پاک بھارت کشیدگی کی تازہ لہر جہاں کئی حوالوں سے تشویشناک ہے ،وہاں اس نے کئی مفروضے اور مِتھ بھی غلط ثابت کر دئیے ہیں۔ بھارتی جارحیت ہماری قومی سلامتی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے ، مگر اس ہنگامی صورتحال سے ہم پاکستانی خاصا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ہاں ایک بڑا حلقہ بھار ت دوستی کے گیت گاتا، امن کی آشا کے راگ الاپتا اور پاکستانی قوم کو نجانے کن کن کلیشوں پر یقین لانے کی ترغیب دیتا رہا۔ان میں ہمارے سیکولر، لبرل دانشوروں کا حلقہ بھی شامل ہے، مغرب سے فنڈز پانے والی این جی اوز کے فرستادے اور ان کے علاوہ سیفما جیسی میڈیا تنظیمیں بھی اسی سوچ کی حامل تھیں۔یہ لوگ ہمیںسمجھاتے رہے کہ دونوں اطراف ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں، تقسیم کی لکیر نے الگ الگ کر دیا، ورنہ کوئی فرق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بھارت سے آنے والے بعض سیاستدان، فنکار اور ادیب بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی بات کہتے رہے۔ پاکستان سے بھارت جانے والے میڈیا وفود کو وہاں بیشتر تقریبات میں تقسیم کی مصنوعی لکیر کا بھاشن سننا پڑتا ۔ خودمیاں نواز شریف نے بھی ایک تقریب میںبڑی سادگی سے اپنے سامنے بیٹھے بھارتی سکھ مہمانوں کو دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ ہم ایک ہی ہیں، وہی روٹی اور آلوگوشت کھاتے، ایک بولی بولتے ،رہن سہن ایک سا ہے۔ اس پر میاں صاحب کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ایک چھوٹے سے واقعے سے مگر یہ سب تصورات سب بھاپ کی طرح تحلیل ہوگئے۔
اب ہر ایک پر یہ واضح ہوگیا کہ بے شک ایسے بہت سے خاندان ہوں گے ، جن کے کچھ عزیز پاکستان میں اور کچھ بھارت میں رہتے ہوں گے، پاکستانی پنجاب میں بھی پنجابی بولنے، ہل چلانے، مکئی کی روٹی ، ساگ کھانے والے راجپوت، جاٹ برادریاں مقیم ہیں اور بھارتی پنجاب میں بھی ویسے ہی راجپوت ، جاٹ ، گجررہتے ہیں۔ یہ دونوں مگر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی ہونا ایک ٹھوس زمینی حقیقت ہے جو دونوں کے مفادات، نفع، نقصان اور ان کی زندگیوں کو بالکل الگ الگ کر دیتا ہے۔ پاکستانی قبائل ، برادریوں کے مفادات ریاست پاکستان سے وابستہ ہیں، ان کا جینا ، مرنا پاکستان کے ساتھ ہی ہونا چاہیے کہ دوسری طرف (بھارت)کے لوگوں سے ان کا کلچر، فنون لطیفہ ، برادری اور روایات جتنا بھی مشترک ہوجائے ، بھارتی ریاست کی نظر میں وہ دشمن ملک کے باسی ہیں۔بھارتی گولوں، میزائل، بمباری یا خدانخواستہ کسی نیوکلیئر حملے کی صورت میں ہر پاکستانی ایک ہی انداز میں نشانہ پر ہوگا۔
دس پندرہ برسوں سے پیپلز ٹو پیپلز کانٹیکٹ (عوام کے باہمی رابطے)کی بات ہوتی رہی، ثقافتی وفود کے تبادلے، دونوں اطراف کے شاعروں، ادیبوں، صحافیوں کے گروپ آتے جاتے رہے، تعلق خوشگوار بنانے، دوستی کے گیت گائے جاتے رہے۔بوڑھا بھارتی صحافی کلدیپ نائر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت واہگہ بارڈر پر موم بتیاں جلاتا ، ادھر ان کے فکری ہم نوا گلدستے ، موم بتیاں لئے پہنچتے رہے۔ سب بے سود اور رائیگاں ثابت ہوا۔ اس وقت ہم جیسے گستاخ یہ کہتے تھے کہ اس سب کچھ کا کوئی فائدہ نہیں، یہ مصنوعی حربے ہیں، پاک بھارت
تعلقات ٹھیک کرنے ہیں تو حقیقی ایشوز پر توجہ دی جائے، کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے اور بھارتی سیاسی وملٹری اشرافیہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرے۔ بگ برادر والا رویہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں، اس طرح سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ان باتوں پر ہمارے سیکولر، لبرل حلقے رائیٹ ونگ کے لکھنے والوں پر برہم ہوتے اورہم جیسوں کو جنگ کے متلاشی(War Mongers)کہتے تھے۔ اب وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ کون غلط اور کون درست تھا ۔
اہم بات یہ ہے کہ سب کچھ ایک چھوٹے سے واقعے نے درہم برہم کر دیا۔ چار لوگوں نے بھارتی فوجی کیمپ پر حملہ کیااور ڈیڑھ درجن فوجی ہلاک کر دئیے ۔چلیں اس مفروضے کو ابھی چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ واقعہ بھارت نے خود کرایا ہے۔ اگرچہ اس کے حق میں ایک بڑا حلقہ مختلف دلائل رکھتا ہے۔ ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے کسی سازشی تھیوری پر یقین نہیں کرتے۔ تاہم یہ تو ممکن ہے کہ بھارت میں موجود ہندو شدت لابی ایسا کوئی ڈرامہ سٹیج کر سکے۔ بھارت کے مشہور کائونٹر ٹیررازم ایکسپرٹ مسٹر کرکرے کی کاوش سے یہ سامنے آ چکا ہے کہ سمجھوتہ ٹرین میں بھارتی شدت پسندوں نے آگ لگائی تھی، جس میں متعدد پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے ۔کرکرے خود بھی ممبئی حملے میں نشانہ بن گئے ، جس پر خود بھارت سے ایک کتاب شائع ہوئی، جس میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا کہ کرکرے کو دہشت گردوں نے نہیں، بلکہ خود محکمے کے اپنے لوگوں نے مارا تھا۔ ہندوشدت پسندوں کی انوالمنٹ والی تھیوری پر بھی اگر کچھ دیر کے لئے ہم یقین نہ کریں تو بہرحال یہ تو ممکن ہے کہ شدت پسند مسلمان عسکریت پسندوں کا کوئی گروہ پاک بھارت جنگ کرانے کے لئے ایسی دہشت گردی کی کارروائی میں انوالو ہو۔ عسکریت پسندی کو مانیٹر کرنے والے صحافی اور تجزیہ نگار جانتے ہیں کہ دہشت گردی تنظیمیں پاک بھارت جنگ جیسے بڑے واقعے کی متلاشی رہتی ہیں کہ اس طرح ان کے لئے نئی ریکروٹنگ کی راہ کھلتی اورنئے تھیٹر آف وار کھل جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ خدانخواستہ تنائو کی اس صورتحال میں بھارت کے کسی فوجی کیمپ یا کسی بھی شہر میں صرف دو تین افراد کوئی کارروائی کر ڈالیں۔ کہیں پر بم دھماکہ یا امریکہ میں ہونے والے شوٹ آئوٹ واقعات کی طرح کا کوئی سانحہ، جس میں نہتے لوگوں کو نشانہ بنا یا جائے ، ایسی صورت میں تو جنگ یقینی ہوجائے گی ۔ دوسرے الفاظ میں صرف چند شدت پسند اس پورے خطے کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں۔ امن کے نام پر ہونے والی برسوں کی کوششوں، بیک چینل ڈپلومیسی وغیرہ پر پانی پھیر سکتے ہیں۔اس لئے ہم سب کو سمجھنا ہوگا کہ پاک بھارت کشیدگی کی اصل وجوہ کچھ اور ہیں۔
ہمارے ہاں ایک عرصے سے دفاعی بجٹ پر بات ہوتی رہی ہے۔ ایسے خودساختہ دانشور وں اور ماہرین بھی ہیں جو ڈیفنس بجٹ پر تنقید کرتے، ہمارے میزائل نظام اور دفاعی صلاحیت پر چیں بہ چیں ہوتے اور اپنی شام کی محفلوں میں ''مشروبات‘‘ سے لطف اٹھاتے نت نئے دلائل تراشتے ۔ ان کے خیال میںریاست پاکستان کو اپنے دفاعی بجٹ کم کر کے سوشل سیکٹر پر صرف کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے بڑی ہوشیاری کے ساتھ سیکورٹی سٹیٹ بمقابلہ ویلفیئر سٹیٹ کی اصطلاحات بنائی گئیں۔ یہ کہا جاتا رہا کہ چونکہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ بن چکا ہے، اس لئے یہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ نہیں کر رہا۔ حالانکہ یہ دلیل قطعی طور پر غلط ہے۔ دفاع پر تو سترہ اٹھارہ فیصد سے زیادہ خرچ نہیں ہوتا، باقی بجٹ اگر ایمانداری اور نیک نیتی سے خرچ کیا جائے تو عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ خیر اب ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ زندہ اور سربلند قوموں کے لئے مضبوط دفاع لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ جو لوگ ہمیں ڈیفنس بجٹ کم کرنے کا سبق دیتے تھے، وہ بنیادی
حقیقتوں سے نابلد، حماقت کی حد تک سادہ لوح یا پھر پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ اڑی حملہ کے بعد بھارت میں جس طرح کا ہیجان پیدا ہوا، ٹی وی چینلز پر سابق بھارتی جرنیل اور ماہرین جتنے جوش وخروش سے پاکستان پر حملہ کی بات کرتے رہے، اس تناظر میں اب تک پاکستان پر بھارتی فوجی سٹرائیک ہوچکی ہوتی ۔ انہیںصرف ہمارے نیوکلئیر ہتھیار، میزائل سسٹم، دفاعی نظام اور جوابی حملہ کرنے کی صلاحیت روک رہی ہے۔ پاکستان کو عراق، لیبیا یا یمن بننے سے صرف ہماری دفاعی اور عسکری صلاحیت اور افواج نے محفوظ بنا رکھا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے لوگ آتے ہیں، جن کے گیت نہیں گائے جاتے، لوگ انہیں شکل صورت سے نہیں پہچانتے، ان کے نام کوئی نہیں جانتا، مگر وہ قوم کے محسن اور ہیرو ہوتے ہیں۔ہمارے جن ماہرین اور منصوبہ سازوں نے سمال سکیل نیوکلیئر ہتھیار بنائے، انہیں پوری قوم سلام پیش کرتی ہے۔ اسی سمال سکیل نیوکلیئر ہتھیار کی آپشن ہی نے بھارتی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کو بے اثر کر دیا ہے۔ اب بھارتی ماہرین دیگر آپشنز کی تلاش میں جتے ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہمیں اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا ، اپنی صلاحیت میں اضافہ کرنا اور بھارتی جارحیت کو ہر حال میں کائونٹر کرنے کی استعداد کو مقدم رکھنا ہوگا۔
بھارت کیا کر سکتا ہے، اس کے پاس کون سی آپشنز ہیں،ہمیں کیا کرنا چاہیے ، یہ الگ موضوع ہے، ان کا اگلی بار ان شااللہ جائزہ لیں گے۔