ستمبر کا آخری عشرہ اپنے ساتھ دو عظیم شخصیتوں کی یاد بھی لاتا ہے۔
وہ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان تھے لیکن اپنے رب پر یقین کامل اور اپنے مقصدِ حیات سے لازوال وابستگی نے انہیں استقامت کا کوہِ گراں بنا دیا تھا۔
بدترین حالات میں بھی مایوسی انہیں چھو کر نہ گزری۔ حالات و واقعات سے مایوس لوگ ان کے پاس جاتے‘ ان کی محفل میں بیٹھتے اور عزمِ نو اورولولۂ تازہ لے کر اُٹھتے۔
صاحبِ تفہیم القرآن کو ''قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے پر فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی طویل نوکری کے دوران ایسا قیدی دیکھا‘ نہ سنا۔ اس نے رات دو تین بار کال کوٹھڑی کا چکر لگایا۔ سزائے موت کا قیدی سکون کے ساتھ یوں سو رہا تھا‘ جیسے کوئی مسافر طویل مسافت کے بعد منزل پر پہنچ کر تھکن اتار رہا ہو۔
اندرون و بیرون ملک احتجاج کا طوفان اٹھا تو حکومت کچھ ڈھیلی پڑی...'' مجرم رحم کی اپیل کرے تو جان بخشی پر غور ہو سکتا ہے‘‘... اس کا جواب تھا: '' زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں‘ آسمان پر ہوتے ہیں۔ جہاں تک رحم کی اپیل کا تعلق ہے‘ وہ میری جوتی کی نوک بھی نہیں کرے گی‘‘۔
اوریہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور تھا۔ بھاٹی گیٹ لاہور کے باہر جلسہ گاہ میں گولیاں چلیں‘ ایک گولی پر تقدیر نے اللہ بخش کا نام لکھا تھا۔ اس نے جلسہ گاہ میں اپنے ساتھیوں کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔ لیکن مولانا اسی طرح اسٹیج پر کھڑے تھے...''مولانا بیٹھ جائیے‘‘ بے شمار آوازیں ابھریں... ان کا جوا ب تھا : ''میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا‘‘؟
1970ء کے انتخابی نتائج ان کے نظریاتی کیمپ کے لیے سخت مایوس کن تھے۔ آغا شورش کاشمیری نے اپنے خط میں اس ناکامی کا تجزیہ کیا‘ عوام کا لانعام کی بے شعوری کا رونا رویا اور پوچھا:''آخر ہم کب تک اندھیروں میں چراغ جلاتے رہیں گے‘‘؟
مولانا کا جواب تھا: ''اندھیروں کا بڑھنا تو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسی حساب سے نئے چراغ جلانے کا اہتمام کیا جائے‘‘۔ مجروح سلطانپوری یاد آئے ؎
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تک کہ ستم کی سیاہ رات چلے
بابائے جمہوریت نے ''خلافت الٰہیہ‘‘ کی علمبردار‘ احرارِ اسلام سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ نوجوان نواب زادہ ان احراریوں میں سے نہیں تھے‘ جو قائد اعظم‘ مسلم لیگ اور اس کی تحریک پاکستان کے لیے اپنے دل میں کوئی گنجائش نہ پاتے تھے۔ ان کی زبان یا قلم سے قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے خلاف کوئی ناشائستہ جملہ نہ نکلا۔ وہ احرار کے ترجمان''آزاد‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے) قیام پاکستان کے ساتھ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ شاہ جی نے اپنے موقف پر اصرار کی بجائے مسلمانانِ برصغیر کے فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا اور عمل سیاست سے دستبردار ہو گئے۔
نوجوان نواب زادہ نے جمہوریت کا پرچم تھام لیا۔ ان کے نزدیک خلافتِ الٰہیہ کا مطلب بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ غیر جمہوری حکمرانوں کو چیلنج کرتے ہوئے‘ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے یہ الفاظ ان کے لیے رہنمائی کا باعث بنتے: ''ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا‘ تم انہیں زنجیریں پہنانے والے کون ہو‘‘؟
وہ اکثریت کے تندو تیز طوفان کے مقابل جمہوری قوتوں کے اتحاد کی دیوار اٹھا دیتے کہ مختلف الخیال جماعتوں کو عظیم تر مقصد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا فن خوب جانتے تھے‘ بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اس کمال میں کوئی اور ان کا ثانی نہیں تھا۔ بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کرنے والے اصغر خاں کو بھٹو کی بیوہ اور بیٹی کے ساتھ ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی میں جمع کر دینا ان کا ناقابل یقین کارنامہ تھا‘ جس کا اعادہ انہوں نے جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے دوران نواز شریف کی مسلم لیگ اور بے نظیر کی پیپلز پارٹی کو ایک ہی چھت تلے بٹھا کر کیا... اے آر ڈی کا قیام۔ لیکن اس حوالے سے تہمینہ دولتانہ ایک الگ کہانی سناتی ہیں۔
مختلف ادوار میں آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے انہوں نے عوام کے سیلِ بے پناہ کی قیادت بھی کی(1977ء کی پی این اے موومنٹ کے جلوس) اور یوں بھی ہوا کہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف مظاہرے کے لیے مسجد شہدا پہنچے تو چند کارکنوں (جی ہاں ڈیڑھ‘ دو درجن کارکنوں) کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ مال روڈ پر ٹریفک حسب معمول رواں دواں تھی‘ کاروبار بھی جاری تھا۔ پلازے‘ شاپنگ سنٹر اوردکانیں بھی کھلی تھیں‘ لیکن نواب زادہ صاحب کی طرف کوئی راغب نہ تھا‘ کسی نے ادھر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ نواب زادہ چند کارکنوں کے ہمراہ تھک ہار کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے۔
کسی نے عوام کی بے حسی کی بات کی تو نواب زادہ نے جھڑک دیا :''سیاسی کارکن کا کام عوام کو متحرک کرنا ہے‘ ان کی بے بسی کا رونا رونا نہیں۔‘‘ جناب نعیم صدیقی یاد آئے ؎
نفس نفس کو رہِ عاشقی میں کر کے نثار
تم اہلِ دل کا ساجینا ہمیں سکھا کے چلے
جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے وزیر اعظم نواز شریف کا خطاب سیاسی و صحافتی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ ایک دوست نے کہا‘ اس بار تمہارے کالم کا موضوع یہی ہو گا۔ عرض کیا‘ اس پر ہندوستان میں جو ہاہا کار مچی ہے‘ کیا اس کے بعد کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ لگتا ہے‘ وزیر اعظم پاکستان کا پائوں درست جگہ پر پڑا ہے۔ ابھی ٹی وی چینلز پر خبر چل رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے آنے والی خبر۔ تحریک حریت کے مقبول ترین‘ بزرگ لیڈر سید علی گیلانی‘ نوجوان میر واعظ عمر فاروق اور دختران ملت کی سربراہ محترمہ آسیہ اندرابی کہہ رہے ہیں‘ وزیر اعظم نواز شریف نے جس دلیری کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ پیش کیا‘ اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ کشمیر کے سچے دوست اور خیر خواہ ہیں۔ کشمیر کی کربلا سے آنے والے اس ردعمل کے بعد بھی کیا کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟