تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     27-09-2016

وحی ربانی کی کیفیات

محمد عربی ؐخاتم النبیین ہیں۔ آپ سیدالمرسلین اور محسنِ اعظم ہیں۔ آپ کو تاجِ نبوت پہنانے کے لیے جبریل غارِ حرا میں آئے۔ آپؐ پر پہلی وحی صرف پانچ چھوٹی چھوٹی آیات کی صورت میں نازل ہوئی۔ جو سورۂ العلق کے آغاز میں ہیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ کچھ عرصہ توقف کے بعدمسلسل 23سال جاری رہا۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح بخاری کا آغاز حضرت عمرؓ کی بیان کردہ حدیث سے کیا ہے۔ جوآپ نے منبر پر کھڑے ہوکر سامعین کو سنائی تھی۔ انما الاعمال بالنیّات... الیٰ ما ہاجر الیہ۔ یعنی تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جو آدمی جیسی نیت کرے گا ویسا ہی بدلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ان کی جانب ہجرت کی تو اللہ اور اس کے رسول کے راستے کا مہاجر شمار ہوگا۔ اور جس نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے اپنا وطن چھوڑاتو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے لکھی جائے گی۔ اس باب کا آغاز انھوں کتاب الوحی (وحی بیان) سے کیا ہے۔ آگے کی احادیث وحی سے متعلق ہیں، مگر پہلی حدیث اس نقطۂ نظر سے نیت کے موضوع پر لکھی کہ یہ کام جو انھوں نے شروع کیا اس میں ان کی نیت اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی رضا اور حدیث نبویؐ کی تدوین وحفاظت اور اشاعت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو اتنی قبولیت بخشی کہ ان کی یہ کتاب صحاحِ ستہ میں پہلے نمبر پر شمار ہوتی ہے، بلکہ اسے اصح الکتب بعدکتاب اللہ۔ یعنی کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ مل گیا۔ حدیث لکھنے سے قبل انھوں نے وحی سے متعلق آیات قرآنیہ میں سے سورۃ النساء کی آیت نمبر163 منتخب کرکے لکھی ہے۔ 
اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ ہم نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسیٰؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے داؤدؑ کو زبور دی۔ ہم نے ان رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۔ ہم نے موسیٰؑ سے اس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے۔(النساء 4:163-164)
اس کے بعد وحی سے متعلق حدیث نمبر2سے مضمون شروع ہوتا ہے۔ اس باب میں امام بخاریؒ نے کل چھ احادیث لکھی ہیں۔ سبھی احادیث کافی طویل ہیں، مگر آخری اور چھٹی حدیث تو ہماری رائے میں بخاری شریف کی طویل ترین حدیث ہے۔ دوسری حدیث کے مطابق امام بخاری نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حارث بن ہشامؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ پوچھا: اے اللہ کے رسول آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کبھی تو اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے، جس طرح گھنٹی بج رہی ہو اور یہ وحی مجھ پر سب سے مشکل ہوتی ہے۔ جب فرشتے کا کہا ہوا پیغام ربانی مجھے یاد ہوجاتا ہے تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ کبھی فرشتہ انسانی شکل میں میرے سامنے آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے، میں اس کی کہی ہوئی بات کو یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہؓبیان فرماتی ہیں کہ شدید سردی کے موسم میں آپؐ پر وحی اترتی اور پھر وحی کی تکمیل ہوتی تو میں دیکھتی کہ آنحضورؐکی پیشانی سے پسینہ پھوٹ رہا ہوتا۔ 
تیسری حدیث میں بھی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بیان کیا کہ وحی کا آغاز یوں ہوا کہ آپ سوتے میں اچھاخواب (الرؤیۃ الصالحۃ) دیکھتے۔ پھر جب آپ بیدار ہوتے تو صبح کی روشنی میں وہی کچھ ظاہر ہوجاتا جو آپ نے خواب میں دیکھا ہوتا۔ اس عرصے میں آپ کو جلوت کے مقابلے میں خلوت بھلی لگنے لگی۔ اسی عرصے میں آپ غارِ حرا میں خلوت میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ متعدد راتیں اور دن وہیں پر گزارتے اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ جب کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو اپنے گھر حضرت خدیجہؓ کے پاس لوٹتے۔ آگے پھر اس طویل حدیث میں اس پہلی وحی کا ذکر ہے، جس میں جبریل امین روشنی کی صورت میں آپ کے سامنے نمودار ہوئے تھے اور سورۃ العلق سے نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جب آپؐ پہلی وحی وصول کرنے کے بعد واپس گھر آئے تو آپؐ کانپ رہے تھے۔ آپ نے اپنی اہلیہ سے کہا، میرے اوپر کوئی کپڑا ڈال دو۔ پھر آپ نے خود کو کمبل میں لپیٹ لیا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے پورا قصہ حضرت خدیجہؓ کے سامنے پیش کردیا۔ پھر پورا قصہ بیان کرکے فرمایا مجھے اپنے بارے میں کچھ خوف محسوس ہورہا ہے۔ سیدہ خدیجہؓ نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، ناتواں اور بے بس لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور جو محروم ہیں ان کو اپنی کمائی سے حصہ دیتے ہیں۔ مہمان نوازی کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر مصیبت زدہ کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ 
پھر سیدہ خدیجہؓ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ کے پاس گئیں۔ وہ عربوں کے درمیان ہمیشہ مواحد اور حنیف کے طور پر مشہور رہے۔ عبرانی زبان جانتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے دین پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ عبرانی زبان میں لکھ بھی سکتے تھے۔ وہ بوڑھے ضعیف اور آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔ حضرت خدیجہؓنے کہا کہ میرے چچا زاد بھائی! ذرا اپنے بھتیجے سے اس کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تو سنیں۔ جب آپؐ نے پوری بات سنائی تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ اے میرے بھتیجے یہ تو وہ ناموس ربانی ہے جو اللہ نے حضرت موسیٰؑ پر اتارا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اے کاش میری زندگی وفا کرتی کہ جب تمھاری قوم تمھیں اپنے شہر سے نکال باہر کرے گی تو میں تمھارا ساتھ دیتا۔ آنحضورؐ نے تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ مجھ کو یہاں سے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا، ہاں اللہ کے جس نبی نے بھی یہ پیغام لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے تو لوگ اس کی جان کے دشمن ہوگئے ہیں۔ اگر میں جیتا رہا تو تمھاری مدد کروں گا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کی وفات ہوگئی۔ اس کے بعد وحی آنے کا سلسلہ کچھ عرصے کے لیے بند ہوگیا۔ 
پھر جابر بن عبداللہ انصاریؓ کی زبانی بیان کیا گیا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بار میں راستے میں جارہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان سے ایک صدا سنی۔ جب آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا تو وہی فرشتہ(جبریل) جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا زمین وآسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے اوپر رعب طاری ہوا اور میں واپس اپنے گھر آگیا اور کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ میں اسی کیفیت میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دور رہو۔ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔ (المدثر74:1-7) 
اس کے بعد وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور وقتاً فوقتاً جبریلؑ آپ کے پاس آتے رہے۔ مکی دور میں نازل ہونے والی قرآنی آیات میں ایمان واخلاق اور ذاتی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ دنیا کی زندگی کی بے ثباتی اور آخرت کی یقینی آمد نیز اللہ کے فرشتوں، انبیائے کرام، کتب مقدسہ، اور زندگی بعدالموت کی تفاصیل مکی دور کے نازل شدہ حصوں میں ملتی ہیں۔ سابقہ انبیا اور ان کی قوموں کے تذکرے، ان پر نازل ہونے والے عذاب کی کیفیت اور اہلِ ایمان کی نجات وبقا کے تفصیلی واقعات بتکرار بیان ہوئے ہیں۔ مدنی دور میں جہاد وقتال اور قوانین کے متعلق جامع اور تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ 
حدیث نمبر4 میں امام بخاری نے حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب آپ پر وحی نازل ہوتی توآپ کے ذہن میں خیال گزرتا کہ اس میں سے میں کوئی چیز بھول نہ جاؤں۔ آپؐ وحی کے نزول کے ساتھ ہی اپنے ہونٹوں کو ہلاتے اور الفاظ کو دہراتے۔ اس پر اللہ نے ارشاد فرمایا: اے نبیؐ، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یاد کرادینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت اس کی قرأت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ذمے ہے۔ (القیامۃ 75:16-19) اللہ نے اپنے نبیؐ کو ایک خاص دعا سکھائی۔ ''اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر (سورہ طہ20 :114) 
ان ہدایات ربانی کے بعد آنحضور ؐاطمینان سے کلام ربانی سنتے۔ حضرت جبریل جب پوری وحی سنا چکتے تو آنحضورؐ بڑی آسانی سے اس کو اسی طرح پڑھ لیتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved