تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     23-09-2016

عدالت ِ عظمیٰ کا تاریخ ساز فیصلہ

سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے [Civil Appeals 1428 to 1436/2016]نے ایک مرتبہ پھر اس آئینی پوزیشن کا اعادہ کیا ہے کہ صر ف پارلیمنٹ ہی آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت ٹیکس لگانے(جس میں ٹیکس کے نرخ، چھوٹ یا معافی بھی شامل ہے) کا استحقاق رکھتی ہے ۔ یہ استحقاق کسی ایگزیکٹو اتھارٹی کو تفویض نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ایف بی آر میں بیٹھے ہوئے ٹیکس افسران کا اصرار رہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 77 میں درج الفاظ ''by or under the authority of Act‘‘ دراصل "taxation by delegation" کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ ایس او آرز کے ذریعے ٹیکس لگانے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ 
سپریم کورٹ کے سامنے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا۔۔۔''ٹیکس لگانا یا اس پر چھوٹ دیناآئین کے آرٹیکل 77 کے تحت پارلیمنٹ کا ہی استحقاق ہے ۔ اسے ایگزیکٹو اتھارٹی کے ذریعے نافذ کرنا پارلیمان کی بالا دستی اور اداروں کے اختیارات کی علیحدگی کے تصور کی نفی کے مترادف ہوگی۔ ‘‘یہ اصول ، جس کی عدالت ِ عظمیٰ نے بھی تصدیق کی، ایف بی آر کے ٹیکس کے تصور کے برعکس ہے ۔ عجیب، بلکہ صدمے والی بات یہ کہ'' انجینئر ظفر اقبال جھگڑا اورسینیٹر رخسانہ زبیری بالمقابل ریاست ِ پاکستان و دیگر‘‘ کیس کے فیصلے کے بعد بھی وفاقی حکومت ایس آر او کے ذریعے نئے ٹیکسز لگاکر آئین کے آرٹیکلز 77 اور189 کی خلاف ورزی کرتی رہی ۔ 
فاضل عدالت نے سول اپیلز 1428 سے لے کر 1436/2016 میں بہت وضاحت سے کہا ہے کہ اگرچہ وفاقی حکومت اپنا کوئی بھی اختیار افسران کو تفویض کرسکتی ہے ،جیساکہ یہ مالی معاملات فنانس منسٹری کے سپر د کرسکتی ہے ، لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔ ‘‘ یہ ہماری فنانس منسٹری کے خلاف چارچ شیٹ ہے ، کیونکہ وہ مالیاتی معاملات سرانجام دیتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کررہی تھی۔ اگرچہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے ،لیکن پارلیمنٹ اُن سے باز پرس تو کرسکتی ہے کہ وہ کم از کم SRO 280(I)/2013, 460(I)/2013 and SRO 682(I)/2013 جاری کرنے کی ذمہ داری تو قبول کریں۔ اب فاضل عدالت نے اُن ایس آر اوز کو کالعدم قرار دیا ہے ، اور اس کی وجہ سے بھاری ریفنڈز بھی واجب الادا ہوگئے ہیں۔ 
بہت سے ماہرین سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو اس کے درست سیاق وسباق میں نہیں پڑھ رہے۔ وہ صرف وزیر ِاعظم کے حوالے سے ایک پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وزیر ِاعظم کابینہ سے مشاورت کے بغیر فیصلے نہیں کرسکتا۔اس بات کی وضاحت فاضل عدالت نے اپنے آرڈر کے پیراگراف نمبر 96 میںکی ہے ۔ تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے جس ایشوکو حقیقی معنوں میں نمٹا دیا گیا ہے ، وہ ٹیکسز لگانے کا حق ہے ۔ فیصلے کا پیراگراف 67 اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی یہ حق ایگزیکٹو کو نہیں سونپ سکتی ۔ 
چنانچہ ایس آر اوز کے ذریعے ٹیکسز کا نفاذ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے ، جیساکہ '' انجینئر ظفر اقبال جھگڑا اورسینیٹر رخسانہ زبیری بالمقابل ریاست ِ پاکستان و دیگر‘‘(2013) 108 TAX 1 (S.C.) میں فاضل عدالت نے لکھا۔۔۔''
"It is well settled proposition that levy of tax for the purpose of Federation is not permissible except by or under the authority of Act of Majlis-e-Shoora (Parliament). Reference in this behalf may be made to the case of Cyanamid Pakistan Ltd. V. Collector of Customs (PLD 2005 SC 495), wherein it has also been held that such legislative powers cannot be delegated to the Executive Authorities. Also see Government of Pakistan v. Muhammad Ashraf (PLD 1993 SC 176) and All Pakistan Textile Mills Associations v. Province of Sindh (2004 YLR 192)." [Page 18, Para 20]ــ‘‘
وزیر ِاعظم صاحب ریاست کے معاملات کسی بادشاہ سلامت کی طرح چلارہے ہیں۔ مالیاتی امور میں قانون سازی صدارتی فرمان کے ذریعے ایک معمول ہے ۔ اُن کے وزیر ِ خزانہ بھی ایس آراوز کے ذریعے ٹیکسز کا نفاذ کرکے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ کی سول اپیلز 1428 to 1436/2016 پر حالیہ فیصلے کے بعد بھی وفاقی حکومت نے پٹرولیم کی کچھ مصنوعات پر سیلز ٹیکس کے نرخSRO 808 (I)/ 2016 dated 31-08-2016 کے ذریعے بڑھائے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے سرتابی کرنا آئین کے آرٹیکل 189 کی خلاف ورزی کے زمرنے میں آتا ہے ۔ سیکرٹری ریونیو ڈویژن کے جاری شدہ فسکل نوٹیفکیشن غیر قانونی ہیں۔ البتہ جیسے کے پہلے یہ عدالت ہمیشہ کہتی رہی ہے کہ ٹیکس گزاروں کے حق میں ایسے نوٹیفکیشن جاری ہوسکتے ہیں اور یہ اصول لاگو رہے گا۔وفاقی حکومت نے اپنے افعال سے ثابت کیا ہے کہ اسے قانون اور آئین کا کوئی احترام نہیں ہے ، اور نہ ہی یہ فاضل عدالت کے فیصلے کی پاسداری کررہی ہے ۔ ایف بی آر ایس آراوز کے ذریعے ٹیکسز نافذ کرتا رہے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved