تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     26-09-2016

ادھورا مقدمہ

وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کا مقدمہ ادھورا کیوں چھوڑا؟ شہرِ اقتدار کے کچھ حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی لکھی ہوئی تقریر سے کچھ حصے حذف یا نظر انداز کیے گئے۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ تین سال سے وزیرِ خارجہ کی ٹوپی سر پر رکھے سربراہِ حکومت کو کوئی یہ تک نہ بتائے کہ اس کے ملک کے خلاف بھارت سرکار کا بیانیہ کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت پوری منصوبہ بندی سے ہر عالمی اور علاقائی فورم پر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ مودی سرکار کا استغاثہ تین نکات کے گرد گھومتا رہا ہے۔
پہلا نکتہ: یہ کہ پاکستان دہشتگردی کی نرسری ہے۔ دوسرا نکتہ: یہ کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں۔ اور تیسرا نکتہ: یہ کہ ان دو وجوہ کی بنا پر ریاستِ پاکستان کو دہشتگرد قرار دے کر جنوبی کوریا اور شام کی طرح پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔
یہی پروپیگنڈا ہمیشہ سے بھارتی وزیر اعظم کی تقریروں کا مرکزی نکتہ رہا ہے‘ اور اس کی کابینہ کے وزرا کی ڈیوٹی نمبر ایک بھی۔ بھارت کے اندر کوئی اخبار، کوئی ٹی وی سینٹر ایسا نہیں جو اس مؤقف سے ایک انچ بھی روگردانی کر سکے۔ بھارتی رائے عامہ کے اس ظاہری اتفاقِ رائے سے بین الاقوامی برادری کو ایک مضبوط پیغام جاتا ہے۔ وہ یہ کہ ڈیڑھ دو سو کروڑ لوگوں کا ملک اس صورتحال سے تنگ ہے اسی لیے بیک آواز بھی۔
دوسری جانب اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ بھارتی مؤقف خوفناک حد تک جھوٹا، بے بنیاد اور زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ بھارت نے سارے قومی، حکومتی اور ریاستی وسائل اِن خیالی جرائم کو سچا ثابت کرنے پر جھونک رکھے ہیں۔ بھارت کا خیال ہے کہ دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں کی خاموشی ان کے جھوٹ کو سچ میں تبدیل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔
اصل سوال یہ ہے، بھارت کے وزیر اعظم کے اس بیانیے کے مقابلے میں پاکستان کے وزیر اعظم کی کارکردگی کیا ہے؟ اس تناظر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس تازہ ''واٹر لُو‘‘ تھا۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو کئی سو کے ہال میں دو ڈیڑھ درجن سے زیادہ سامعین موجود نہیں تھے۔ امریکی صدر اوباما نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرکے کہا: کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان دو فریقی(Bilateral) مسئلہ ہے‘ حالانکہ جس ادارے میں بارک اوباما نے الوداعی بھاشن دیا‘ اسی کی قراردادیں اسے عالمی تنازعہ تسلیم کرتی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر میں بھارت کے ان جرائم میں مودی کے اعترافی بیانوں کا ذکر نہیں تھا‘ جو ٹی وی ویڈیوز میں پہلے سے محفوظ ہیں۔ مثلاً بھارت کی جانب سے بلوچستان میں مداخلت کا اعلان۔ بلوچستان سے بھارت کے حاضر نوکری کمانڈر جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کا اعتراف۔ ایل او سی یا سیزفائر لائن کو تسلیم نہ کرنے کا اعتراف۔ گلگت بلتستان میں نان سٹیٹ ایکٹرز سے روابط کا اعتراف۔ اور افغانستان میں ان لوگوں سے تعلق کا برملا اعلان جو بھارتی سرمائے کے زور پر پاکستان میں عدم استحکام کے ذمہ دار ہیں۔ اس کا جواب وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے ہی پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ ادھورا کیوں چھوڑ دیا؟قانون کی دنیا میں کہتے ہیں کوئی دعویٰ بغیر دلیل سچا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے وزیر اعظم نے دیوار پر لکھے ہوئے دلائل دل میں بسا کر رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کیوں کا ایک جواب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اعلامیہ دیتا ہے‘ جو سینیٹر جان کیری اور وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات کے بعد جاری ہوا اور جس میں امریکہ بہادر‘ بذریعہ سینیٹر جان کیری‘ نے ہمارے وزیر اعظم کو ہدایت نامہ جاری فرمایا۔ اس ملاقات کو شاعر کی زبان میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے: ؎
جو ہو نہ سکی بات، وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا، ملاقات کہاں تھی
پہلی ہدایت تھی، کہ افغان مہاجرین کی خدمت جاری رکھو اور اس خدمت کو 36 سال بعد مزید طول دینے کے لیے (Do-More) کا حکم نامہ۔ دوسری ہدایت میں ہونٹ جان کیری کے تھے اور لفظ نریندر مودی کے۔ جان کیری نے کہا: پاکستان کی سرزمین کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ آپ ضمانت دیں کہ آپ کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں گڑبڑ نہیں ہو گی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلامیہ میں سِرے سے کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ ایک ایسا ملک‘ جس کی حکومت کا سربراہ اور ہر ادارہ دن رات پاکستان کو دہشتگرد قرار دلوانے کی مہم پر نکلا ہوا ہے‘ اس ملک کو ہمارے وزیر اعظم کی زبان جواباً دہشتگرد نہ کہہ سکی۔ نہ یو این جنرل اسمبلی کے روسٹرم پر کھڑے ہو کر اور نہ ہی امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کے سامنے بیٹھ کر۔
وزیر اعظم نواز شریف کے تازہ دورہئِ نیویارک کی سب سے اہم بات وہ ہے‘ جس طرف یار لوگوں نے سب سے کم توجہ دی۔ وزیر اعظم اور وزارتِ خارجہ کو اس کی کھل کر وضاحت کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں یہ کیوں کہا کہ کشمیر کو (Demilitarized Zone) غیر فوجی علاقہ بنا دیا جائے۔ وزیر اعظم نے اس پر مزید طرح یوں لگائی، ہم اس کی حمایت کریں گے۔ یہ وزیر اعظم کی اس تقریر میں کہا گیا‘ جس میں بھارتی فوج کے جنگی جرائم (War Crimes) کا تذکرہ تک نہ تھا۔
گزشتہ روز بعض سرکاری شخصیات کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر نشر ہونے والے دو پیغا مات قابلِ توجہ ہیں: پہلا یوں تھا ''جنگ طاقت کی علامت ہے۔ حقیقت میں یہ عوام کے خلاف سازش ہوتی ہے جو جنگ میں شمولیت اختیار نہیں کرتے۔ جنگی جنونی لوگوں کو چراگاہ کی طرف دھکیل دینا چاہیے‘‘۔ یہ ٹویٹ وزیر اعظم ہاؤس کے اندر سے جاری ہوا۔ دوسرا ٹویٹ کابینہ کے ایک جونیئر رکن نے پھینکا۔ اس دلیرانہ ٹویٹ میں مودی کے سر کی قیمت دو کروڑ روپے لگائی گئی۔ میں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر یہ حسرت ظاہر کی کہ کاش سرکاری لیگ کا خون تب جوش مارتا جب دو کروڑ روپے سکہ رائج الوقت قیمت رکھنے والا سر لے کر نریندر مودی جاتی امرا کے اندر بیٹھا تھا۔
ہاں، ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جائے۔ تاریخ بتاتی ہے جنگ ہمیشہ عوام لڑتے ہیں۔ عوام کے بچے سیاہ چن گلیشئر پر جاگتے ہیں، پارک لین لندن کے محل میں نہیں۔ اور پوری دنیا میں آج تک کسی فوج نے بھی عوام کی شرکت کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی۔ جنرل راحیل شریف نے درست کہا: عوام کی مدد سے پاکستان کی سپاہ مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کا تخفظ کرے گی۔ حیف ہے ان ناعاقبت اندیشوں پر جو جنگ کو ویڈیو گیم سمجھتے ہیں۔ ایسی گیم جو ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر کوئی اکیلا شخص کھیلتا ہے۔
آج کا وکالت نامہ دوبارہ پڑھیے۔ پاکستان کا مقدمہ ادھورا چھوڑنے کی وجہ آپ کو آسانی سے انہی سطروں میں مل جائے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved