تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-09-2016

ہم ستاروں کو چھو سکتے ہیں

ایک بیدار اور زندہ قوم۔ بار بار یہ طالب علم عرض کرتا ہے‘ فقط فوج نہیں‘ ایک بیدار اور زندہ قوم ہی اپنے وطن کی حفاظت کر سکتی ہے۔ ستاروں کو چھو سکتی ہے۔
دانائوں کے مطابق‘ دو بنیادی اصول ہیں۔ دُشمن کو کبھی کمزور نہ سمجھا جائے‘ ثانیاً وہ جو عمر فاروق اعظمؓ نے ارشاد کیا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو‘ اس سے ڈرتے رہو۔
درویش نے پوچھا: لکھنے سے پہلے کیا تُم کوئی دعا پڑھتے ہو‘ عرض کیا: جی ہاں۔ کہا: رسول اکرمﷺ نے ایک دعا تعلیم کی تھی اور فرمایا تھا کہ کسی کام سے پہلے اگر کوئی پڑھے گا تو کبھی ناکام نہ ہو گا۔ اے اللہ‘ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا میں خواری سے اور آخرت میں عذاب سے محفوظ رکھنا۔ عرض کیا: یہ تو گویا ضمانت ہے‘ سرکارﷺ کی۔ کہا: بالکل۔کچھ دن گزرے تھے تو کہا: لاحول ولا قوۃ الا باللہ بھی پڑھا کرو۔ اے میرے رب‘ میری کوئی قوت ہے اور نہ ارادہ و اختیار۔ آدمی کے بس میں کچھ بھی نہیں۔ اسداللہ خان غالب نے جب یہ کہا تو بخدا فقط شاعری نہ تھی ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامۂ نوائے سروش ہے
غالباً اسے جنِگ تبوک کہا جاتا ہے‘ رومیوں سے پہلا معرکہ۔ پچھلے معرکوں کے برعکس‘ مسلمان تعداد میں کچھ ہی کم تھے۔ وہ زعم کا شکار ہوئے تو آزمائش میں ڈالے گئے۔ یہ الگ بات کہ بالآخر معاف کر دیئے گئے اور غالب آئے۔ 
احد میں بھی یہی ہوا تھا۔ فتح کی تکمیل سے پہلے ہی جشن منانے کی آرزو اور بعض میں مال غنیمت کی۔ اس بار بھی وہ معاف کر دیئے گئے اور آنے والے برسوں میں فتوحات کا دروازہ ان پر کھول دیا گیا۔ جنگ خندق‘ فتح مکہ‘ طائف کی فتح‘ حتیٰ کہ پورا عرب قدموں میں ڈھیر ہو گیا۔ 
جب آ گئی اللہ کی مدد اور فتح
اور تم نے لوگوں کو دیکھ لیا‘ جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہوتے
تو اپنے رب کی حمد بیان کر اور استغفار کر
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے
ہم بھٹک گئے ہیں‘ سبق ہم نے بھلا دیا ہے۔ مسلمان کا اثاثہ نفرت اور غرور نہیں‘ بلکہ خیر خواہی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت ہمارا حریف ہے‘ بالکل۔ لیکن نفرت کی ہمیں اجازت نہیں۔ بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کو‘ کھیت اور کارخانے میں کام کرتے کسان اور مزدور کو امان ہے۔ درخت کاٹا نہیں جا سکتا اور فصل جلائی نہیں جا سکتی۔ کجا کہ ایٹم بموں سے بھارتی شہروں کو اڑا دینے کی بات کی جائے۔ مسلمان سے بڑھ کر کوئی امن پسند نہیں ہوتا‘ بشرطیکہ وہ واقعی مسلمان ہو۔ نریندر مودی کا اشارہ اب یہ ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتے۔ عسکری ذرائع تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع کرنے کے لیے جواز چاہیے اور تمام کرنے کے لیے منصوبہ بندی۔ کس دلیل کے ساتھ بھارت پاکستان پر حملہ آور ہو گا۔ مسئلہ ان کا داخلی ہے‘ پچاس لاکھ کشمیریوں پہ سات لاکھ فوج انہوں نے مسلط کی اور ناکام رہے۔ انہوں نے کراچی‘ کوئٹہ اور قبائلی سرزمین کو کشمیر بنانے کی کوشش کی۔ ناکام رہے۔ سیاسی طور پر الطاف حسین نے خودکشی کر لی۔ ان کے حامی سیاسی لیڈروں نے خود کو رسوا کیا اور دانشوروں نے بھی۔ پاکستان کو تنہا کرنے کی حکمت عملی پر وہ عمل پیرا تھے‘ اب بھی رہیں گے۔ پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے پر‘ ایم کیو ایم‘ مذہبی فرقہ پرست اور طالبان ان کے ہتھیار تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب وہ اتنے موثر نہیں رہے۔ میڈیا اور فکری میدانوں میں ان کے وکیل بھی۔ انسانی حقوق والی بڑھیا کو کہنا پڑا کہ کشمیر اور بلوچستان کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ ثقافتی یلغار میں البتہ وہ کامیاب ہیں کہ خود ہم نے 
بانہیں پھیلا دیں۔ بھارتی بھانڈوں‘ ڈوموں‘ میراثیوں اور اداکارائوں کے بغیر‘ ہم جی نہیں سکتے۔ ہمارا میڈیا ان کے سحر میں ہے۔ کوئی نیوز بلٹن ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف علی الاعلان بعض بھارتی ایکٹرسوں کی تعریف کیا کرتے۔ ان میں سے ایک نے عمران خان سے کہا: جب بھی میں پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ کرتی ہوں‘ افواہ پھیل جاتی ہے کہ پاک فوج کے سربراہ سے ملنے جا رہی ہے۔ بھارتی فلموں کو نمائش کی اجازت دے کر مقامی فلم انڈسٹری کو انہوں نے تباہ کر دیا‘ اپنی حماقتوں سے جو پہلے ہی زبوں حال تھی۔ پاکستان کے سب سے بڑے اخباری پبلشر نے ایک بھارتی اداکار کو ایک لاکھ ڈالر دیئے کہ ان کی صاحبزادی کی سگائی میں شریک ہو۔ اس آدمی کو میں نے دیکھا تو حیران ہوا۔ اچھا اداکار ہو گا مگر زنخا سا۔ اداکار اور بھانڈ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اپنی شخصیت وہ کھو دیتے ہیں۔ پاکستانی ایکٹر، ایکٹرسیں اور گلوکار ممبئی کے لیے مرے جاتے ہیں، جو مسلمان دشمن مرہٹوں کا گڑھ ہے۔ دھتکارے جاتے ہیں مگر لوٹ کر وہیں جاتے ہیں۔ اس فلمی دنیا میں، پاکستان کے خلاف جو ایک مورچہ ہے۔ پرائیویٹ چینلوں پہ دہائی دی جا رہی ہے کہ ہمارے فنکاروں سے حتیٰ کہ غلام علی ایسے شخص سے بھی نازیبا سلوک ہے۔ ارے بھائی، بھکاری بن کر وہاں تم جاتے ہی کیوں ہو۔ اتنا بڑا فنکار اور اتنی تھوڑی خودداری۔
عمران خان، شوکت خانم ہسپتال میں، بھارتیوں کو مدعو کیا کرتے۔ اختلاف کیا تو اس نے کہا: آسانی سے دو اڑھائی کروڑ مجھے ہو جاتے ہیں۔ گزارش کی کہ ایک ارب روپے پاکستانی قوم اگر دے سکتی ہے تو مزید اڑھائی کروڑ بھی مل جائیں گے۔ اب تین ارب روپے سالانہ کے عطیات ملتے ہیں۔ ایک دن، جب وہ بھارت جا رہا تھا۔ عرض کیا: ''را‘‘ والے تمہارے نگران ہوں گے، آئی ایس آئی بھی۔ واپس آیا تو کہا: انہوں نے مجھے وزیر اعظم کا پروٹوکول دیا۔ بعض دوسرے سیاستدان حتیٰ کہ نرگسیت کے مارے بعض ادیب اور شاعر بھی، اسی قماش کی گفتگو کرتے ہیں۔ ارے بھائی کس لئے؟ ضیاء الحق دانا تھے، جوابی طور پر انہوں نے یہی حربہ استعمال کیا۔ بھارتی اداکار شتروگن سنہا اور دانشور خشونت سنگھ سمیت بعض نمایاں بھارتیوں کو وہ مدعو کرتے۔ سٹیفن کالج دہلی کے طلبہ نے پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تو ان سب کو سرکاری مہمان قرار دیا اور کہا کہ وہ خود ان سے ملیں گے۔ جنگ نہیں، جنرل محمد ضیاء الحق بھارت کے ساتھ امن کے خواہاں تھے۔ لیکن آئی ایس آئی کو انہوں نے دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی بنا دیا۔ جس طرح جنرل کیانی نے پاکستانی فوج کو کہ ایک ایک افسر کو میدان جنگ میں بھیجا۔ یہ کارنامہ جنرل اختر عبدالرحمن کے ہاتھوں انجام پایا‘ اگرچہ ریاست ان کی پشت پر تھی۔ ان سے پہلے والوں نے بھی حصہ ڈالا اور بعد میں آنے والوں نے بھی۔ جنرل کا سب سے بڑا کارنامہ افغان جہاد ہے۔ تیرہ لاکھ افغانوں کو قتل کرنے اور تیرہ لاکھ کو اپاہج کرنے والوں کو اس نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ دانشوروں کو چھوڑیے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور روس کی جنگ تھی۔ افغانستان میں روسیوں کو روک نہ دیا جاتا تو وہ ہمارے پڑوسی ہوتے۔ بلوچستان کا ساحل ہمیشہ سے ان کی تمنا تھی۔ خیر بخش مری، محمود اچکزئی اور اجمل خٹک سمیت ہزاروں پاکستانی اسی لیے کابل میں ان کے مہمان رہے۔ ضیاء الحق سے غلطیاں ضرور ہوئیں اور بہت بڑی مگر وہ ایک عظیم محب وطن تھے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی کہ پاکستان کی افغان پالیسی کی بنیاد بھٹو نے رکھی تھی۔
خطے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار سے بھارت ہی ہراساں نہ تھا‘ مغرب بھی خوف زدہ تھا۔ 1988ء میں صدر بش سینئر نے تمام امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اجلاس میں حکم صادر کیا: آئی ایس کے پر کاٹ دیئے جائیں۔ بعض نالائق اور بددیانت سیاستدانوں کے علاوہ، دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار دانشور بھی آئی ایس آئی اور فوج کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔
ایک بات ان کی درست ہے اور سو فیصد درست، سیاست سے فوج کا کوئی واسطہ نہ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سول ادارے تعمیر کرنا ہوں گے۔ اعلیٰ معیار کی فوج ہم بنا سکتے ہیں تو سول سروس‘ پولیس، محکمہ صحت اور تعلیمی ادارے کیوں نہیں؟ نکتہ وہی ہے۔ قانون کی مکمل خود مختاری۔ فوج طاقتور ہے، وہ خود حاصل کر لیتی ہے۔ سول سروس کی باری آئے تو ایک سے بڑھ کر ایک جی حضوری‘ نالائق اور کرپٹ مسلط کر دیا جاتا ہے۔ 
پاکستان کی اساسی اور نظریاتی بنیادوں کو مسخ کرنے والوں کو سر آنکھوں پر ہم کیوں بٹھاتے ہیں۔ حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کی بجائے، ان کے دستر خوانوں کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟ حکمران ہی کرپٹ نہیں، پورے کے پورے معاشرے نے بدعنوانوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا یا شریک ہو گئے۔
ہرطرح کے وسائل سے یہ وطن مالا مال ہے۔ افرادی صلاحیت بے پناہ ہے، مٹی زرخیز ہے اور اس کے نیچے سونے کے انبار۔ باہر نہیں، دشمن ہمارے اندر ہے، ہم خود اپنے دشمن ہیں۔
سات سو برس تک جس ہندوستان پر ہم نے حکومت کی، اس سے خوف زدہ کیوں ہوں گے؟ تین سو برس پہلے اور آج کے مسلمانوں میں البتہ کیا فرق ہے؟ اقبال نے کہا تھا ؎
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
ایک بیدار اور زندہ قوم۔ بار بار یہ طالب علم عرض کرتا ہے‘ فقط فوج نہیں‘ ایک بیدار اور زندہ قوم ہی اپنے وطن کی حفاظت کر سکتی ہے۔ ستاروں کو چھو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved