تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-09-2016

قرۃ العین حیدر کی آنکھ سے کراچی کو دیکھو۔۔۔۔ (2)

(آگ کے دریا کا ایک کردار جو ہجرت کر کے پاکستان آ چکا ہے، ہندوستان میں مقیم اپنے بیٹے کو خط لکھتا ہے)
پاکستانی انٹلیکچوئل کو دیکھ کر بڑادکھ ہوتا ہے۔ ان ذہین لوگوں کا وقت کس بھیانک خلا میں برباد ہو رہا ہے۔ ان کے سامنے کوئی پروگرام نہیں ہے۔۔۔۔کوئی راستہ، کوئی مقصد! یہ سب بھی جنگل کے قانون میں گرفتار ہیں۔ محض تلخی، بیزاری اور مایوسی ان کا فلسفہ ہے۔ میں ان کا مقابلہ اپنے ساتھیوں سے کرتا ہوں جو انہی کے نسل کے نوجوان ہیں اور پچھلے نو سال میں مختلف راہوں پر چلتے ہوئے ارتقا کی منزلوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اکثر میرے نئے دوست مجھ سے پوچھتے ہیںکہ دوسرے ملکوں میں ہر مہینے ٹھوس موضوعات پران گنت کتابیں چھپتی ہیں۔ مختلف شعبوں میں زبردست ریسرچ ہوتی ہے۔کیسے کیسے رسالے نکل رہے ہیں۔ کیا کچھ سوچا اور لکھا جا رہا ہے۔ وہ حکومتیں فنون لطیفہ، ادب اور علم کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ ایک دوست اکثر مجھ سے کہتا ہے: یار قسم خدا کی! باہرکے اخبار پڑھنے کو دل نہیں چاہتا، بڑا فرسٹریشن ہوتا ہے۔ فرسٹریشن۔۔۔۔یہ لفظ یہاں کی ساری زندگی کا سمبل ہے۔ دوسرا لفظ ریکٹ ہے۔ سیاست، ادب،کلچر، مذہب، ہر چیز کاریکٹ چلایا جا رہا ہے۔ میرے ذہین دوست جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے بے نیازانداز میں سوال کرتے ہیں، کہو بھائی، آج کل کون سا ریکٹ چلا رہے ہو؟ جب میں ان لوگوںکو اپنی عمرکا بہترین حصہ اس خلا میں ضائع کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے بہت صدمہ ہوتا ہے۔ صبح یہ لوگ اپنے کام پر نکلتے ہیں، دوپہر کو ایک نیم تاریک غیردلچسپ ہائوس میں جمع ہو کر کھانا کھاتے ہیں اور شام کوکوئی انگریزی فلم دیکھ لیتے ہیں۔ہر منگل کے دن کسی ایک کے یہاں جمع ہوکر پھر وہی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ ان سب کو اپنے اپنے ضمیر کا بڑا احساس ہے مگر بہرحال زندہ تو رہنا ہے۔ روزی بہرحال کمانی ہے۔ اگر بھوکوں مرنا ہوتا تو ہندوستان سے ادھر کیوں آتے(اس میں سے اکثر مہاجر ہیں۔)
جرنلسٹ ایمانداری سے رپورٹنگ نہیں کرسکتے کیونکہ اخباروں سے نکال باہر کیے جائیں گے۔ ادیبوں کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں رہا۔ اگرچہ بے شمار رسالے نکل رہے ہیں، ترقی پسندی آئوٹ آف فیشن ہوچکی ہے، حتّی کہ ادب میں جمود کا نعرہ بھی پرانا ہوگیا ہے۔
اسلام۔۔۔۔اس لفظ کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا۔کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم ہارنے لگے تو سمجھو اسلام خطرے میں ہے۔ دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر اسی لفظ پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ دوسرے مسلمان ملک اس بات سے چڑتے ہیں کہ ساری دنیا کی طرف سے اسلام کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے۔ ہر چیز پر تنگ نظری کا غلاف چڑھا ہے۔ موسیقی، آرٹ، علم و ادب، سب کچھ ملا کے نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اسلام جو ایک چڑھتے ہوئے دریا کی طرح ان گنت معاون ندی نالوں کو اپنے دھارے میں سمیٹ کر ایک عظیم الشان آبشارکی صورت میں رواں ہوا تھا، اب ان کے ہاتھوں ایک مٹیالے نالے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نالہ بھی ایک وسیع بھیڑ میں بہہ رہا ہے، جس کے چاروں طرف بند باندھے جا رہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسلام کا نعرہ لگانے والوںکو فلسفۂ مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کو صرف اتنا معلوم ہے مسلمانوں نے آٹھ سو سال عسیائی سپین پہ حکومت کی۔ ایک ہزار سال ہندو برصغیر پر۔ عثمانیوں نے صدیوں مشرقی یورپ کو طابع فرمان رکھا۔ امپیریلزم کے علاوہ اسلام کی جو عظیم انسان دوستی کی روایات ہیں ان کا تذکرہ نہیںکیا جاتا۔ عرب حکما، ایرانی شعرا اور ہندوستانی صوفیاء کی وسیع القلبی کا چرچا کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ علی اور حسین کے فلسفے سے کوئی غرض نہیں۔ اسلام کو ایک جارحانہ مذہب اور طرز زندگی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں، اپنے ملک کے انتہائی اہم مسائل کو نظراندازکرکے کلچرکو غیر ملکیوںکے سامنے پیش کرنے کا رجحان زوروں پر ہے۔ شاید ہماری کتاب انگلستان یا امریکہ سے چھپ جائے، کوئی امریکی فلم کمپنی اسے اپنی مووی میں لے لے یا ہم کسی بین الاقوامی کانفرس میں بھیج دیے جائیں۔
انگریزی جرنلزم کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ مسلمانوں کے پاس پہلے ہی کون سے اخبارات تھے، انہیں صحافت کی کونسی ٹریننگ ملی تھی۔ 1947ء کے بعد اب تک جو کھیپ یونیورسٹیوں سے باہر نکلی اس میں سے اچھے لکھنے والے سامنے آنے چاہئیں تھے۔ ان گنت خواتین و حضرات یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر لوٹے ہیں۔ ہمارے زمانے میں کوئی اکا دکا خوش نصیب ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے سمندر پار جاتا تھا۔ خدا جانے آج کل لوگوں کو ماسٹر کی ڈگریاں اور ڈاکٹریٹ کیسے مل جاتے ہیں۔ اور یہ لوگ پڑھ لکھ کراپنا علم کہاں رکھ چھوڑتے ہیں۔ یہ اسرار آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی لڑکیاں بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، بالخصوص شہروں میںکہ ان کا متوسط طبقہ ماڈرن ہوچکا ہے۔ ان گنت لڑکیاں ڈاکٹر، نرس اور لیکچرر بن رہی ہیں۔ ملازمتیںکر رہی ہیں۔ لڑکیوںکی ملازمت کو اب معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ مجموی طور پر پاکستانی خواتین نے واقعی ترقی کی ہے جو بہت اچھا شگون ہے۔ 
رات گزرتی جارہی ہے، جوکچھ میرے ذہن میں آ رہا ہے، لکھتا جا رہا ہوں۔ اسی وجہ سے شاید تم کو خط بے ربط معلوم ہوگا مگر اتنی بہت سی باتیں تم سے کرنا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری آنکھوں سے میرے نئے ملک کو دیکھ لو۔ میری ہمت بڑھائو تاکہ میں اس ملک کے لیے اپنے تئیں کچھ اچھا کر سکوں۔ 
مغربی پاکستان کی سوسائٹی کا ڈھانچہ اب تک فیوڈل رہا ہے۔ لہذا یہاں سیاسی شعور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ عوام مڈل ایسٹ کے بادشاہوں کے جلوس دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ جہانگیر پارک میں اکٹھا ہوکر وزیراعظم کی تقریر سننے کے بعد زندہ باد اور مخالف پارٹی کے لیڈروں کی تقریروں کے بعد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہنستے بولتے، خوش خوش گھر لوٹتے ہیں۔ عام طور پر سرکاری اور غیرسرکاری جلسے جلوسوں کے لیے کرائے کے آدمی بلائے جاتے ہیں۔ نعرہ بازی کے بعد ان کو پیسے دے کر رخصت کیا جاتا ہے۔ سیاسی لیڈرشپ بڑے بڑے کاروبار، سیٹھوں کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔
عوام کی نفسیات اور ہسٹیریا کی عجیب و غریب مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ چند سال قبل، پنڈت جی یہاں آئے تو عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پولیس کارڈن توڑ دیے اور زندہ باد کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ پنڈت جی خود ایک نمبر کے جذباتی آدمی، ان پر خود رقت طاری ہوئی۔ خوش آمدید کے پھاٹک بنائے گئے۔ یہی عوام وقتاً فوقتاً مخالفین کی آرتھی کے جلوس نکالتے ہیں اور ان کے پتلے سڑکوں پر جلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کرکٹ میچ بھی اسی ہسٹیریا کا ایک تاریخ واقعہ ہے۔
انڈیا پاکستان کا میچ ہوتا تو چند روز کے لیے گماں ہوتا کہ پنجاب تقسیم نہں ہوا۔ لاہور اور امرتسر حسب سابق ایک ہی صوبے کے دو شہر ہیں۔ ہزاروں ہندو اور سکھ جوق در جوق سائیکلوں پر بیٹھ کر لاہور آئے۔ لاہورکے حلوائیوں نے ان کو مفت مٹھائی کھلائی۔ تانگے والوں نے ان سے کرایہ نہیں لیا۔ قیامت کی چہل پہل رہی۔ آئیڈیالسٹ قسم کے کالم نگاروں نے اخباروں میں عظمت انسان کے گن گائے۔ بڑے دل خراش واقعات بھی ہوئے۔ ایک بوڑھا اندھا سکھ مشرقی پنجاب سے آیا اور اپنے سابق شہر کے گلی کوچوں کے در و دیوار چھوتا پھرا۔ اس نے کہا میرے پرانے مکان لے چلو جو کہیں شاہ عالمی میں تھا۔ لوگوں نے اسے وہاں تک پہنچایا اور وہ اپنے گھرکی دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رویا۔ 
میں اس نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن میرا دماغ کام نہیں کرتا۔ سٹیریو ٹائپ کے متعلق ہم نے سوشیالوجی میں بہت کچھ پڑھا ہے۔ مگر جب اصلیت میں اس سے دوچار ہوتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ 
مہاجرین کا ایک اور مسئلہ ہے۔ سینتالیس کے ہندوستان میں جو حالت شرناتھیوں کی تھی وہ آج پاکستان بننے کے آٹھ سال گزرنے کے بعد مہاجرین کی ہے اور روز بروز ہولناک ہوتی ہے چونکہ میں ٹیکنیکل طور پر خود مہاجر ہوں، لہٰذا اس پرابلم پر میں نے بہت غور کیا۔
دیکھو بیٹا، بات ساری یہ ہے کہ ہندوستان میں متوسط طبقے کے مسلمان کے قدم اکھڑ چکے ہیں۔ وہی اسٹیریو ٹائپ کا حوالہ یہاں پھر دینا پڑے گا۔ سکیورٹی کی تلاش میں یہاں کے ناگفتہ بہ حالات جانتے ہوئے بھی ہندی مسلمان یہاں آ جانا چاہتا ہے۔ جب مسلمان لڑکے یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں تو ہندکی دفاعی افواج میں اس لیے نہیں جاتے کہ ان کی وفاداریاں مشکوک ہیں۔ سارے خاندان بٹ چکے ہیں۔ ایک بھائی پاکستان آرمی میں ہے، دوسرا نیوی میں، تیسرا آزادکشمیر ریڈیو میں نوکر ہے، اس کا چوتھا بھائی ہندوستان کے شہر پٹنہ میں بی ایس کر رہا ہے، انڈین ایئرفورس میں درخواست بھیجنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ لہٰذا وہ یہاں پہنچ کر جیٹ پائلٹ بن جاتا ہے۔ پٹنے میں شاید وہ کلرک بھی نہ بن سکتا۔ دوسرا عنصر یہ ہے اسے یہ خیال رہتا ہے کہ اگر وہ ملازمت کے کمپٹیشن میں بیٹھا بھی تو ہندو، جو زیادہ محنتی ہے، سے نہیں جیت سکے گا ۔ اگر جیت بھی گیا تو تعصب کی وجہ سے اسے سلیکٹ نہیں کیا جائے گا۔
(یہ اقتباسات قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کے دریا سے ہیں جو پاکستان بننے کے آٹھ برس بعد لکھا گیا تھا۔) (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved