محمد عبد الحمید کی زندگی میں اس کشمکش کا آغاز کب ہوا تھا،کسی کو درست طور پر اس کا علم نہ تھا۔محفلوں میں ہمیشہ اس کی زندگی پر بحث ہوتی رہی ۔ بعض کے نزدیک وہ ایک نیک ، مقرب شخص تھا ۔ کچھ کا کہنا یہ تھا کہ وہ ایک انتہائی بد قسمت اور منحوس آدمی ہے۔اس بحث کا اختتام 9ستمبر کی صبح ہوا۔ اس روز سب شکوک و شبہات دم توڑ گئے ۔ لوگ ایک حتمی نتیجے پر پہنچ سکے ۔
ہر جگہ سے میں نے پتہ کیا لیکن محمد عبد الحمید کا بچپن ناقابلِ ذکر تھا ۔اس کے دوستوں ، اساتذہ کا کہنا یہ تھا کہ وہ ایک شریف اورخاموش بچہ تھا ۔دیہات میں ایسے لوگوں کو ''بیبا‘‘ کہا جاتاہے۔ اس کے سب سے قریبی دوست راشد سجاد نے بتایا کہ اس کشمکش کا آغاز تب ہوا تھا ، جب اس کی عمر 21برس تھی۔ وہ ہاکی کا ایک بہت عمدہ کھلاڑی تھا۔تیز ترین رفتار سے دوڑا کرتا۔ جس ٹیم میں وہ شامل ہوتا، اس کا جیتنا یقینی ہوا کرتا۔ وہ کسی کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیتا۔ان دنوں قومی ٹیم میںشمولیت کے لیے ٹرائل ہور ہے تھے ۔ دو روز بعد محمد عبد الحمید کو وہاں جانا تھا۔ جس کسی نے اسے کھیلتے ہوئے دیکھا تھا، وہ جانتا تھا کہ میرٹ پر اس کا منتخب ہونا یقینی تھا۔ یوں اس کی زندگی بدل کر رہ جاتی ۔اس روز محمد عبد الحمید گھر سے سودا سلف خریدنے باہر نکلااور ا س کی زندگی ایک بڑا موڑ مڑ گئی ۔ ایک ایسے موٹر سائیکل سوار نے اسے
ٹکر ماری، جو اگلا پہیہ اٹھا کر اسے بھگا رہا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ موٹر سائیکل سوار کو تو خراشیں ہی آئیں ، محمد عبد الحمید کی داہنی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب آپ خود بتائیے کہ بھلا جس شخص کی زندگی ہاکی سے شروع ہو کر ہاکی پہ ختم ہوتی ہو، کسی دوسرے کی غلطی سے اس کی ٹانگ ٹوٹ جائے تو وہ کس ذہنی کیفیت کا شکار ہوگا۔ کہا جاتاہے کہ محمد عبد الحمید کو جب ہوش آیاتو کچھ دیر وہ خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے یہ کہا: خدا کا شکرہے کہ میں زندہ سلامت ہوں ۔ راشد سجاد کا کہنا یہ ہے کہ یہیں سے اس کی زندگی میں ان واقعات کا آغاز ہوا ۔
محمد عبد الحمید نے گاڑی خریدی ۔ اسے ٹیکسی کے طور پر چلانے لگا۔ ا س کے اخراجات معمولی تھے اور ٹیکسی کی آمدنی سے وہ بخوبی پورے ہو جایا کرتے ۔ اس روز بھی راشد سجاد اس کے ساتھ ہی تھا، جب ایک ڈرائیورہوٹل کے پاس گاڑی کھڑی کر کے وہ گپیں ہانک رہے تھے ۔ ایک ٹرک آیا، جس کا ڈرائیور شاید نشے میں تھا۔ ایک بھرپور ٹکر سے گاڑی کا اس نے کچومر نکال دیا۔ ظاہر ہے کہ ٹرک کو معمولی نقصان ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے ، وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ راشد سجاد نے دیکھا کہ محمد عبد الحمید رو رہا ہے ۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ رو رہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ خدا کا شکر ادا کر رہا تھا۔''کس بات کا شکر؟‘‘ راشد سجاد نے اس سے پوچھا۔ ''یہ کہ میں گاڑی میں سوار نہیں تھا ‘‘ محمد عبد الحمید نے کہا ۔
حادثے پہ حادثہ ہوتا رہا۔ محمد عبد الحمید کی شادی ہوگئی ۔ اسے بچّوں سے بہت محبت تھی ۔ پہلے برس اس کے ہاں اس قدر خوبصورت بچّے نے جنم لیا، جس پہ نظر نہیں ٹکتی تھی ۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ یہ بچّہ پیدائش کے دوران ہی مر چکا تھا۔ سب نے حیرت سے دیکھا کہ آنسو بہاتا ہوا محمد عبد الحمید شکر ادا کر رہا تھا۔''کس بات کا شکر؟‘‘ اس سے پوچھا گیا۔ ''بچّے کی ماں زندہ سلامت ہے ۔ ‘‘ اس نے جوا ب دیا ۔
انہی دنوں وہ ایک اہلِ علم کے پاس گیا۔ راشد سجاد نے بتایا کہ انہوں نے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا۔ یوں ، جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ انہوں نے اس کا ماتھا چوما۔ خود اپنے ہاتھ سے اس کی پلیٹ میں کھانا ڈالا۔ وہی تھے، سب سے پہلے جنہوں نے اسے ''شُکر والے ‘‘ کا نام دیا۔ محمد عبد الحمید چپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔جب وہ واپس آنے لگے راشد سجاد نے پوچھا کہ کیا حادثات کا یہ سلسلہ کسی طرح ختم نہیں ہو سکتا۔ ''صرف ایک ہی صورت ہے‘‘ انہوں نے بتایا ''یہ کہ محمد عبد الحمید شکر ادا کرنا چھوڑ دے ‘‘۔
ان دنوں اس بات کا چرچا ہونے لگا تھا۔ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے ۔ راشد سجاد نے دیکھا کہ مخلوق کے دل میں محمد عبد الحمید کی محبت پیدا ہو رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر نور برسنے لگا تھا۔ اور اب اسے عبدالحمید کہتا کون تھا۔ سب اسے شکر والا کہا کرتے ۔ راشد سجاد نے بتایا کہ اب وہ غیر معمولی طور پر شکر ادا کرنے لگا تھا۔ اسی شدت سے حادثات بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔ اس کے ماں باپ مر گئے ۔ حادثات سے گھبرا کر بیوی نے میکے کا رخ کیا۔ اب وہ اس مرحلے پر پہنچ چکا تھا ، جب بعض اوقات ایک ایک گھونٹ اور ایک ایک نوالے پر خدا کا شکر ادا کرنے لگتا۔
یہی وہ دن تھے ،جب ایک ہلکے سے زلزلے میں اس کا مضبوط مکان گر پڑا، بستی کے کچّے مکانوں کو بھی جس سے کوئی نقصان نہ پہنچا تھا۔ ملبے تلے دبا وہ خدا کا شکر ادا کرتا رہا۔ یہاں سے اس کی کہانی اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگی ۔ بھرپور جوانی میں اس کی صحت گرنے لگی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ملبے تلے دبے رہنے کی وجہ سے اس کے کچھ اعضا کو نقصان پہنچا ہے ۔ انہی دنوں راشد سجاد نے اس سے التجا کی کہ شکر ادا کرنا وہ چھوڑ دے ۔ ادھر اس کی حالت یہ تھی کہ سانس بعد میں لیتا، پہلے مالک کا شکر ادا کرتا۔
8ستمبر کی شام جب اس نے دم توڑا، راشد وہیں تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ محمد عبد الحمید کا آخری وقت آپہنچا ہے ۔ اس روزوہ تلخ ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ کس با ت کا وہ شکر ادا کر رہا ہے ۔ اس کے اہل و عیال مر چکے ہیں ۔ ایک ٹکا ا س کی جیب میں نہیں ۔ بھرپور جوانی میں اس کی صحت جواب دے چکی ہے۔ اب کس بات کا شکر۔ ''اس بات کا شکر میرے بھائی ‘‘ محمد عبد الحمید نے کہا '' کہ پانچ ارب مخلوقات میں سے خدا نے آزمائش کے لیے مجھے منتخب کیا ‘‘
یہ اس کے آخری الفاظ تھے ۔9ستمبر کی صبح سارا شہر اس کے جنازے میں امڈ آیا تھا۔ آخر یہ ''شکر والے ‘‘ کا جنازہ تھا۔