تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     25-09-2016

مرتضیٰ بھٹو: یہ لہو کبھی تو رنگ لائے گا!

مرتضی بھٹو کی موت کو بیس سال بیت گئے ۔ فاطمہ بھٹو کے مطابق اس کے قاتل آج بھی اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں اور ان کے محلات دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو نے حکمران سیاست اور نظام سے دشمنی مول لی تھی۔ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والوں کو زیادہ مسلح اوردیوہیکل حاکمیت کبھی فراموش کرتی ہے نہ کبھی چھوڑا کرتی ہے۔ لیکن عام لوگوں میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ اگرچہ مرتضیٰ بھٹو کی جدوجہد ،قربانی اور جان پر کھیل جانے کی جرات ،ذہانت اور نظریاتی پختگی بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد سے کہیں زیادہ تھی تو پھر مرتضیٰ بھٹو کو پیپلز پارٹی کی روایت کی وراثت اور حمایت کی اکثریت‘کیوں حاصل نہ ہوسکی؟''تاریخ میں فرد کا کردار‘‘ کے نام سے پلیخانوف نے بہت سیر حاصل تحریر لکھی تھی۔ لیکن انقلابات کے بار بار بکھر جانے اور ترقی کی ' ناہموار اور بے ہنگم طرز‘ نے پاکستان جیسے معاشروں میں عمومی سماجی شعور کو بھی کہیں بہت زیادہ ایڈوانس کردیا ہے اور کہیں یہ ثقافتی پسماندگی کا شکار ہو کر افراد کی پیروکاری میں مبتلا ہے‘ جس سے سیاست میں فرد کا کردار ضرورت سے کہیں زیادہ بالا دست ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شخصیات کا تاریخ اور انقلابات میں کلیدی کردار ہوتا ہے ،لیکن اس کی مبالغہ آرائی اس وقت جنم لیتی ہے جب پارٹیاں کمزور اور ان کے دوسرے لیڈر اور اہل کار یا تو انتہائی کاسہ لیسی کا کردار اپنا لیتے ہیں یا پھر اس کاسہ لیسی کے پردے میںریاکاری سے حقیقی قیادت کے خلاف خفیہ سازشوںاور غداریوں کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں پارٹیوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن جن پارٹیوں کی نظریاتی بنیادیں مضبوط ہوں، ہمت ،جرات اور جذبے بلند ہوں وہ ایسے بحرانوں سے زیادہ طاقتور اور فعال ہو کر نکلا کرتی ہیں۔لیکن پیپلز پارٹی کوئی ایسی پارٹی نہ تھی۔ آغاز میں اس کے بانیوں نے اس کو ٹھوس نظریاتی اور انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ سب کچھ معمول کے حالات میں نہیں بلکہ ایک امڈتی عوامی بغاوت کے طوفان کے تھپیڑوں میں کیا جارہا تھا۔ اسی لیے خصوصاً اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو کی شخصیت پارٹی کا متبادل بننی شروع ہو گئی تھی۔ اگر پارٹی نظریاتی اور تنظیمی طور پر مضبوط ہوتی تو بھٹو کی مقبولیت سے انقلابی پروگرام آگے بھی بڑھتا اور بھٹو بھی پارٹی کے سامنے جوابدہ ہوتا۔ مشترکہ جمہوری بنیادوں پر پارٹی کے فیصلے پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل پاسکتی تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی کی اس خامی کا خمیازہ بھی پھر بھٹو کو ہی سب سے زیادہ بھگتنا پڑا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو جب راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب سے آخری ملاقات کرنے گئیں تو ذوالفقار علی بھٹو بار بار پارٹی کے تحریک نہ چلانے کا شکوہ کرتے رہے۔نصرت بھٹو نے آخر میںصرف ایک ہی جواب دیا تھا'' ذوالفقار ! تم باہر کوئی 'بالشویک پارٹی‘ چھوڑ کر آئے تھے کہ اب شکوہ کررہے ہو ؟‘‘۔ بھٹو کی موت کے بعد پارٹی کی اقتدار کے دور میں آئی ہوئی زیادہ تر قیادت یا تو بھگوڑی ہوئی یا پھر فرار ہوگئی ۔ ریاستی اقتدار میں پارٹیوں کے ڈھانچے ٹوٹتے ہیں‘ فعال اور مضبوط نہیں ہوا کرتے۔فوجی بغاوت کے بعد‘پارٹی میں کئی رجحانات پیدا ہوئے ،ان میں سے زیادہ جوشیلے‘غم اورانتقام کی آگ سے بھرے نوجونواں میں مسلح جدوجہد کا رجحان ابھرا۔ جب تمام عالمی، مسلم لیڈروں، سے فریاد کرکر کے مرتضیٰ بھٹو اپنے والد کی جان بچانے میں ناکام ہوا تو اس نے اسی راستے کو اپنایا۔ یہ راستہ جہاں پُر خار اور خطرناک ہوتاہے ،وہاں ایسے راستوں پر چل نکلنے والوں کے لیے پھر مروجہ سیاست اور معمول کی زندگی میں لوٹنا ممکن نہیں رہتا۔ اس میں ہار یا جیت زندگی اور موت کا کھیل ہوتا ہے۔ واپسی کا صرف ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے وعدہ معاف گواہ بن کر اپنے مقصد اور نظریے سے غداری کا مرتکب ہوا جائے۔ بے نظیر جس راستے پر چل پڑی تھیں وہ مرتضی کے مقابلے میں دوسری انتہا تھی ۔ یعنی مروجہ نظام اور سیاست کا حصہ بن کر‘ اقتدار کے حصول کا راستہ۔ اسی پالیسی کے تحت ان کو مغربی سفارتکاری کے ذریعے1984ء میں رہائی ملی، وہ لندن میں قیام پذیر ہوئیں ۔ برطانوی اصلاح پسند دائیں بازو کے ڈیوڈ اون جیسے لیڈر ان کے اصلاح کار اور سیاسی گرو بنے ۔ امریکہ کے دوروں کے دوران انہوں نے سفارتی کوششوں کے ذریعے پاکستان واپس آنے اور اقتدار حاصل کرنے کی سیاست بھر پور انداز میں شروع کردی تھی۔ سامراج کی انگلی پکڑ کرچلنے والی قیادتوں کی پارٹیوں کوانقلابی اور سوشلسٹ نظریات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے، اپنے ذاتی دشمنوں کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ نہ انقلابی سیاست کی جاسکتی ہے اور نہ ہی عوام پر قہر ڈھانے والوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی گنجائش رہتی ہے۔ مغربی سفارتکاری سے اسی 'مفاہمت‘ کی بنیاد پر 1986ء میں بے نظیر کی پاکستان واپسی ہوئی ۔ یہاں عام نوجوانوں اور محنت کش عوام ان سے کچھ اور ہی توقعات لگائے بیٹھے تھے۔لاہور میں 10اپریل کو ان کے استقبال کے لیے لاکھوں افراد امڈ آئے تھے۔ وہ ''بے نظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے‘‘! کا نعرہ لگا رہے تھے لیکن بے نظیر کی واپسی 'انقلاب کے مقصد ‘کے لیے نہیں کروائی گئی تھی ۔ بہرکیف اس عوامی ابھار نے ضیاء الحق کی جابرانہ آمریت کے دن گن دیئے تھے۔ اس کا چلے جانا ٹھہرچکا تھا۔ اس کے جانے کا راستہ‘ اس کے رویے کے مطابق ہی اس کے سامراجی آقائوں نے اختیار کیا تھا۔ لیکن جب مرتضیٰ بھٹو واپس آیا تو وہ اس کی بہن اور پیپلز پارٹی کا دوسرا اقتدار تھا۔ ان د و حکومتوں میں عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا ان کو جس مایوسی اور بددلی کا شکار ہونا پڑا تھا اس سے 69ء کی پیپلز پارٹی کی پنجاب اور سندھ میں ساکھ بہت حد مجروح ہوچکی تھی۔ اس تنزلی کا مرتضیٰ کو دو حوالوں سے نقصان اٹھانا پڑا تھا۔وہ ایک دہائی سے سیاسی عمل سے دور تھے۔ بے نظیر ہی عوام کے سامنے تھیں اور ان کی مفاہمت پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے میڈیا اور حکمران ذرائع ابلاغ نے انہی کو پیپلز پارٹی کا تشخص بنا کر عوام کے شعور پر 'ثبت ‘کردیا تھا۔ دوسری جانب ‘جب مرتضیٰ نے اپنی جدوجہد اور پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام پر سیاست کرنے کی کوشش کی تو ان کو ایسے عوام کا سامنا تھا جوپیپلزپارٹی کے دو اقتداروں سے اس حد تک بد ظن ہوچکے تھے کہ ان میں شاید وہ ہمت اور حوصلہ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دوبارہ اسی پارٹی کے لیے ایک نئی جنگ کرنے میدان میں اترتے۔اس سے مرتضیٰ کو جس مایوسی کا شکار ہونا پڑا وہ ایک طرف تھی لیکن اس کا غم وغصہ اور بغاوت ‘اس کو ٹکرانے کے لیے بار بار ابھار رہے تھے۔لیکن پھر عوام ٹکراتے بھی تو کس سے ؟ پیپلز پارٹی ہی کی حکومت سے؟ یہ وہ تاریخ کا المناک تضاد جس کی وجہ سے مرتضیٰ بھٹو وسیع عوامی تحریک ابھارنے اور اس نظام کو بدلنے کی اپنی خواہش کو آگے نہیں بڑھاسکے۔ اسی کشمکش میں‘ ان'' قوتوں‘‘ نے پس پردہ رہتے ہوئے مرتضی کے''اپنوں‘‘ کی سازشوں کے ذریعے ہی 1996ء میں انکا بہیمانہ خون کروایا۔خون تو اوروں کا بھی گرا مگر مرتضیٰ لڑتے ہوئے مرا تھا۔ مصالحت اس نے آخری دم تک نہیں کی تھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلابات بندوقوں کی گولیوں سے نہیں‘ نوجوانوں اور محنت کشوں کے عزم ،حوصلے اور ان کے سماجی کردار کو باشعور کرکے ایک بغاوت میں بدل دینے سے آیا کرتے ہیں۔ آج پھر کبھی بلاول کو پیپلز پارٹی کے احیاء کے لیے ایک نسخہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے تو کبھی فاطمہ اور ذوالفقار جونیئر سے نئے نجات دہندہ کے طور پر امیدیں لگوائی جارہی ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام جن تجربات سے گزرے ہیں، جن معاشی اور سماجی عذابوں کا شکار ہیں ،ان میں اتنے دبے ہوئے ہیں کہ اب ان کو ایسی موروثی شخصیات اور ناموں پربھروسا نہیں رہا۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عوام پھر نئی انقلابی تحریک میںنہیں ابھریں گے۔ یہ بغاوت جلد یا بدیر ہونے والی ہے لیکن ضروری نہیں کہ جو نام اورتخلص اتنے مجروح ہوچکے ہیں ،صرف انہی کے گرد اور انکی پیروی میں نئے انقلاب کی لہر پھوٹے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved