تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-09-2016

اپنے گھوڑے تیار رکھّو

پاکستان اس بحران سے انشاء اللہ سرخرو ہو گا۔ مقدمہ ہمارا مضبوط ہے اور وقت کا دھارا انشاء اللہ ہمارے حق میں بہے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کریں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ فرمایا: اپنے گھوڑے تیار رکھّو!
پندرہ برس ہوتے ہیں‘ باخبر اور نکتہ رس زہیر رانا نے بی بی سی بھارت پر ایک مباحثہ دیکھا۔ فعال طبقات سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے بھارتی‘ اتفاق رائے کے ساتھ انہوں نے قرار دیا کہ بھارت کو‘ پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے۔
1947ء میں کشمیر پہ کس نے قبضہ کیا ۔ 1971ء میں پاکستان کو کس نے دولخت کیا ۔ بھارتی مسلمانوں کو شودروں سے بدتر حالت میں کس نے پہنچایا کہ فوج‘ سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں ان کا حصّہ برائے نام ہے۔ سیاچن اور سرکریک میں کس نے جارحیت کی۔ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گردوں کا مددگار کون ہے۔ ایران‘ افغانستان میں قونصل خانوں اور رابطہ افسروں کا جال کس نے بچھایا۔ ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں جو پاکستان کو قصور وار سمجھتے ہیں۔ بھارتی نہیں‘ پاکستانی بزرجمہر۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت نے غلطیوں کا ارتکاب نہیں کیا‘ مشرقی پاکستان‘ مقبوضہ کشمیر اور کارگل میں۔ سوال یہ ہے کہ جارح کون ہے اور اپنے عوام کو کس نے جنگی بخار میں مبتلا کر رکھا ہے؟
صرف اُڑی حادثے کے بعد‘ پاکستانی اور بھارتی میڈیا کا ایک جائزہ ‘ اس سوال کا مسکت جواب فراہم کرنے کو کافی ہے۔ بھارت میں اخبار نویس‘ حتیٰ کہ سنجیدہ صحافی‘ پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بالکل برعکس‘ پاکستانی صحافت امن کی حامی ہے ۔
وزیراعظم نوازشریف نے سوال اٹھایا ہے کہ بارہ مولا میں بھارتی بریگیڈ پر خودکش حملے کے چند گھنٹے بعد ہی یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے ہے؟ بالکل بجاطور پر انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تحقیقات کے لیے چند گھنٹے نہیں کم از کم کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔
پاکستان کی دفاعی پالیسی بھارت پر مرتکز (India Centric) ہے۔ این جی اوز کے کارندے اور بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر دانشور ارشاد کرتے ہیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں یہی بات مائیکل ملن نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہی تھی۔ ہمیشہ دلیل سے بات کرنے والے فوجی مدبر نے کہا : امریکیوں کو ایک نظر‘ بھارتی فوج کی Deployment پر ڈالنی چاہیے۔ کہاں کہاں ان کے دستے تعینات ہیں۔ پاکستان کی پالیسی‘ بھارت پہ مرتکز نہیں بلکہ پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے۔
ہیجان طاری ہو جائے یا اپنے تعصب اور مفاد کے لیے کوئی گروہ اندھا ہو جائے تو عقل رخصت ہوتی ہے۔ ہود بھائی سمیت ان دانشوروں کے انداز فکر کا جائزہ لیجئے‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں جو ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ آج یہی پروگرام برصغیر میں امن کی ضمانت ہے۔
واشنگٹن کے بعد‘ ماسکو سے مراسم خراب ہونے کے بعد‘ چین نے ایٹمی پروگرام کا ڈول ڈالا۔ ایک موزوں پہاڑی مقام پر ایٹمی میزائل نصب کرنے کے بعد‘ انہوں نے امریکہ سے مراسم بہتر بنانے کا اشارہ دیا تو ہنری کسنجر منہ میں گھاس لے کر بیجنگ پہنچے۔ پاکستان ان مذاکرات کا رابطہ کار تھا۔ عالمی امن کے لیے اس نے ایک بے مثال خدمت انجام دی۔ ایک بار پھر امریکیوں کے سر میں انتقام کا سودا ہے۔ برطانیہ اس کا پوڈل ہے۔ اب کی بار ان کا مسئلہ چین کی فروغ پذیر معیشت اور دنیا بھر میں بڑھتا ہوا اس کا رسوخ ہے۔ بھارت اس لیے ان کا تزویراتی حریف ہے کہ نئے عالمی نظام (New World Order) میں‘ امریکہ اور اس کا پوڈل‘ ایک تھانیدار کا کردار چاہتے ہیں۔ جنوبی سمندروں کے تنازعے پر اسی لیے تیل چھڑکا گیا۔
بھارتیوں کا خناس یہ ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ صرف اس لیے ان کی مددگار نہیں کہ چین کا گھیرائو مقصود ہے۔ بلکہ اس لیے بھی کہ مشرق وسطیٰ میں وہ اسرائیل کے بل پر غلبے کا آرزو مند ہے۔
ایک ناجائز ریاست تشکیل دی گئی اور پورے کا پورا مغرب‘اس کی پشت پر آن کھڑا ہوا۔ ٹھیک اس وقت پاکستان وجود میں آیا۔ تب کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ ایک دن وہ ایٹمی پروگرام کے علاوہ دنیا کی بہترین لڑاکا فوج کا حامل ہو گا۔ چین اور ترکی کا حلیف۔بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور اللہ کے اپنے۔ فرمایا: مکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین۔ انہوں نے تدبیر کی اور اللہ نے تدبیر کی اور بے شک اللہ ہی بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
پاکستان کی موجودگی میں‘ بھارت اس خطے کا آقا نہیں بن سکتا ۔بی بی سی کے لیے بھارتی اخبار نویس سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی عوام کارروائی کے خواہش مند ہیں مگر بھارتی فضائیہ‘ پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ امریکہ‘ چین اور سعودی عرب پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔ اسے تنہا کر دیا جائے تو بھارت اپنی جنگ جیت لے گا۔
نفرت اور تعصب کے باوجود‘ اس رائے میں احتیاط کی جھلک ہے۔ تاریخی شعور سے بے بہرہ تمام انتہا پسند وں کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آگ وہ بھڑکا چکے آسانی سے اب بجھا نہیں سکتے۔ آزاد کشمیر یا کسی اور حصے میں چھوٹے سے کسی علاقے پر قبضہ کر کے‘ پاکستان کو بیچارگی میں مبتلا کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اس لیے کہ بھارتی فوج اگر پاکستانی حدود کے اندر ہو تو اس چھوٹے جوہری بم کے خوف سے لرزتی رہے گی۔ لائن آف کنٹرول کوگرم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے بہانے‘ بوفور توپوں سے بمباری بھی مگر اس کا جواب دیا جائے گا ۔ضروری نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں‘ جہاں عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پہلے ہی زخم خوردہ ۔ بڑے پیمانے کی جنگ کا اندیشہ نہیں کہ دنیا اس کی متحمل ہے اور نہ بھارت۔ پاکستان کو مغلوب کرنے کی خواہش‘ بھارت میں بہت ہے مگر اس کی قیمت بہت ہو گی۔ شدید مشکلات میں وہ ہمیں مبتلا کر سکتا ہے مگر خود اپنی تباہی کو دعوت دے کر۔ پاکستان کے اندر اس کے ہتھیار کند ہو چکے۔ الطاف حسین کے ساتھ ''را‘‘ کا معاہدہ یہ تھا کہ جنگ کی صورت میں پاکستانی افواج کو کراچی کے ساحل سے محروم کر دیا جائے گا۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار سمیت‘ دانشوروں کی کھیپ فکری اور نظریاتی انتشار پیدا کر سکتی تھی موجودہ حالات میں مگر وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ امن ہی واحد راستہ ہے ۔مذاکرات ہی واحد راستہ۔
بھارتی جنون برقرار ہے مقبوضہ کشمیر کے شہری قتل کئے گئے اور انہیں پاکستانی قرار دیا گیا آزاد کشمیر میں داخل ہو کر دہشت گردوں کو قتل کرنے کا دعویٰ سامنے آیا بعض بھارتی شہروں میں عام لوگوں کو جنگ کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی بحریہ کو انتہائی چوکس کر دیا گیا ہے، حملے یا پاکستان کا رخ کرنے والے بحری جہازوں کی راہ روکنے کے لیے؟ 
بھارتی قیادت اپنے پیدا کردہ بھنور میں ہے بڑے پیمانے کی نہ سہی‘ اپنے ووٹروں کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے نریندر مودی کوئی احمقانہ حرکت ضرور کریں گے، خواہ یہ دہشت گردی کی کارروائیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ مذہبی فرقہ پرستوں‘ افغانستان کی این ڈی ایس ‘ طالبان یا کراچی میں بچے کھچے کارندوں کی مدد سے۔ ہر چیز کی مگر ایک قیمت ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں فاصلہ کم ہوا ہے۔ پہلی گولی چلتے ہی سیاسی آویزش ختم ہو جائے گی۔
جارحیت کا اندیشہ ہے مگر پاکستانی قیادت ہیجان میں مبتلا ہے اور نہ عوام۔ ذہنی کشیدگی بھارت پر مسلط ہے۔ فوج پر ‘ سول قیادت پر‘ میڈیا اور بھارتی عوام میں ۔ خود کردہ را علاجے نیست ۔
ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ عالمی میڈیا جنگ کا اہم ترین میدان ہے، حکومتیں اگر نہیں سنتیں تو مقبوضہ کشمیر میں خون ریزی اور ستم گری کے شواہد دنیا بھر کے میڈیا اور فعال طبقات تک پہنچاناچاہئیں ۔خود کشمیریوں کی طرف سے وزیراعظم کے خصوصی پیغام بروں کو جکارتہ ‘ استنبول ‘ ماسکو سمیت دنیا بھر کے دارالحکومتوں کا رخ کرنا چاہیے۔ ارکان اسمبلی نہیں‘ مشاہد حسین ایسے لوگ ‘ہنر مند اور فصیح۔
پاکستان اس بحران سے انشاء اللہ سرخرو ہو گا۔ مقدمہ ہمارا مضبوط ہے اور وقت کا دھارا انشاء اللہ ہمارے حق میں بہے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کریں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ فرمایا: اپنے گھوڑے تیار رکھّو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved