مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ بھارت کی قابض فوج مسلمان دشمن انتہاپسند بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے کشمیریوں پر اندھا دھند تشدد کر رہی ہے۔ اب تک 100کے قریب نہتے کشمیری جس میں بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں‘ اپنے سیاسی ومعاشی کی خاطر جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ گزشتہ منگل کو قابض بھارتی فوج نے ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے 11نہتے کشمیریوں کو شہید کردیا ہے، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔دوسری طرف بھارتی وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہر کو روکنے اور اس سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج پاکستان کی طرف گولہ باری کررہی ہے، کنٹرول لائن کے دونوں طرف صورتحال کشیدہ ہورہی ہے، جبکہ بھارتی میڈیا پاکستان دشمنی میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ باقاعدہ نریندرمودی سے استدعا کی جارہی ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے سے گریز نہ کرے، حلانکہ بھارت کی اعتدال پسند اور سوجھ بوجھ رکھنے والے اخبار نویس نریندرمودی کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرنے سے روک رہے ہیں، اور بر ملا کہہ رہے ہیں کہ چھوٹی سی سرحدی جنگ ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ پاکستان پر حملہ اتنا آسان نہ سمجھا جائے، اس قسم کے مشورے ٹائم آف انڈیا اور ''ہندو‘‘ اخبار ات کے ادارتی صفحات پر دیئے جارہے ہیں ، لیکن ابھی تک مودی کے ذہن میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق سیاسی حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی بلکہ
وہ اپنے مشیر داخلہ اجیت ڈوول کے مشورے سے طاقت کا بہیمانہ استعمال کررہا ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیرمیں حالات اور بھی زیادہ خراب ہوگئے ہیں اور اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بھارت کے ہاتھوں سے کشمیر نکل رہا ہے۔ خود مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی مخلوط حکومت کے کم از کم دو ممبران نے نریندرمودی کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسیوں کے خلاف استعفیٰ دے دیا ہے، ادھر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اپنے بیان میںبھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ظلم وبربریت کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بھارت سے کہا ہے کہ وہ فی الفور کشمیر میںظلم بند کرے اور اقوام متحدہ کی قرارداد وں کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کا حل تلاش کرے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا ہے کہ اسلامی تنظیم مکمل طورپر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے، اور ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتی ہے، سیکرٹری جنرل جناب ایاد امین مدنی نے کہا کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر کے عوام پر پیلٹ ہتھیار استعمال کرکے ان کی بینائی تو چھین سکتا ہے لیکن آزادی کے روشن تصور کو اندھا نہیں کیا جاسکتا۔ ترکی کی قیادت نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وبربریت کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہاں حقائق معلوم کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں جلد ایک وفد بھیجا جائے گا، مزیدبرآں
ترکی اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعلقات میں مزید اضافہ ہواہے، ترکی کی زمینی فوج کے کمانڈر نے پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرکے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اٹلی کے وزیردفاع نے بھی جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرکے دونوں ملکوں کے مابین باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ضرب عضب نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ساری دنیا پاکستانی افواج کے اس کردار کو سراہتی ہے۔
ادھر امریکی صدر بارک اوباما نے اقوام متحدہ میں اپنی آخری تقریر میں مقبوضہ کشمیر میں صورتحال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں ہر قسم کے تشدد کو بند ہوناچاہئے، جبکہ بھارت اور پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس قدیم مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں، لیکن بارک اوباما کی تقریر کا زیادہ زور روسی صدر پیوٹن اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا جو جمہوری روایات کے فروغ میں مشکلات کا سبب بن رہے ہیں؛ تاہم حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بارک اوباما نے اپنے دوست، حلیف اور مددگار بھارت کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ وہ کشمیری عوام پر بھارتی فوج کی جانب سے ظلم وتشدد کو فی الفور بند کرکے مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں سے بات چیت کرکے حالات کو معمول پر لانے کی سنجیدہ کوشش کرے؛ تاہم اگر امریکہ سمیت بعض بڑی طاقتوں نے مقبوضہ کشمیر میں عوام پر قابض بھارتی فوج کے ظلم وزیادتیوں کو بند کرانے میں پر معنی خیز پیش رفت نہیں کی تو ممکن ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بگڑتے ہوئے حالات سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے ساتھ مسلح تصادم کی طرف جاسکتاہے، انتہا پسند پاکستان دشمنی اور مسلمان دشمن بھارتی وزیراعظم سے خیر کی توقع عبث ہے، اس نے 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور اب بھی اسی قسم کی بھیانک کارروائیاں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے خلاف کر رہا ہے۔
ہر چندکہ میاں محمدنواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرکے عالمی رہنمائوں سے اپنی ملاقات کے دوران انہیں مقبوضہ کشمیر سے متعلق حالات سے آگاہ کررہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوںنے امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی سے ملاقات کرکے انہیں مقبوضہ کشمیر میںبھارت کی قابض فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ظلم وتشدد سے آگاہ کیا ہے، جان کیری نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھارت سے بات چیت کریں گے، لیکن میں نہیںسمجھتاکہ امریکہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت پر کسی قسم کا دبائو ڈال سکے گا، دراصل امریکہ کی پالیسیاں جنوبی ایشیا میں حالات کو خراب کرنے کی ذمہ دار ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کھل کر دنیا کے سامنے آچکی ہے، جو بعد میں عالمی امن کی تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔
تاہم یہاں یہ بات لکھنا بے حد ضروری ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف مسلح تصادم کا راستہ اختیار کیا تو اس کو یہ مہم جوئی بہت مہنگی پڑے گی، دراصل جب سے نریندرمودی وزیراعظم بنا ہے وہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس انتہا پسند اور امن دشمن شخص نے ہر فورم پر پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے بد نام کرنے کی کوشش کی ہے، اورکھل کر پاکستان دشمنی پر اترآیا ہے، اگر اس نے اپنے انتہا پسند ساتھیوں کے مشوروں سے پاکستان پر فوجی یلغار کرنے کی کوشش کی تو اس کو منہ کی کھانا پڑے گی بلکہ ہوسکتاہے کہ فوجی تصادم بعد میں نیوکلیئر تصادم میں بدل سکتاہے، اس لئے نریندرمودی کو پاکستان کے خلاف مہم جوئی کرنے سے پہلے عالمی حالات کا جائزہ لینا چاہئے، اس کا یہ خیال غلط ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہوگیاہے، اگرجنگ ہوگی تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔