تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-09-2016

وہی ایک بات یاد نہیں رہتی

سب چلے جاتے ہیں‘ سبھی کو چلے جانا ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے مگر یہی ایک بات ہے جو یاد نہیں رہتی۔ کُل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ سب کچھ فنا ہونے والا ہے ۔باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ،بے کراں عظمت اور بے پناہ عزت والا!
فون کی گھنٹی بجی‘ تیز چیختی ہوئی گھنٹی ۔ صبح کے ساڑھے چار بجے تھے۔ دوسرے سرے پر ایک پرانے دوست تھے۔ ایک شب زندہ دار۔ 45 برس پرانے دوست۔ ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔
بھاگم بھاگ ایک جنازے میں شریک ہونا ہے۔ ایک ایسے آدمی کے جنازے میں‘ جس سے کسی کو کوئی شکایت نہ تھی اور عمر بھر جسے زندگی سے کوئی شکایت نہ ہوئی۔ 
شش و پنج میں تھا کہ اذان کا انتظار کروں یا ڈھیٹ بن کر سو جائوں کہ نچلی منزل سے آہنی گیٹ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ صبح پونے پانچ بجے۔ یاالٰہی خیر‘ کھڑکی کھول کر آواز دی مگر وہ صبح کاذب سے پھوٹتے‘ صبح صادق کے دھندلکے میں گم ہو گئی۔ کیا مجھے مغالطہ ہوا اور یہ کسی پڑوسی کا دروازہ ہے؟ کیا میں وقت کے صحرا میں‘ کسی اجنبی کو پکارتا ہوں؟ اتنے میں گاڑی سٹارٹ ہوئی اور اس کی تیز روشنی سے راہداری بھر گئی۔ دوسری یا شاید تیسری پکار پر معظم رشید کی آواز سنائی دی۔ ''منظور حسین صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا‘‘ اس نے کہا ''میں ہسپتال جا رہا ہوں۔‘‘ میرے استفسار پر اس نے شفاخانے کا نام بتایا۔ کسی کے ساتھ بات کرنے کی آواز سنائی دی ‘دبائو کے شکار مسافر کی آواز، تیزی سے جو ہدایات جاری کر رہا تھا۔ تب ایک سائے کو میں نے نچلے مرکزی دروازے کی طرف بڑھتے دیکھا۔ ''کون ہے؟‘‘ معظم رشید سے پوچھا۔'' بلال ہے‘‘ اس نے کہا‘ بلال الرشید۔ اندازہ ہوا کہ بچوں کو اس کے سپرد کر کے ہر ممکن تیزی کے ساتھ وہاں وہ پہنچنا چاہتا ہے‘ جہاں ایک جاں بلب منتظر ہے۔ اونچی صدا کے ساتھ‘ جو آسانی کے ساتھ سنی جا سکے‘ معظم رشید کو میں نے یاد دلایا کہ مریض کو چالیس دفعہ آیت کریمہ پڑھنی چاہیے‘ اور وہ دوسری دعاــ''کیا تمہیں یاد ہے‘‘ ''ہاں! ہاں‘‘ اس نے کہا'' یاد ہے‘‘۔
نیند اب کوسوں دور تھی۔ وضو کیا‘ نماز پڑھی اور اس خیال سے جی الجھتا رہا کہ معالج کی ہدایت کے باوجود‘ میں نے دل کے ٹیسٹ نہیں کرائے۔ تین ماہ بیت گئے۔ ساری زندگی یونہی بیت گئی۔ کتنے ضروری کام تھے جو نمٹائے نہ جا سکے۔ کتنی ہی غیر ضروری مصروفیات تھیں‘ جو عمر کو چاٹ گئیں‘‘۔ ''یٰحسرۃً علی العباد‘‘۔ اے میرے بندو‘ تم پہ حسرت ہے۔ جو لازم ہے‘ وہی آدمی انجام نہیں دیتا اور جو رائیگاں ہونے والا ہے‘ اس میں جان کھپادیتا ہے۔ 
کثرت کی آرزو نے تمہیں تباہ کر دیا 
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں 
مریض کے لیے دعا کے ہاتھ اٹھائے۔ اتنے میں فون کی گھنٹی پھر بجی‘ یہ معظم رشید تھے‘ ''کیا آپ کا کوئی جاننے والا ہے‘ جو ڈاکٹروں کو تاکید کرے؟‘‘ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ۔ دل کے مریضوں کا فوجی ہسپتال۔ '' ضرور ہو گا‘‘ میں نے کہا‘ مگر اس وقت صبح کے پانچ بجے؟ کیا انہوں نے مریض کو داخل نہیں کیا؟ کیا کوئی مشکل درپیش ہے؟ ایسی کوئی بات نہ تھی، مریض کی طرح مگر تیماردار بھی گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ کاش کوئی معجزہ ہو جائے،کاش کوئی معجزہ ہو جائے ۔بے چین وہ سوچتا رہتاہے ۔ 
بریگیڈئیر صاحب کو فون کیا ، ممکن ہے فجر کے لیے وہ جاگ اٹھے ہوں ، ضرور اٹھ پڑے ہوں گے۔ جن کی ذمہ داریاں سوا ہیں‘ بستر کی آسودگی سے انہیں کیا کام۔ مگر یہ بھی کیا ضروری تھا کہ شب کے آخر پہر ان کا فون کھلا ہوتا۔
دو گھنٹے اور بیت گئے۔ بریگیڈئیر صاحب کو ایک بار پھر فون کیا۔ ایک بار پھرگھنٹی کی وہی مدھم سی آواز‘ ایک بار پھر وہی گھمبیر خاموشی۔جنرل صاحب کو جگا دینا چاہیے‘ میں نے سوچا اور ایک لمحہ تامل کے بغیر‘ ان کے فون پر دستک دی۔ وہی سکوت ،وہی تاریکی۔
تیرگی ہے کہ امڈتی ہی چلی آتی ہے 
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
دن بھر کی بے شمار کڈھب مصروفیات کے بارے میں سوچا اور خیال آیا کہ کالم ابھی لکھ دینا چاہیے۔ نیند اگرچہ پوری نہیں ہوئی‘ پوری کیا‘ ڈیڑھ گھنٹہ سویا ہوں گا‘ مگر ایک فرض کا بوجھ اتر جائے ۔ بوجھ اتار دینے کے بعد ہی گہری میٹھی نیند آتی ہے۔ بے شک آدمی کو مشقت میں پیدا کیا گیا۔ شاہ جی‘ عباس اطہر مرحوم‘ اپنی نانی اماں کا ایک قول سنایا کرتے تھے: آدمی اور گھوڑے کے پائو ں اس کے پیٹ میں ہوتے ہیں۔ دم لینے کی فرصت کہاں ۔ 
جہاں میں فرصت میسر آتی ہے فقط غلاموں کو
نہیں بندہ ء حر کے واسطے جہاں میں فراغ
کس موضوع پر لکھا جائے؟ ٹی وی پروگرام میں دو نکات پر بات ادھوری رہ گئی تھی۔ اپنے ساتھی پہ رہ رہ کے مجھے غصہ آیا۔ وہ ایسے سوال کیوں اٹھاتا ہے اور وہ بھی ایک کاٹ دار طنزیہ پیرائے میں ،ایک آدھ منٹ میں‘ جن کا جواب دیا نہیں جا سکتا۔ الطاف حسین کو تین عشرے تک پیغمبر کا درجہ دینے والے فاروق ستار اور اس کے ساتھیوں کی اس نے وکالت کی کہ ان کے باب میں حسن ظن سے کام لیا جائے۔ حکمت یار کا ذکر ہوا تو اس نے کہا: اس کی اب کیا حیثیت؟ اب وہ دھتکارا ہوادوسرا الطاف حسین ہے۔دل کو گویا‘ خنجر کی نوک نے چھو لیا۔ فقط یہ کہا :یہ تو ایک گالی ہے۔ایک غدار‘ خواہ کتنا ہی قہرمان کیوں نہ رہا ہو‘ ایک حریت پسند دلاور نے خواہ کتنی ہی غلطیاں کی ہوں ‘ ساری زندگی اپنے وطن کی نذر کر دی۔دونوں کا کیا موازنہ ؟ بوڑھے ہوتے ہوئے حکمت یار کا سراپا ذہن میں ابھرا اور دل پر ایک زخم لگا۔ افغانستان سے پاکستان پہنچنے والے ایک افغان وزیر سے‘ پرسوں میں ان کی صحت کے بارے میں کرید کرید کر پوچھتا رہا۔ سلیم صافی یقین دلاتے رہے کہ حکمت یار بھلے چنگے ہیں۔زچ ہو کر یہ بھی کہا، صدر اشرف غنی سے بہرحال بہتر۔ انجینئر گلبدین کی بدن بولی مگر کچھ اور کہتی ہے۔ خانہ بدوش لالہ عبدالقادر کا خانہ بدوش فرزند۔ جس کے اجداد غزنی سے ڈیرہ اسماعیل خاں تک سفر کیا کرتے۔ مفتی محمود مرحوم کا ہم قبیلہ ،ایک خروٹی۔ غالباً اسی زمانے میں جب مفتی محمود کے والد نے ڈیرہ اسمٰعیل خاں میں قیام کا ارادہ کیا تھا‘ حکمت یار کے والد شمال میں بہت دور‘ امام صاحب نامی گائوں میں جا بسے ۔ سرائے نازک میر سے پرے‘ دریائے آمو کے کنارے‘ بندرگاہ شیر خاں کے دہانے پر۔ دور دور تک پھیلے جنگلوں میں جہاں سرخ دموں والی چڑیاں چہچہاتی ہیں ۔جہاں دنیا کے سب سے زیادہ میٹھے خربوزے پیدا ہوتے ہیں ۔
حکمت یار کے بارے میں لکھنا چاہیے‘ مگر کوئی پیرایہ بھی سوجھے‘ کچھ تازہ معلومات بھی ہوں۔ کم از کم اس سوال کا جواب کہ صدر اشرف غنی اس آدمی کو کیسے گوارا کریں گے ؟انکل سام کیسے گوارا کریں گے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بساط الٹ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، تمنا بھی۔
لیکن اب؟ اب 68برس کی عمر میں؟ میں نے سوچا اور یادآیا کہ اس کی تاریخ پیدائش 14اگست 1948ء ہے۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے؟ کوئی چیز اتفاق محض نہیں ہوتی؛ اگرچہ ہمیشہ ہم سمجھ نہیں پاتے۔ ہمیشہ ادراک نہیں کر سکتے۔ پھر ہم بے چین ہوجاتے ہیں اور کتابِ مبین میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ تمہیں قرار کیسے آئے، تم جانتے جو نہیں۔بندے نہیں جانتے‘ جانتا صرف اللہ ہے۔ اس سے ہم پوچھتے نہیں‘ اس کی کتاب سے‘ اس کے سچّے پیمبرؐ سے ؛ حالانکہ وہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں ۔سب آفاق انسانی ذہن پہ روشن کر دینا چاہتے ہیں۔یٰحسرۃً علی العباد۔ اے میرے بندو‘ تم پر افسوس۔
سو اسات بجے ہیں ۔ مریض کی خیریت پوچھنی چاہیئے۔ امید ہے اب تک سنبھل گیا ہو گا۔ معظم رشید کی آواز گلو گیر تھی۔ وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ ایک اور بھلا آدمی دنیا سے رخصت ہوا‘ باقی رہنے والی ایک اور حزیں یاد نے جنم لیا۔ 
سب چلے جاتے ہیں‘ سبھی کو چلے جانا ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے مگر یہی ایک بات ہے جو یاد نہیں رہتی۔ کُل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ سب کچھ فنا ہونے والا ہے ۔باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ،بے کراں عظمت اور بے پناہ عزت والا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved