حالات نوعیت ہی کچھ ایسی اختیار کرگئے ہیں کہ 1984 ء میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ کی معرکہ آراء فلم ''دنیا‘‘ یاد آگئی۔ اس فلم میں مرکزی کردار دلیپ کمار کا تھا۔ اُن کے مقابل تین ولن تھے ... پران، امریش پوری اور پریم چوپڑا۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہانی، منظر نامہ نگاری، مکالموں اور اداکاری کے اعتبار سے یہ فلم کیسی رہی ہوگی۔
کہانی یہ تھی کہ موہن کمار (دلیپ کمار) جب اپنے دوست دنیش ورما (پردیپ کمار) کے بے حد اصرار پر اُس کی کمپنی کا نظم و نسق سنبھالتا ہے تو اُسے پتا چلتا ہے کہ تین ملازمین جگل کشور آہوجہ عرف جے کے (پران)، بلونت سنگھ کالرا عرف بلونت (امریش پوری) اور پرکاش چندر بھنڈاری عرف بھنڈاری (پریم چوپڑا) کمپنی کے نام پر کچھ غلط دھندے بھی کر رہے ہیں۔ اپنا بھانڈا پھوٹنے پر تینوں مل کر دنیش ورما کو قتل کرکے اُس کے قتل کے الزام میں موہن کمار کو جیل بھجوا دیتے ہیں۔ جس دن مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے یعنی موہن کمار کو عمر قید سُنائی جاتی ہے اُسی دن اُس کی بیوی سُمترا (سائرہ بانو) اُس کی آنکھوں کے سامنے ٹرک سے کچل کر مر جاتی ہے۔ موہن کمار کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اور اُس کا اکلوتا بیٹا روی (رشی کپور) اُس کی پرانی نوکرانی میری (سُلبھا دیش پانڈے) کے گھر پروان چڑھتا ہے تاہم خود موہن کمار اِس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اُس کا بیٹا زندہ ہے کیونکہ یتیم خانے کا منشی جان چھڑانے کے لیے کہہ دیتا ہے کہ وہ (روی) اب اِس دنیا میں نہیں۔
موہن کمار 14 برس کی سزائے قید کاٹ کر رہا ہوتا ہے تو جے کے، بلونت اور بھنڈاری سے انتقام لینے کی ٹھان لیتا ہے۔ ایک بار وہ خاصی ہوشیاری سے جے کے کا اسمگل شدہ سونا لُوٹ لیتا ہے اور پھر اُن تینوں سے ملنے پہنچتا ہے۔
اسنوکر کلب میں فلمائے جانے والے اِس منظر میں بہت عمدہ مکالمے سُننے کو ملتے ہیں۔ ایک مرحلے پر جے کے کہتا ہے : ''اِن بے کار کی باتوں میں کیا رکھا ہے موہن کمار؟ تم کل بھی ہم سے الجھے تھے اور ہارے تھے۔ پھر الجھوگے، پھر ہاروگے۔‘‘
اِس کے جواب میں موہن کمار کہتا ہے : ''ہارنے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے جے کے (یعنی بیوی تو مر ہی گئی تھی اور اُس کی دانست میں بیٹا روی بھی مر کھپ گیا تھا!)، اب تو میں صرف جیت سکتا ہوں!‘‘
پاکستان کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ موہن کمار نے سب کچھ برباد ہوجانے پر کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان لی تھی۔ پاکستان کو بھی کچھ اِسی نوعیت کی صورت حال کا سامنا ہے۔ اب اُسے بھی آر یا پار والے مرحلے سے گزرنا ہے۔ موہن کمار کو صرف 14 برس کی قید ہوئی تھی۔ یہاں تقریباً 7 عشرے گزر گئے ہیں مگر عمر قید ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
پاکستان کے ہاتھ خالی ہیں۔ یا اِس بات کو یوں بیان کرلیجیے کہ ایسے حالات پیدا کیے جاتے رہے ہیں کہ پاکستان کے ہاتھ مزید کچھ نہ آئے اور جو کچھ ہے وہ بھی بتدریج کم ہوتا جائے۔ ہر طرف سے رقابت کی یلغار ہے۔ سازشوں کا جال ہے کہ ہر وقت بچھا رہتا ہے۔ یورپ بہت حد تک اصول پسند ہے اور کسی حد تک نرم گوشہ بھی رکھتا ہے مگر باقی دنیا کا کیا علاج؟ امریکا نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ دنیا بھر میں بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کو نوازا گیا ہے، آسانی اور تیزی سے اپنایا گیا ہے۔ پاکستان کا نام سُنتے ہی سب چوکنّے ہوجاتے ہیں اور تمام ضوابط پر عمل کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ مغرب کی طرح عرب ممالک نے بھی پاکستان کو بہت حد تک نظر انداز کرنے کا آپشن اپنایا ہے۔
چین اور ترکی کی مہربانی سے ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ والی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ ان دو دیرینہ رفیقوں کی بدولت اسٹریٹجک سطح پر پاکستان کی پوزیشن استحکام کی طرف گامزن ہے۔ اور اب اِن کی دولت اور تکنیکی تعاون سے کچھ کرنے یعنی کر دکھانے کی گنجائش ابھری ہے۔ پاک چین راہداری منصوبہ اِس کی نمایاں ترین مثال ہے۔ دوسری طرف ترکی بھی پاکستان سے قربت بڑھارہا ہے اور ایسا کرنے کی رفتار خاصی حوصلہ افزا ہے۔
پاکستان کے لیے ابھرنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہوئی دیکھ کر مہا راج کے پیٹ میں ایسا مروڑ اٹھا ہے کہ دنیا والے اِسے دل کا دورہ سمجھ بیٹھے ہیں! نئی دہلی سے یہ بات برداشت ہو پارہی ہے نہ ہضم کہ اسلام آباد سے کوئی قربت بڑھائے، اُسے دفاعی اور معیشتی اعتبار سے مضبوط کرنے پر متوجہ ہو اور اشتراکِ عمل کے نام پر اُس کی ترقی کا گراف بلند کرنے کی راہ ہموار کرے۔
آبادی، رقبے، معیشتی استحکام اور ہر طرح کی برآمدات کے معاملے میں کہیں بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود بھارت خوف اور تحفظات کا شکار رہتا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے بھارت جو کچھ کرتا آیا ہے وہی کچھ اِس وقت بھی کر رہا ہے۔ معاملات کو خرابی کی نذر کرنے کے سِوا نئی دہلی کے سامنے جیسے کوئی آپشن ہے ہی نہیں! بھارت کے بچھائے ہوئے ہر جال سے پاکستان یوں بچتا بچاتا گزرا ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے ہیں۔ بقول عدیمؔ ہاشمی ؎
آج بھی دیکھ لیا اُس نے کہ میں زندہ ہوں
چھوڑ آیا ہوں اُسے آج بھی حیرانی میں!
نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ فریکوئنسی بھی بڑھادی ہے۔ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کہا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس کی پشت پر پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اور اب تان امریکا سے معاہدے پر توڑی گئی ہے۔ بڑے صاحب کو زحمت دی گئی ہے کہ آپ ہی آکر سنبھالیے، ہم سے تو یہ پاکستان سنبھالا نہیں جاتا۔ بقول جون ایلیا ؎
روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کون اِس گھر کی دیکھ بھال کرے!
بعض ''مستند‘‘ (یعنی امریکا اور اُس کے ہم نواؤں کے پے رول پر بولنے والے) تجزیہ کار دبی زبان میں ڈرا رہے ہیں کہ پاکستان کو بہت محتاط رہنا ہوگا ورنہ اس کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ یہ بھی خوب رہی۔ ہم کیوں ڈریں؟ ہمارے پاس ہے کیا جس سے محروم ہو جانے کا خوف لاحق ہو! ترقی کی راہ پر تو بھارت گامزن ہے۔ خوف لاحق ہونا ہی چاہیے تو اسے لاحق ہونا چاہیے۔ ؎
نگاہِ آرزو سے بدگمان ہیں تو آپ ہیں
شباب ہے تو آپ پر، جوان ہیں تو آپ ہیں!
اگر خطے میں کسی بھی طرح کی اور کسی بھی سطح کی کوئی جنگ چھڑی تو بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔
جو لوگ یہ خدشہ ظاہر کرکے پاکستانیوں کو ڈرا رہے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی لڑائی میں پاکستان سینڈوچ ہوجائے گا اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ چین، ترکی اور روس کے ساتھ پاکستان کے اشتراک عمل کی صورت میں خود بھارت بھی سینڈوچ ہی ہو رہے گا! اور سینڈوچ ہوجانے کے خوف سے گھبراکر ہی تو نئی دہلی نے واشنگٹن کو محض پکارنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اسٹریٹجک اشتراکِ عمل کا باضابطہ معاہدہ بھی کرلیا!
بھارت نے پہلے کراچی، پھر بلوچستان میں خرابیاں پیدا کرنے کی اپنی سی کوششیں کرلیں۔ اب وہ ناکام ہوچکا ہے۔ چین اور روس نے خطے کو مستحکم کرکے اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کی خاطر پاکستان سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔ ترکی بھی اِسی لیے پاکستان پر زیادہ ملتفت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ چین اور ترکی سے ہماری دوستی آج کل کی نہیں بلکہ عشروں کے اشتراکِ عمل پر محیط ہے۔ یعنی یہ سب کچھ محض وقتی مفادات کی خاطر نہیں بلکہ اِس سے کہیں آگے کا معاملہ ہے۔ ہم نے روس سے بگاڑ مول لیا تھا تو صرف امریکا کی خاطر۔ اور اپنے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے بعد امریکا نے ہم سے آنکھیں پھیرلیں اور پتلی گلی سے نکل لیا۔ ع
مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں
یوں جارہے ہیں جیسے ہمیں جانتے نہیں
تین بڑوں نے پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے تو مہا راج کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، سانسیں اوپر نیچے ہو رہی ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ معاملات کو دوبارہ اپنے حق میں کیسے کیا جائے یعنی پاکستان کے لیے ترقی کی راہیں کیونکر مسدود کی جائیں۔ ایسے میں پاکستان کو جے کے، بلونت اور بھنڈاری سے ڈرنے کے بجائے وہی کچھ کرنا چاہیے جو موہن کمار نے کیا تھا۔ ہارنے کے لیے تو کچھ ہے نہیں۔ ایسے میں قومی سطح پر صرف جیتنے کی سوچ پروان چڑھانے میں کیا ہرج ہے؟