پاک چین اقتصادی راہداری کا بٹن کیا دبا، لگتا ہے کسی نے کشیدگی کا سوئچ آن کر دیا ہو۔ بھارت عجیب مخمصے میں دکھائی دے رہا ہے۔ راہداری منصوبوں کے آغاز سے پریشان ہوکر اُس نے پہلے مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب کیے تاکہ کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان پر الزام عائد کیا جا سکے۔ جب مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت پاکستان کی طرف انگلی اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئی تو اُڑی سیکٹر میں فوجی کیمپ پر حملہ کروا کے اٹھارہ فوجی مروائے گئے تاکہ پاکستان پر الزام عائد کرکے اُسے عالمی برادری میں گھسیٹا جا سکے۔ یہ میاں صاحب کے لیے بھی آزمائش کی گھڑی تھی۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال تھی اور دوسری طرف بھارتی قیادت جس کے بارے میں وہ کوئی بھی ایسی ویسی بات کہنے سے اجتناب برتتے آئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی ابتر صورتِ حال کو بہانہ بنا کر بھارت نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا۔ یورپی ممالک نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ امریکا، جو ایسے مواقع سے مستفید ہونے کے لیے تیار ہی رہتا ہے، فوراً متوجہ ہو گیا۔ بھارت نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی قوت کا رونا رو کر امریکی قیادت کو دوستی اور اشتراکِ عمل کے وسیع البنیاد معاہدے کے لیے آمادہ کر لیا۔ نئی دہلی کے بزرجمہر سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے امریکی قیادت کو شیشے میں اتار لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی قیادت تو خود اِس خطے میں مزید کچھ مدت تک قدم جمائے رکھنے کا جواز چاہتی تھی۔
امریکا جوہری ٹیکنالوجی‘ خالص غیر عسکری مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کی مہارت کے حصول میں بھارت کا ہاتھ بٹانے کا معاہدہ کرکے جال تو پہلے ہی پھینک چکا تھا۔ جب بھارتی قیادت نے پاکستان میں چین اور روس کے متحرّک ہونے کا واویلا کرکے اپنا کیس پیش کیا تو کیپٹل ہِل کے سبھی بڑے بھارت کے لیے ''ہمدردی‘‘ کے جذبے سے سرشار ہو گئے!
بھارت اور امریکا کے درمیان اشتراکِ عمل کا وسیع البنیاد معاہدہ طے پایا تو ہمارے ہاں کچھ ''اہلِ نظر‘‘ پریشان ہو اٹھے کہ پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ نہ جائیں۔ ایک حد تک پریشان ہونا کچھ غلط بھی نہیں۔ مگر یہ موقع پیٹ میں مروڑ کے اٹھنے سے زیادہ خوش ہونے کا ہے۔ بھارت نے امریکا سے دوستی کا معاہدہ کیا ہے... اور ہم خوش ہوں! یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ اِس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارا دیرینہ ''رفیق‘‘ اب بھارت کا بھی ''دوست‘‘ ہو گیا ہے! غالبؔ نے شاید امریکا ہی کے لیے کہا تھا ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
امریکا نے بھارت سے جس سطح پر دوستی کی ہے اُس سطح کا ربط اب مغرب میں ''پارٹنرشپ‘‘ کہلاتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ مغرب میں شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے ''پارٹنرز‘‘ کہلاتے ہیں! امریکا سے معاہدہ ہو جانے پر جنگی جُنون بھی ذہنوں پر سوار ہو گیا اور بھارتی فوج نے توپیں لائن آف کنٹرول کی طرف کِھسکانا شروع کر دیا۔ بھارتی میڈیا نے بھی عوام کو جنگی جُنون کی طرف دھکیلنے میں خاطر خواہ دلچسپی لی۔ بھارت میں پاکستان کو ہر وقت دشمن ہی کی نظر سے دیکھنے کا عمومی رجحان کوئی نئی بات نہیں۔ اور ذرا سی گنجائش پیدا ہونے پر یہ رجحان سارے بندھن توڑ کر برہنہ رقص پر تُل جاتا ہے۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک انتہا پسند لیڈر نے موقع غنیمت جان کر ''کون بنے گا کروڑ پتی؟‘‘ کھیلنے کی کوشش شروع کر دی۔ مودی سرکار کے حلیف راشٹریہ کرانتی دل کے رہنما نے ایک نہایت بے ہودہ اعلان کر دیا۔
خیر گزری کہ جنرل ضیاء الحق نہ ہوئے ورنہ اِس بیان کے بعد پہلی فلائٹ سے نئی دہلی پہنچ کر کہتے‘ لو کاٹ کے دکھاؤ سَر! ویسے نہلا پہ دہلا مارنے میں تو ''کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘‘ فیم جنرل (ر) پرویز مشرف بھی کسی سے کم نہیں۔ اگر اِس مرحلے پر وہ اقتدار میں ہوتے تو شاید وہی کرتے جو ضیاء الحق کرتے!
یہ پورا کھیل پاکستان کو ڈرانے اور اُسے مزید کمزوری کی طرف دھکیلنے کا ہے مگر نئی دہلی کے ''چانکیہ بھگت‘‘ نہیں جانتے کہ خود بھارت بھی داؤ پر لگ رہا ہے۔ چین کو بھارت اور دیگر علاقائی قوتوں کا بہتر ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے مضبوط تر ہونا ہے۔ راہداری منصوبہ اُس کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کا خود بخود بھلا ہوتا جائے گا۔ اس خطے میں چین کے اثرات کا بڑھنا امریکا اور یورپ دونوں کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ اور ایسا ہی ہے۔
روس بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ زمینی حقائق سے نظریں چرا کر ڈھنگ سے جیا نہیں جا سکتا۔ بھارت کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ روس اور چین دونوں ہی پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں‘ اور ترکی تو پہلے ہی پاکستان کی ''مٹھی‘‘ میں ہے! یعنی یک نہ شُد، تین شُد!
پانچ عشروں تک بھارت نے روس سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور امریکا و یورپ سے بھی مال بٹورا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جب روس سے کچھ زیادہ فوائد حاصل ہونے کا امکان نہ رہا تو بھارت پلک جھپکتے میں امریکا اور یورپ کی طرف جھک گیا۔ روس کو جس بُرے وقت میں بھارت کا ساتھ درکار تھا تب وہ معمولی درجے کی یعنی عمومی سی دوستی نبھانے میں دلچسپی لیتا دکھائی نہ دیا۔ یہ سب کچھ دیکھنے اور سہنے کے بعد روس پہلے چین کی طرف جھکا اور اب پاکستان کو گلے لگانے کی راہ پر گامزن ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے حالات کی خرابی کے بعد بھارت میں جنگی جُنون کا ابھرنا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا دائرہ وسیع ہو جانے پر یہ خدشہ تھا کہ کہیں روس مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے اپنا پاکستان بھیجنے کا فیصلہ موخر یا منسوخ نہ کر دے۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ تزئینِ نو کے مرحلے سے گزرتی ہوئی پاک روس دوستی اِس ''اگنی پریکشا‘‘ میں بھی کامیاب رہی ہے۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب کے بعد بھارت میں اٹھنے والی غیر معمولی پاکستان مخالف لہر کے باوجود روس نے آرمی کا 70 رکنی دستہ دو ہفتے جاری رہنے والی مشترکہ مشقوں کے لیے بھیج دیا ہے۔ روس کا یہ اقدام خوش آئند تو ہے مگر ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے لیے ٹیسٹ کیس بھی ہے۔ اب پاکستان کو بھی ایسے ہی کسی مرحلے میں روس یا کسی اور حلیف کے لیے ثابت قدم رہ کر دکھانا ہے۔
پاکستان میں روسی فوجیوں کی آمد پر بھارت میں، توقع کے مطابق، صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ کانگریس نے مودی سرکار اور میڈیا کو ساتھ ساتھ لتاڑا ہے۔ مودی سرکار کو یوں کہ وہ روسی قیادت کو فوجی بھیجنے گریز کرنے پر آمادہ نہ کر سکی اور میڈیا کو اس لیے کہ بھارتی چینلز پر کئی بار یہ ڈھول پیٹا گیا کہ روسی قیادت نے فوجی دستہ پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے!
بنیادی طور پر چین اور کسی حد تک روس کو contain کرنے کے لیے امریکا نے بھارت کو مہرہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب بساط مقامی ہے تو مہرہ بھی مقامی ہی ہونا چاہیے! آج کی تکنیکی زبان میں کہیے تو امریکا نے اپنا ایک بڑا پروجیکٹ outsource کر دیا ہے!
نئی دہلی کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے چانکیہ کے پرستار کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ اِس دنیا میں فری لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی؟ اور کوئی بڑی طاقت تو کسی جواز کے بغیر کسی کو اپنا فُضلہ بھی نہیں دیتی! امریکا اگر چین، روس اور پاکستان کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے تو کیا بھارت کو کنٹرول کرنا نہ چاہے گا؟ یہ بہت حد تک تحریکِ انصاف والا کیس ہے۔ پاکستان کا ایک ابھرتا ہوا، پُرعزم سیاسی پلیٹ فارم ایک بڑی سیاسی جماعت کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں ضائع ہو گیا! (یا ٹھکانے لگا دیا گیا۔) بھارت کو بھی آرڈر دیا گیا ہے کہ خطے میں ''ڈِس آرڈر‘‘ پیدا کرو! اگر راہداری منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تو جواباً بھارت میں بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہے گا‘ مگر نئی دہلی کے سیانے فی الحال کچھ سمجھنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے۔ ساون کے اندھوں کو ہرا ہی ہرا سُوجھ رہا ہے۔
امریکا کیوں چاہے گا کہ کل کو بھارت بھی اِتنا مضبوط ہو کہ اُسے بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں آ جائے؟ وہ ایک تیر میں دو، تین یا اِس سے بھی زائد نشانے لگانا چاہتا ہے۔ ڈپلومیسی اور پالیسی میکنگ کا پورا فن یہی ہے!