غیظ و غضب نے نیست و نابود کر کے رکھ دی۔
ایسی ہی ایک اور دیوار میں نے تب دیکھی جب جنوبی کوریا کے شہرِ ممنوع میں پہنچا۔کمیونسٹ کوریا کے دارالحکومت پیونگ یانگ سے کئی گھنٹے کی دوری پر یہ دیوار کین سانگ کے مقام پر کھلتی ہے۔جو اس کا اکلوتا دروازہ ہے ۔جس کے ایک طرف کوریا کے فوجی جبکہ دوسری طرف امریکی فوجی سالہا سال سے حالتِ جنگ میں الرٹ کھڑے ہیں۔ 1935ء میں کو ریا کی جنگ نے اس دیوار کو جنم دیا۔آج پوری مغربی دنیا نے پیونگ یانگ پر چار قسم کی سخت ترین معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔دیوار کا مطلب دراصل کمیونسٹ حکمرانوں کی جغرافیائی ناکہ بندی کرنا ہے۔اس کے باوجود پیونگ یانگ نے ہتھیار پھینکے نہ ہاتھ کھڑے کیے۔پاکستان کے غریب عوام اور سرمایہ دار حکمرانوں کے درمیان لوہے اور سیمنٹ کی''دیوارِ جاتی عمرا ‘‘اپنی تکمیل سے پہلے ہی نعروں سے ڈانوں ڈول ہو چلی ہے۔ایک اور دیوار کی کتھا بھی سن لیجیے۔ موجودہ سرکار کا معافی نامہ قبول کر کے اسے جدہ بھیجنے والے ان کے محسن عرف مشرف کے دور میں بھارت نے ایل او سی پر ایسی ہی باڑ کی بنیاد رکھی۔ یہ باڑ جلد ہی کشمیر کی تحریکِ آزادی کی ٹھوکروں میں آ گئی۔کشمیر کے حریت پسند بچوں اور بزرگوں کے لہو نے اس دیوارِ بھارت کو بنیاد سے اوپر نہیںاٹھنے دیا۔دیوارِ برلن کی نقل کر کے تازہ ترین دیوار کا عالمی ریکارڈ بنانے کے لیے نوین جندال کے دوست اجیت ڈوول اور نواز شریف صاحب کی دوستی کا دم بھرنے والے نریندر مودی نے پلان بنایا ہے ۔یہ پلان سازشی تھیوری ہر گز نہیں۔اس کا پہلا حصہ اجیت ڈوول نے خود بیان کر دیا۔جس کا ویڈیو میرے واٹس ایپ میں موجود ہے۔اجیت ڈوول نے کہا'' اب پاکستان کو ا س کے اندر گھس کر ماریں گے ۔ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا ہم وہاں تک گھس جائیں گے جہاں تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔قوم کو یہ تومعلوم نہیں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا لیکن پاکستان کے اندر گھس کر اسے مارنے والا اجیت ڈوول،نوین جندال اور مودی کے ساتھ رائیونڈ کے عین اندر گھس گیا۔رائیونڈ میں پرامن پاکستانی مارچ کے مخالفین اجیت دیودل سے یہ پوچھنے کے لیے تیار نہیں اسے ویزا کس نے دیا تھا...؟ہاں ایک بات سمجھ آنے والی ہے ۔را کے سربراہ، مودی ،اجیت اور جندال کے رائیونڈ میں گھسنے سے ہماری چمکیلی اورلچکیلی جمہوریت کو کوئی خطرہ ہر گز لاحق نہیں ہوا۔
پچھلے دنوں تین بندگانِ شکم نے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں را،بھارت اور مودی کو کلین چِٹ عطا کرنے کی ہیٹ ٹرک کردی۔تینوں کامتفقہ خیال تھا پاکستان میں گڑ بڑ 2وجہ سے ہو رہی ہے۔ پہلا ،ہماری اپنی اور ہمارے اپنے اداروں کی ناکامیاں ۔جبکہ دوسری وجہ، پاکستان کے استحکام ،سلامتی، رواداری اور امن کے ضامن 32لاکھ معصوم افغانی مہاجروں کو 36سال بعد ''فوراً ‘‘واپس بھیجنے کا فیصلہ ہے۔جو ہم پر مہربانی کر کے پشاور سے اٹک تک کے شہریوں کے کاروبار پر قابض ہو چکے ہیں۔ان کی اس دلیل کا جواب وکالت نامہ میں دینے کی ضرورت نہیںہے وہ جواب بھی اب ویڈیو سمیت سوشل میڈیا پر موجود ہے۔اورانہیںجواب دینے والے کا نام شری نریندرا مودی مہاراج ہے۔جس نے کہا مجھے پاکستانی مقبوضہ کشمیر،گلگت بلتستان،بلوچستان اور افغانستان یعنی پاکستان کے اندر سے میرے مؤقف پر شاباشیاں مل رہی ہیں۔مودی کا یہ بیان دو باتوں کا کھلا ا عتراف ِ جرم ہے۔
پہلے،کہ اس کے حواری پاکستان کے اندر اسی کا منترہ گاتے رہتے ہیں۔
دوسرے،مودی پاکستان کے اندر کل بھوشن یادیو کا کردار ادا کر رہا ہے۔پاکستانیوں کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سب کچھ سے بھی ہماری جمہوریت کوبالکل کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 
پاکستانی سیاست کی دیوارِ گریہ کے پروہت سیاسی اخلاق کے آخری مبلغ رہے ہیں۔کم از کم 126روزہ دھرنے سے لے کر پچھلے ہفتے تک۔سیاست میں رواداری کی تبلیغ کرنے والے اس دن سے چپ کے روزہ سے ہیں۔جب سے گنڈاسہ ،گندے انڈے،سڑے ہوئے ٹماٹراورلاٹھی چارج والی ڈانگ پکڑے نواز شریف کے جانثار ٹی وی پر سرکاری ''رواداری‘‘ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔مفاہمتی سیاست،مک مکا اور سٹیٹس کو کے باغی 3سالہ احتجاج کے دوران کبھی بھی ایسی رواداری کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔نالائق کہیں کے۔ ؎
اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ، ہمارا قصور نکلے گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved