تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-09-2016

پھر بے چارے سکھ

سکھ سپاہیوں کی اکثریت پر مشتمل 10 ڈوگرہ بٹالین کو ہی اُڑی پر '' مجاہدین‘‘ کے حملے میں کیوں ہلاک کرایا گیا؟ اس حملے سے بھارت کی خفیہ ایجنسیاں تین مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں؟۔ اور اس حملے کو اس تناظر میں امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے دو اقدام کو دیکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ پہلاامریکی کانگریس میں پیش کیا جانے والا پاکستان کو دہشت گردی میں معاون ریاست قرار دینے کا بل اور دوسرا امریکہ، بھارت اور افغانستان کی پاکستان کو تنہا کرتے ہوئے کابل میں سہ فریقی کانفرنس۔۔۔اور یہ دونوںاقدام ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں ادھرکانگریس میں پاکستان کے خلاف بل پیش ہوا ادھر بھارت نے مزید آگ بھڑکانے کیلئے اپنے ہی بیس فوجیوں کی بلی دے ڈالی۔ان کے علا وہ مودی ٹولہ بے خبر نہیں تھا کہ پاکستان سے جب بھی کسی وقت کنونشنل جنگ چھیڑی گئی تو پاکستان کی میلوں لمبی سرحد سے متصل مشرقی پنجاب کی سکھ آبادی کی بہت بڑی اکثریت خالصتان کی صورت میں اپنا الگ وطن حاصل کرنے کیلئے پاکستان کا ساتھ دے سکتی ہے ۔ انڈین آرمی کی نیوی اور فضائیہ میں شامل سکھ افسر اور ٹیکنیشن گولڈن ٹمپل پر6 جون 1984 ء کے شرمناک حملہ اور دربار صاحب کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سینکڑوں سکھ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے قتل عام اور جلائے جانے والے درجنوں گردواروں کا بدلہ لینے اور علیحدہ وطن حاصل کرنے کیلئے پاکستان کا ساتھ دے سکتے ہیں!! بھارت ہر بار اپنے ڈرامے میں سکرپٹ کی ایسی غلطی کر جاتا ہے جس سے اس کی 
شیطانیت ننگی ہو جاتی ہے جیسے وزیر اعظم ہائوس نئی دہلی سمیت بھارت کی وزارت داخلہ ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں دے پا رہی کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ 17 ستمبر کو طے شدہ دورے پر روس روانہ ہونے والے تھے لیکن بغیر کوئی وجہ بتائے ان کا روس کا یہ دورہ اڑی میں بھارتی فوج کی ڈوگرہ بٹالین کی پوسٹ پر حملے سے ایک دن قبل ہی کیوں اور کس لیے منسوخ کر دیا گیا؟۔ جبکہ روسی حکام کا کہنا ہے کہ راج ناتھ کا یہ دورہ صرف بھارت کی طرف سے منسوخ ہواہے ۔۔۔اب پاکستان نہیں بلکہ انڈین میڈیا بھی پوچھ رہا ہے کہ اڑی حملے سے ایک دن پہلے راج ناتھ کے اس دورے کی منسوخی کچھ شکوک پیدا کر رہی ہے ؟۔ سب سے پہلے تو یہ مد نظر رکھئے کہ اڑی کے جس مقام پر یہ مبینہ حملہ ہوا ہے وہ بھارتی فوج کے 12ویں بریگیڈ کا ہیڈ کوارٹر نہیں بلکہ 10 ڈوگرہ بٹالین کی پوسٹ تھی جس میں سکھ فوجیوں کی غالب اکثریت تھی جو چکوٹھی سے کوئی پچیس کلومیٹر دور دریائے جہلم کے دوسری جانب لائن آف کنٹرول سے ملنے والی سرحد کے قریب واقع ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف آزادی کی سب سے بڑی تحریک نے دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کر رکھا ہے اور اقوام عالم کے کونے کونے سے ہیومن رائٹس کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں پیلٹ گنوں سے کشمیری بچوں اور عورتوں پر قابض بھارتی فوج کے بد ترین اور انسانیت سوز ظلم و ستم پر احتجاج کر رہی ہیں اور ہر کشمیری اپنے بچوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کو عمر بھر کیلئے اندھا کرنے والوں کے خلاف انتقام کی آگ میں بھڑک رہا ہو توپھر کیسے ممکن ہے کہ ایسے میں اس تحریک کو بدنام کرنے، نیویارک میں جمع ہوئی عالمی قیا دت کو گمراہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کو ہوا دینے کیلئے بھارتی فوج '' چٹی سنگھ پورہ‘‘ نمبر 2 نہ کرے ؟۔ بھارت یہ واویلا کئے جا رہا تھا کہ لائن آف کنٹرول پرپاکستان کی جانب سے در اندازی ہو رہی ہے تو پھر ان حالات میں لائن آف کنٹرول کو بھارتیوں نے خالی تو نہیں چھوڑ رکھا ہو گا؟۔ اگر سخت ترین سکیورٹی کے بعد بھی ''چار مجاہدین‘‘ بھارتی فوج کے17 جوانوں کو ہلاک اور24 کو زخمی کر دیتے ہیں تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں لازمی طور پر اندر کے لوگ ہی ملوث ہیں باہر سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اُڑی جموں کے اس حصے میں واقع ہے جہاں ہندوئوں کی بھاری اکثریت ہے اور یہاں پر کسی بھی قسم کی بھارت سے آزادی کی تحریک نہیں چل رہی۔جو بھی لائن آف کنٹرول کو دیکھتا ہے تو اسے حیرانی ہوتی ہے کہ اتنی مضبوط اور اونچی آہنی باڑوں 
کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ چار مجاہدین کا دستہ اسے کراس کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے کے اس انتہائی سیکیورٹی زون حصے میں جا پہنچا ہو کیونکہ آہنی باڑوں کے ساتھ ساتھ تمام لائن آف کنٹرول کے ارد گرد بھارتی فوج نے اس قدر جدید اور حساس ترینLaser Censors لگائے ہوئے ہیں کہ وہ معمولی سی حرکت کو بھی فوراََ نوٹس میں لے آتے ہیں اور یہ سب انتظامات اس پٹرولنگ کے علا وہ ہیں جو لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے۔ اگر سولہ سال قبل کا اسی طرح کا و اقع یاد رہ گیا ہو تو اس وقت نریندر مودی نہیں بلکہ واجپائی بھارت کے وزیر اعظم تھے جن کی درخواست پر امریکی صدر بل کلنٹن نے اس شرط پر پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کارگل سے اسے اپنی فوج کو واپس بلانے کا کہا کہ اگلے چھ ماہ بعد وہ بھارت اور پاکستان کے مشترکہ دورے کے دوران کشمیر پر ایک طے شدہ متفقہ فارمولے کا اعلان کرتے ہوئے تمام فریقین کی باہمی رضامندی سے اس دیرینہ مسئلے کو حل کر دیں گے... اور پھر حسب پروگرام 21 مارچ2000 ء کو امریکی صدر بل کلنٹن ڈھاکہ سے نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر ابھی اترے ہی تھے کہ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے ایک گائوں چِٹی سنگھ پورہ میں بھارتی فوج کا ایک دستہ کشمیری مجاہدین کے لباس پہنے ہوئے صبح سویرے داخل ہوا اور اس گائوں کی آبادی کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے 36 سکھوںکو گردوارے کے باہر ایک لائن میں کھڑا کرنے کے بعد سب کو کلاشنکوفوں کے برسٹ برساتے ہوئے ہلاک کر دیااور پھر یہ'' مجاہدین‘‘ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لیکن ہوا یہ کہ اس دور دراز گائوں کی یہ خبر چند ہی منٹوں کے اندر اندر پورے بھارت میں جنگل کی آگ کی طرح اس طرح پھیلا دی گئی کہ نئی کلکتہ، گجرات، بنگلور آسام ، نئی دہلی، امرتسر، ہریانہ اور ممبئی سمیت بھارت کے ہر کونے میں پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع کرا دیئے گئے ۔ سکھوں کے ایک گروپ سمیت ہندوئوں کی بڑی تعداد پاکستانی سفارت خانے کی جانب بڑھنا شروع ہو گئی۔۔۔اور یہ اس وقت کیا گیا جب امریکی صدر بل کلنٹن اپنی بیٹی چیلسی اور اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے ہمراہ بھارت کے چار روزہ دورے کیلئے نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر جیسے ہی اترے انہیں بتا دیا گیا کہ اس وقت کشمیر کا نام لینے والے کو بھارت کی ایک ارب جنتا آگ لگا دے گی۔
امریکی وفد کو بتا دیا گیا کہ سکھ چونکہ پہلے بھارت کے حکومتی حلقوں سے نا خوش رہتے ہیں اس لئے وہ سمجھیں گے کہ چٹی سنگھ پورہ میں ہلاک کئے جانے والے سب سکھ تھے ا سلئے ہندو براہمنوں کو ان کا کوئی دکھ اور افسوس نہیں اور بھارت کی فوج اور سکیورٹی اداروں میں موجود سکھ جوان اور افسر اس وقت انتہائی غصے میں ہیں اور وہ پاکستان سے انتقام لینے کی باتیں کر رہے ہیں...اس لیے کشمیر کے اس مسئلے کو کسی اور منا سب وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔چھ سال بعد نیویارک میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن نے دکھ بھرے لہجے کہا ' زندگی بھر مجھے یہ افسوس رہے گا کہ مارچ 2000ء کا اگر بھارت کا دورہ نہ کرتا تو 36 بے گناہ سکھ قتل نہ کئے جاتے؟۔ ۔۔۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے یہ الفاظ ان کی تقاریر کے ریکارڈ سے آج بھی جب چاہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved