ناصر علی سرہندی کا یہ مصرع لاشعوری طورپر گزشتہ ایک دن سے ذہن میں گردش کررہاتھا ،سوچا اُن کے پورے اشعار تلاش کرکے پڑھے جائیں ،اُن کی طویل فارسی نظم کے چند اشعارکسی ترتیب کے بغیرمیں نے آپ کے لیے منتخب کیے ہیں :
زِ اِختلاف ایںو آں،سر رشتہ را گم کردہ اَم
شُدپریشان خواب مَن ،اَز کثرتِ تعبیر ہا
گوہر چوں خود شناسی، نیست دَر بحر وجود
ما بہ ِگردِ خویش می گردیم چوں گردابہا
لفظ گر دارد تفاوت، صورت و معنی یکیست
اختلاف کفر و دیں، آئینہ دارِ وحدت است
اہل ہمت را نباشد، تکیہ بر بازوئے کس
خیمہ ٔ افلاک ،بے چوب و طناب استادہ است
عزت اَرباب معنی، نیست اَز نام ِپدر
بے نیاز اَز بحر گردد قطرہ، چون گوہر شود
ترجمہ:'' ایں وآں(یہ اور وہ) کے اختلاف میں پڑکر میں نے اپنے کلام کا مقصود ہی گم کردیا ،سو کثرتِ تعبیر کے سبب میرا خواب ہی بکھر گیا ۔ اس کائنات کے سمندر میںخودشناسی یا خود آگاہی سے بڑھ کر کوئی قیمتی موتی نہیں ہے ،میں سمندر میں اُبھرنے والے گرداب کی طرح اپنی ذات کے گرد ہی گھومتارہتاہوں ۔لفظوں میں اگرچہ فرق ہوتاہے ،صورت ومعنیٰ تو ایک ہی ہے ،کفر اور دین کا اختلاف بھی وحدت کا آئینہ دار ہے (کیونکہ عربی کا مقولہ ہے: چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ،یعنی شرک کی حقیقت سمجھے بغیر توحید کی معنویت کاپوری طرح ادراک نہیں کیا جاسکتا)۔ اہلِ عزیمت واستقامت کو دوسروں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے (یعنی خود اعتمادی اور خود انحصاری بھی انسان کا کمال ہے )،(تم دیکھتے ہوکہ) اَفلاک کا خیمہ کسی ستون اور اُس سے بندھی جانے والی رسی (طنّاب)کے سہارے کے بغیر کھڑا ہے ۔اہلِ کمال کی عزت نسبی تفاخُر پر نہیں ہوتی (بلکہ ذاتی خوبیوں کی بناپر ہوتی ہے)، قطرہ جب سمند رسے بے نیاز ہوجاتاہے اور اپنی خوبی پر انحصار کرتاہے، تو قیمتی موتی بن جاتاہے ‘‘۔
ہم بھی بحیثیتِ قوم ذہنی انتشار (Confusion)کا شکار ایک ہجوم (Mob)کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں ،جس کی کوئی سَمت واضح نہیں ہے ۔ہمارا میڈیا اِس فکری انتشار میں روز بروز اضافہ کیے چلاجارہاہے ۔ایک ایسے وقت میں جب وطنِ عزیز حالتِ جنگ میں ہے اور ہمارا اَزَلی دشمن بھارت ہمارے وطن کا محاصرہ کرنے کی ہرممکن تدبیر کررہاہے ،ہمارے میڈیا کی تدبیر صرف اور صرف ریٹنگ ہے ۔نتائج وعواقب سے بے پرواہ ہوکر اندھا دھند ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تَگ ودو جاری ہے ، ایسے میں فکر کی راستی (Righteousness)کی توقع عبث ہے۔حال ہی میں جنابِ سلیم صافی نے بحیثیتِ ایک طبقہ خوداحتسابی کی روایت قائم کرتے ہوئے ''میڈیاکے جرائم‘‘ کے عنوان سے ایک چشم کُشا آرٹیکل لکھاہے ،لیکن ایسی تمام مثبت اور مُصلحانہ کاوشیں دیوار سے ٹکر مارنے کے مُترادف ہیں ، کیونکہ جنہیں خطاب کیاجارہاہے ،وہ اپنے حال میں مگن ہیں ،وہ ہرتنقید سے بالاتر ہیں ،دانش وفراست کے سارے سرچشمے اُنہی کی ذات سے پھُوٹتے (Gush Out)ہیں اور اُنہی کی ذات پر جاکر ختم ہوجاتے ہیں ،ایسے میں اِخلاص پر مبنی یہ کاوشیں صرف اَجرِ آخرت پانے ہی کا ذریعہ بن سکتی ہیں ،ہمارے اس ماحول میں اُن کا نتیجہ خیزہونا مشکل ہے ۔
جنابِ محمد نواز شریف سے ہم نفرت کریں یا محبت ، اُن کی صورت ہمیں پسند ہو یا ناپسند ،کسی کی نظر میںاُن کی ادائیں دِلرُبا ہوں یا انتہائی کریہہُ المنظَر، بہرحال لمحۂ موجود میں وہ ہمارے وزیرِ اعظم ہیںاور بیرونی دنیا میںوہی پاکستان کے ترجمان ہیں اور جو کچھ وہ بولیں گے ، وہی ہمارا ریاستی اورحکومتی موقف سمجھاجائے گا۔ اُنہوں نے اقوامِ مُتحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کیا ، اِس کا وقت ساڑھے سترہ منٹ بتایاجاتاہے اور اِس مختصر وقت میں چند موضوعات ہی کو سمیٹا جاسکتاہے ، ملک وقوم کے مفاد سے متعلق سارے موضوعات کا احاطہ ممکن نہیں ہے ۔ خواہ کوئی کتناہی فصیح البیان اور قادرالکلام ہو ،ایسے مواقع کی تنگ دامانی کی تصویر کشی ایک فارسی شاعر نے اِس شعر میں کی ہے :
درمیانِ قعرِ دریا ، تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن تر مکُن ،ہشیار باش
ترجمہ:'' دریاکے وسط میں مجھے تختے پر بٹھادیاہے اور پھر یہ مطالبہ کررہے ہو کہ ہوشیار ، خبرداردامن پر کوئی چھینٹ نہ آئے‘‘، کیاایساممکن ہے ۔سو وہ تقریر کوئی بھی دانائے روزگار لکھتا ،اُس سے بڑا دوسرا دانا اُسے نامکمل او رناتمام ہی قرار دیتا ۔بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ حالیہ تناؤ اوراُڑی سیکٹرمیں ہندوستانی فوجی کیمپ پرحملے کے تناظر میں کشمیر ہی بنیادی موضوع ہونا چاہیے تھا اور اُنہوںنے اُسے عالمی برادری کے سامنے موضوعِ سُخن بنایا ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موضوعات تو بہت ہیں ، بلوچستان اور پاکستان کے دیگر مقامات پر ہندوستانی ایجنسیوں کی سبوتاژ کی کارروائیاں ،افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ،امریکا کی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف حصار باندھ کر سفارتی تنہائی سے دوچار کرنا ،اِن میں سے ہر مسئلے پر گھنٹوں بات ہوسکتی ہے ۔پس ہمیں اس موقع پر یہ بحث نہیں کرنی چاہیے کہ کون کون سا موضوع رہ گیا ، اس زاویے سے دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ کہاگیاہے ،وہ موقع کی مناسبت سے درست ہے یا نہیں ، اگر جواب اثبات میں ہے ،تو اسے غنیمت جانیے !
ایک چینل پر وزیرِ اعظم کی تقریر پر ممتحنین ،جو بلاشبہ ماہر تجزیہ کار اور دانائے روزگار ہیں ،وزیرِ اعظم کی تقریر کی مارکنگ کرنے بیٹھ گئے ، کسی نے زیرو مارکس دیئے ، کسی نے چالیس فیصد پر بمشکل پاس کیا اور ایک سخی داتانے ساٹھ نمبر دے دیئے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ زیرِ بحث موضوع کے پہلوؤں کو اور حالات کی سنگینی کو قوم کے سامنے پیش کیاجاتا اور قوم کو یہ باور کرایاجاتا کہ اِس وقت پاکستان سے ہندوستان کو صرف ایک پیغام جاناچاہیے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے مسئلے اور پاکستان کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں پر بحیثیتِ قوم یکسو ہیں ، یک جان ہیں اور یک آواز ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے نازک موقع پر وزیرِ اعظم کو پارلیمنٹ اور پوری قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے اور کل جماعتی کانفرنس بلانی چاہیے ، جو محض پہلے سے تیار کردہ ایک قرارداد کی توثیق کے لیے نہ ہو بلکہ تفصیلی بحث کرکے اجماعی موقف طے کرنا چاہیے کہ ہم ہندوستان کی سازشوں کوکس طرح سے Confront کریںاور اُن کا توڑ نکالنے کی تدبیر کریں ۔
میں نے امریکا اور برطانیہ میں اپنے چند دوستوں سے پوچھاکہ اِن دنوں پاک وہند میں جو شدید تناؤ ہے ، جنگ کی سی کیفیت ہے اور ایسالگتاہے کہ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتاہے ،کیا وہاں کا میڈیا اس صورتِ حال کو کوئی اہمیت دے رہاہے ،اِس کی سنگینی کا اُسے اِدراک ہے ،تومجھے بتایاگیا کہ اِس سطح پر بالکل نہیں ہے ،اِس حوالے سے ٹیلی وژن چینلز بی بی سی ،سی این این اور فوکس نیوز پر کوئی ہیڈلائنز نہیں چلتیں،بعض اوقات بین السطورمیں کوئی بات آجاتی ہے ،واللہ اعلم بالصواب ۔اگرایساہے ،تو اُس کا سبب کیاہے یا وہ اِسے سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہے ہیں ۔برطانیہ کے دوست نے بتایا کہ یورپین یونین سے برطانیہ کے خروج (Brexit)کے مابعد کے حوالے سے وہاں منصوبہ بندی جاری ہے ،کیونکہ یورپین یونین کی فری مارکیٹ برطانیہ کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور اُسے مختلف یورپی ممالک کے ساتھ دوطرفہ (Bilateral)معاہدے کرنے پڑیں گے اور اُن کے پاس سب سے بڑا مُتبادل سواارب آبادی پر مشتمل انڈیا ہے ، لہٰذا وہ انڈیا سے دست برداری کا تو خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے اور نہ ہی پاکستان کو اُس پر ترجیح دے سکتے ہیں ۔
پس اِن حالات میں پاکستان کی معاشی بقا واستحکام کا بہترین مُتبادل چائنا پاک اقتصادی شاہراہ (CPEC)ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اِس کی تکمیل کی صورت میں پاکستان کے لیے امکانات (Opportunities)کی ایک وسیع دنیا ہے اور اِس کا اصل منصوبہ ساز اور اِس کی رگوں میں سرمائے کے خون کی گردش کا اہتمام کرنے والا چین ہے اور مستقبلِ قریب یا بعید میں امریکا کو چیلنج کرنے والی اگرکوئی امکانی سپر پاور وجودمیں آسکتی ہے ،تو وہ بھی چین ہی ہے ۔روس بھی اپنے صدر ولادیمیرپیوٹن کی سربراہی میں انگڑائیاں لے رہاہے ، اُسے بھی ماضی میں طویل عرصے تک اپنا تزویراتی شراکت دار اورروسی اسلحے کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار ہونے کے باوجود امریکا اور مغرب کی سرپرستی میں جانے کے حوالے سے انڈیا کے تحویلِ قبلہ کا بخوبی اِدراک ہوچکاہے ۔ پاکستان کی مُسلح افواج کے ساتھ روس کی فوجی مشقیں دراصل انڈیاہی کو مُتنبہ کرنے کے لیے ہیں ۔ کیونکہ انڈیا اگرچہ جاپان ، فرانس ، برطانیہ ، جرمنی اور امریکا سے بڑے پیمانے پر اسلحے کے سودے کررہاہے ، لیکن اُس کی مُسلح افواج کودفاعی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مغرب کی طرف منتقلی کے اِس دورانیے میں مشکلات سے گزرنا پڑے گا ۔جبکہ اس کے برعکس پاکستان کے جدید ترین جنگی طیارے جے ایف 17تھنڈر کا انجن اور دیگر کئی پُرزے رَشین ٹیکنالوجی سے مستفاد ہیں اور کافی عرصے سے پاکستان یوکرائن وغیرہ سے جنگی ٹینک خرید رہاہے ، کیونکہ ایک عرصے سے امریکا پاکستان کا قابلِ اعتماد حلیف نہیں رہا۔
ماضی میں پیشگی قیمت اداکرنے کے باوجودپریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کو چالیس F.16 جیٹ فائٹرطیاروں کی فراہمی روک دی گئی تھی ۔ا ب جنوری2016ء کو امریکی کانگریس کے اراکین Ted Poeاور Dan Rohrabacher کی پیش کردہ ایک ترمیم کے ذریعے پاکستان کو تھرڈ جنریشن کے آٹھ F.16جیٹ فائٹرطیاروں کی فراہمی روک دی گئی ہے ، کیونکہ اُن کی قیمت میں ایک مُعتدبِہ حصہ پاکستان کے لیے امریکا کی دفاعی امداد کاحصہ تھا ۔ اِس کے برعکس نائن الیون کے حوالے سے امریکی شہریوں کو معاوضہ طلب کرنے کے لیے سعودی عرب پرامریکی عدالتوں میں مُقدمات دائر کرنے کی بابت امریکی کانگریس نے جو بل پاس کیاتھا ، اُسے صدرِ امریکا باراک حسین اوباما نے 23ستمبر کو ویٹو کردیاہے ، جبکہ آج تک پاکستان کے خلاف امریکی کانگریس سے پاس کیے جانے والے کسی بھی بل کو اُس وقت کے صدرنے ویٹو نہیں کیا۔