حکومت گرانا چاہیں تو یہ چُٹکی کا کام ہے۔ قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زماں کائرہ نے کہا ہے کہ'' حکومت گرانا چاہیں تو یہ چُٹکی کا کام ہے‘‘ لیکن اگر یہ چُٹکی بجائی تو ہمارے بھی بہت سے کام تمام ہو جائیں گے جن میں زرداری صاحب سے لے کر یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک اور دیگر بہت سے معززین شامل ہیں جن کے خلاف یا تو مقدمات چل رہے ہیں‘ انکوائریاں ہو رہی ہیں یا جن کی فائلیں چوہدری نثار نے دبا رکھی ہیں جنہیں وہ بھی چُٹکی میں کھول کر دکھا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان تو تیار بیٹھے ہیں لیکن پیپلز پارٹی ابھی حکومت کو گرانا نہیں چاہتی‘‘ کیونکہ اپنے پائوں پر کلہاڑی بیوقوف لوگ ہی مارا کرتے ہیں اور پھر مفاہمت کے حوالے سے یہ ویسے بھی اخلاقی طور پر درست نہیں ہے جبکہ مندرجہ بالا حضرات نے جو درس ہمیں دیا ہے خوش اخلاقی اس میں سرفہرست ہے کیونکہ انہوں نے خود بھی سارے کام خوش اخلاقی اور خاموشی سے ہی ادا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم اپنی تقریر میں کلبھوشن کا نام بھی لیتے‘ لیکن ہم اس پر بھی خاموش رہے کہ ہماریوں مجبوریوں کو آپ جانتے ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خاں نے رائیونڈ مارچ میں شرکت کی دعوت دی تو فیصلہ کیا جائے گا‘‘ توہر آدمی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ کیا ہو گا یعنی ابھی ہمیں بائولے کتے نے نہیں کاٹا۔ انہوں نے کہا کہ ''اسحق ڈار پاناما لیکس پر کارروائی کیوں نہیں کرتے‘‘ کیونکہ ادھر بھی مجبوریوں ہی کا دور دورہ ہے‘ خدا ہم سب کو اپنی اپنی مجبوریوں سے نجات دلائے‘ آمین ثُمّ آمین۔ آپ اگلے روز کراچی میں بلاول ہائوس میڈیا سیل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے سول
اور فوجی قیادت متحد ہے... مصدق ملک
وزیر اعظم کے معاون خصوصی مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے سول اور فوجی قیادت متحد ہے‘‘اور خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں یہ کہنے کا موقع دیا ورنہ دہشت گردوں کے جملہ معاملات کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ کیونکہ یہ میڈیا کا زمانہ ہے اور ہر کسی کو اپنی آزادانہ رائے رکھنے کا حق حاصل ہے‘ بیشک اس کا اظہار کیا یا نہ کیا جائے لیکن ایک دو ماہ ہی کی بات ہے اور اس کے بعد سارے بادل چھٹ جائیں گے اور آزادی کا سورج نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان بھارت کی کسی بھی دھمکی کا بھر پور جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے‘‘ جس طرح حکومت جملہ عوامی مسائل سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے لیکن دیگر ضروری مصروفیات کی وجہ سے اس پر عملی مظاہرہ نہیں کر رہی اور جب ٹارگٹ پورا ہو جائے گا تو اس طرف بھی بھر پور توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے جنگی مشقیں شروع کی گئی ہیں‘‘ جبکہ حکومت تو اپنے معاملات میں پہلے ہی کافی مشاق واقع ہوئی ہے اور اسے کسی مشق کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
تیز رفتار ترقی
سٹیٹ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق کہ پچھلے سال کی نسبت اس برس مہنگائی دوگنا ہو گئی ہے۔ اس پر طُرّہ یہ کہ سی پیک منصوبے کی سکیورٹی کے اخراجات کے لیے مطلوبہ پندرہ ارب روپے بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کر کے پورے کیے جائیں گے۔ ملک کی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے پہلے ہی کیڑوں مکوڑوں کی زندگی بسر کرنے کی سزا کاٹ رہا ہے۔ بھوک کے مارے لوگ اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں اور خودکشیاں بلکہ بیوی بچوں سمیت اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور اب وہ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے ہیں۔ کرپشن کی انتہا کا عالم یہ ہے کہ ملک کا 12ارب روپیہ روزانہ بیرن ملک منتقل ہو رہا ہے۔ آئے دن منصوبوں کی تکمیل کی جھوٹی خبریں سنا دی جاتی ہیں۔ ایک ایک شاہراہ اور منصوبے کا تین تین بار افتتاح کیا جا رہا ہے۔ پکی روٹی‘ صاف پانی اور دانش سکولوں جیسے کتنے منصوبے اربوں کے نقصان کے بعد بند کرنا پڑے۔ حکومت کو صرف اگلا الیکشن جیتنے کی فکر ہے جس کے لیے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین جیسے نمائشی منصوبوں پر اس قلاش اور بال بال قرضے میں بندھے بدقسمت ملک کا اربوں روپیہ غارت کیا جا رہا ہے اور غریبوں پر ظلم کے یہ پہاڑ براہ راست خدا کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔
ایک اور کارنامہ!
کچھ عرصہ پہلے خادم پنجاب نے انتہائی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خشت بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کو یہ کہہ کر وہاں سے اٹھا لیا تھا کہ اس کے عوض ہر بچے کو تعلیمی اخراجات کے لیے 1000روپے ماہوار بطور وظیفہ ادا کیا جائے گا اور بعض بچوں کے والدین کو اس سلسلے میں خدمت کارڈ بھی مہیا کئے گئے۔ ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ انہیں ماہانہ رقم دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن آج تک انہوں نے کسی خدمت کارڈ کا منہ دیکھا نہ رقم کا‘ حکومت نے بھٹے پر کام کرنے والے بچوں کے بارے قانون تو پاس کرلیا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے بچے گھروںمیں بے کار بیٹھے ہیں اور ان کے والدین جو پہلے کبھی پیسے کا منہ دیکھ لیتے تھے‘ اس سے بھی گئے ہیں‘ ان میں سے محض چند خوش قسمت والدین کے پاس یہ کارڈز ہیں جو وہ اپنے بچوں کو سکول بھیج رہے ہیں۔ ایک بھٹہ مزدور نے بتایا کہ ہم میں سے صرف دس فیصد کو یہ کارڈ نصیب ہوئے ہیں اور بس۔ اس سے تو بہتر تھا کہ ہمارے بچوں کو وہاں کام ہی کرنے دیا جاتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حکمران ایسے کسی منصوبے کا آغاز تو بڑی شدومد سے شروع کر دیتے ہیں اور میڈیا پر اس کا تذکرہ بھی کافی دنوں تک رہتا ہے لیکن بعدمیں یہ ایک نا آسودہ خواب ہو کر رہ جاتا ہے اور یہی ان حکمرانوں کا سٹائل بھی ہے اور ان کی پراپیگنڈہ مشین بھی دن رات اسی کام میں لگی رہتی ہے۔
صحت کے مسائل
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت کی سب سے بڑی صحت گاہ‘ میوہسپتال میں دل کے مریضوں کے لیے کوئی ایمرجنسی وارڈ ہی نہیں ہے جس کی ابھی منظوری تک ہونا باقی ہے‘ اس کے لیے فنڈز کی منظوری اور فراہمی تو بہت بعد کی بات ہے اور یہ اس لیے ہے کہ خود تو حکمرانوں کو چیک اپ بھی کرانا ہو تو لندن سے اِدھر دم نہیں لیتے اور ایسے ایسے کلینک بھی کئی کئی روز تک اوپن ہارٹ سرجری کا ڈھونگ مچائے رکھتے ہیں جہاں یہ آپریشن ہوتا ہی نہیں؟ اور واویلا مچائے جانے پر بھی اس کا نہ کوئی ثبوت پیش کرتے ہیں نہ وضاحت۔ ایک اور اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب فارماسسٹس کی دو ہزار سے زائد اسامیاں خالی پڑی ہیں جنہیں پر کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں۔ ان کی ریگولیٹری باڈی کہہ کہہ کر تھک گئی ہے لیکن کسی پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا جبکہ حکمرانوں کو اگر فکر ہے تو صرف اپنی صحت کی!
آج کا مقطع
اک آنے والے زمانے کا ترجماں تھا ظفرؔ
اگرچہ خود کسی پچھلے زمانے والا تھا