برادرم رئوف کلاسرا کا کالم میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں‘ ایک تازہ کالم میں ان کا زور اس بات پر ہے کہ عمران خاں جو کچھ اب کر رہا ہے اسے اس وقت کرنا چاہیے تھا جب لوہا گرم تھا اور پاناما لیکس کا ہنگامہ شروع ہی ہوا تھا اور اس تاخیر کی وجہ سے اب ان کی یہ تحریک کچھ کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہو سکتا ہے یہ عمران خاں کی غلطی ہو کیونکہ غلطیاں تو سب کرتے ہیں اور وہ بھی بندہ بشر ہے‘ لیکن اس وقت تو اپوزیشن بظاہر یکسو تھی اور اس پر مشترکہ اور متفقہ موقف اختیار کرنے میں لگی ہوئی تھی اس لیے اس وقت اگر عمران سولو فلائٹ کا اعلان کرتا تو ان سب کی طرف سے کالی بھیڑ قرار دے دیا جاتا‘ اس لیے اگر اس وقت عمران کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہی فیصلہ کرتا جو عمران خاں نے کیا۔
عمران خان کے‘ میرے جیسے کسی بہی خواہ کا یہ خیال نہیں ہے کہ اس تحریک کی کامیابی یا نواز شریف کے استعفے کے بعد عمران خان وزیر اعظم بن جائے گا‘ نہ ہی عمران خاں کو ایسا سوچنا چاہیے کیونکہ اس کا مقابلہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ گاڈ فادر سمیت ایک مافیا سے ہے جس کے آگے عمران خاں پرِکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ نواز شریف اور زرداری ایک دوسرے کا مقابلہ اس لیے کر سکتے ہیں کہ دونوں نے پیسہ ہی اتنا بنایا ہوا ہے‘ انہوں نے باریاں بھی مقرر کی ہوئی ہیں اور ان کے اقتدار کا مقصد مزید پیسہ بنانا اور ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو وہ کر رہے ہیں‘سو‘ یہ ایک شیطانی چکر ہے جسے ابھی چلتا ہی رہنا ہے اگر ان پر واقعی کوئی آسمان نہ ٹوٹ پڑا۔
لوگ ان کے خلاف اس لیے نہیں اُٹھ کھڑے ہوتے کہ لوگوں کو بھی انہوں نے اپنے ہی جیسا کر لیا ہے اور انہیں پتا ہے کہ اِن کا ساتھ دینے سے ہی ان کے جائز و ناجائز ہر طرح کے مسائل حل ہو سکتے ہیں جن میں میرٹ کے خلاف تعیناتیاں‘ تبادلے‘ مخالفین کے خلاف جھوٹے پرچے درج کرانا اور اپنے لوگوں کو تھانوں سے چھڑانا وغیرہ شامل ہیں کیونکہ میرٹ کا تو ان کے ہاں گزر ہی نہیں ہے۔ ایک طبقہ مزے لوٹتا ہے تو پانچ سال کے بعد دوسرے طبقے کی باری آ جاتی ہے اور ہر سطح پر ان کے فرنٹ مین موجود ہوتے ہیں جو تھانیداروں ‘ تحصیلداروں اور پٹواریوں کے علاوہ ووٹروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھیر لیتے ہیں۔ سو‘ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خاں خاطر جمع رکھیں اور میرا تو خیال ہے کہ موصوف کی ہتھیلی پر وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیں ہے‘ آئندہ کبھی بن جائے تو الگ بات ہے‘ چنانچہ عمران خاں کے لیے نرم گوشہ اس لیے نہیں کہ کل کو وزیر اعظم بن کر وہ بھی اپنے حمایتیوں کے وارے نیارے کر دے گا بلکہ اس لیے ہے کہ وہ واحد آدمی ہے جس نے اس ملک کے سب سے بڑے ناسور‘ کرپشن کے خلاف علم بلند کر رکھا ہے جس کی کسی بھی اور میں توفیق نہیں ہے کیونکہ کرپشن کے اس حمام میں سبھی ننگے
اور ایک دوسرے کے کانے ہیں اور کرپشن مخالفت میں عمران خاں کا منشور بھی ہے۔ وہ مومن بے شک نہ ہو لیکن بے تیغ بھی لڑ رہا ہے اور کبھی میدان نہیں چھوڑے گا۔
آرمی چیف اور چیف جسٹس مل کر اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتے تھے جو ابھی تک نہیں ہوا اور انہیں اس کے لیے مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آرمی چیف ایک پیشہ ور اور نیک نام سپاہی ہونے کی وجہ سے‘ یا بین الاقوامی حالات کے سبب سے مجبور ہوں لیکن عدلیہ آئین کے اندر رہتے ہوئے بھی بہت کچھ کر سکتی ہے۔ اور نہیں تو پاناما لیکس پر سوموٹو ایکشن تو لیا ہی جا سکتا تھا کیونکہ اگر کسی چیف جسٹس کی طرف سے شراب کی بوتل برآمد ہونے پر یہ ایکشن لیا جا سکتا ہے تو پاناما لیکس پر کیوں نہیں جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ شراب کی بوتل پر ‘سو موٹو بیشک بظاہر ایک مذاق ہی لگتا ہے لیکن اس کی ایک علامتی حیثیت اور اہمیت بھی ہے‘کیونکہ بصورت دیگر اس پر کوئی ایکشن اس لیے لیا جانا ممکن نہیں تھا کہ متعلقہ شخصیت ملٹری ڈکٹیٹر کی منظور نظر تھی۔عدلیہ کم از کم ہمیں بتا ہی دیتی کہ سو موٹو ایکشن لینے میں آخر امرمانع کیا ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ اصغر خاں کیس سمیت حکمرانوں کے خلاف کئی مقدمات ابھی تک سپریم کورٹ کی فائلوں میں کیا کر رہے ہیں ۔وزیرِ اعظم سے معروف چار سوالوں کا جواب ہی مانگ لیتی اور اگر تسلی بخش جواب مل جاتا تو یہ معاملہ ختم ہو جاتا۔ یہ نہیں کہ اسے معاملے کی تباہ کاریوں کا احساس نہیں ہے‘ کرپشن کے خلاف جب بھی چیف جسٹس کا بیان آتا ہے‘ اُمید کی ایک کرن خواہ مخواہ ہی کہیں جاگ اُٹھتی ہے لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
بصورت دیگر آئے دن ایسا بیان ہی نہ دیا کریں اور ملک و قوم کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیں کہ زخموں پر نمک پاشی تو زیب نہیں دیتی ع
خطا نمودہ ام و چشمِ آفریں دارم
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے پروفیسر رانا محی الدین کی شاعری کے کچھ نمونے:
آدھا کلام اُس کو بنانے میں لگ گیا
باقی بچا سو اس کو گنوانے میں لگ گیا
اک پیاس‘ اور سامنے خیمے تھے‘ آگ تھی
پانی ملا تو آگ بجھانے میں لگ گیا
پھر یوں ہُوا کہ تم بھی زمانے کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ دل بھی زمانے میں لگ گیا
مُدت تھی‘اک سفر کے ارادے میں کٹ گئی
عرصہ تھا ایک‘ لوٹ کے آنے میں لگ گیا
میں کر رہا تھا اُس سے بچھڑنے کی التجا
وہ شخص میرا ہاتھ بٹانے میں لگ گیا
کراچی سے ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کا کلام:
کیا بتائوں اس میں کیا کیا دیکھنے کی چیز ہے
دیکھنے والو یہ دُنیا دیکھنے کی چیز ہے
کوئی چہرہ ہے نہ چہرہ گر‘ نہ چہرہ آشنا
اس نمائش گاہ میں کیا دیکھنے کی چیز ہے
ڈوبنے والا تو ڈوبا لیکن اس کے سوگ میں
سر پٹختی موجِ دریا دیکھنے کی چیز ہے
ختم ہونے پر ہوئے ہیں ختم کتنے دیدہ ور
کون کہتا ہے تماشا دیکھنے کی چیز ہے
آج کا مقطع
وہ نوکِ تیغ پہ رکھ لائے تھے ظفرؔ دستار
قبول کر کے ہی آخر بچا ہے سرمیرا