تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-09-2016

یہ منہ‘ مسور کی دال

یوں تو دنیا کے ہر جمہوری ملک میں معینہ عرصے کے لئے‘ حکومت یا ریاست کی سربراہی کے انتخاب کا موقع ‘انتہائی دلچسپ اور معلومات افزاہوتا ہے۔ جمہوریت کی تہمت تو ہم پر بھی بارہا لگی ہے لیکن ہر ملک میں عوام کے آزادانہ فیصلوں کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔سوویت یونین میں قریباً ایک صدی سے مختلف طور طریقوں کے ذریعے‘ نئی حکومت کے فیصلے ہوتے آرہے ہیں۔ وہاں کے انتخابات میں‘ عوامی رائے عامہ کا خاص عمل دخل نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر یہ ایک آمرانہ طرزحکومت ہوتا ہے جسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں میں‘ عوام اپنی آزادانہ رائے کے ذریعے ‘نئے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔امریکہ کا جمہوری نظام سب سے مختلف ہے۔ وہاں دو روایتی پارٹیوں کے درمیان‘ انتخابی مقابلہ ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی حکومتی سربراہ کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے‘ جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا‘ آخر کار دو امیدواروں کے مابین مقابلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ امریکہ کے اس انتخابی عمل میں‘ ہر طرح کا اتار چڑھائو‘ ڈرامائی عمل اورا میدواروں کی شخصی خوبیوں اور کمزوریوں کا موازنہ برسرعام کیا جاتا ہے۔ اس انتخابی عمل میں سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو چھان بین کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں‘ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابی عمل دیکھنے میں نہیں آتا۔لیکن امریکہ اور برطانیہ کے انتخابی معرکے ساری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔آج پاکستانی وقت کے مطابق صبح چھ بجے‘ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخاب کا پہلا مرحلہ دیکھنے میں آیا۔دونوں امیدواراپنی اپنی پارٹی کے تنظیمی امور سے لے کر فکری اور انتظامی تبدیلیوں کی تجاویز‘ عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ عوام‘ میڈیا کے ذریعے امیدواروں کے تقابلی جائزے لے کر‘ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں کون سا امیدوار زیادہ موزوں ہے؟ ضروری نہیں کہ امریکہ کے ہر صدارتی انتخاب میں صرف دو امیدواروں کے درمیان ہی مقابلہ ہو۔ کئی بار یہ مقابلہ‘ سہ فریقی بھی ہو جاتا ہے۔ مگر عموماً دلچسپ ترین مقابلہ وہی ہوتا ہے‘ جہاں الیکشن کے آخری مراحل میںدو امیدوار آمنے سامنے آجائیں۔
آئندہ چار سال کے لئے بھی دو صدارتی امیدوار میدان میں اترے ہیں۔امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہی منصب کے لئے‘ ایک مرد اور ایک خاتون‘ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ڈیموکریٹس نے ماہر ڈپلومیٹ‘ ہیلری کلنٹن کو اپنا صدارتی امیدوارچنا اور ریپبلکن پارٹی نے ایک بہت بڑے سرمایہ دار‘ڈونلڈ ٹرمپ کواپنی پارٹی کی طرف سے نامزد کیا۔
برصغیر کی جمہوریتیں‘ برطانیہ کے سیاسی نظام کا چربہ ہیں۔اس نظام کے تحت‘ مختلف پارٹیاں انتخابی میدان میں اترتی ہیں۔ جس کے سب سے زیادہ امیدوار کامیاب ہو کر‘ قانون ساز اداروں میں آجائیں‘ وہی حکومت قائم کرنے کی حق دار ہوتی ہے۔ برطا نوی جمہوریت دیگر جمہوریتوں کے مقابلے میں قدرے مختلف ہوتی ہے۔انتخابی عمل کے ذریعے حکومت سازی کا حق سیاسی جماعتوں کو ملتا ہے۔جس پارٹی کے نمائندے بھی سب سے زیادہ تعداد میں منتخب ہو کر آتے ہیں‘ انہیں حکومت سازی کا موقع ملتا ہے۔ اور اگر کسی ایک پارٹی کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ ہو تو وہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر جمہوری حکومت قائم کر لیتی ہے۔ برطانیہ میں ریاست کا علامتی سربراہ‘ ملکہ یا بادشاہ ہوتے ہیں۔ لیکن ریاست کے انتظامی امور پر مکمل اختیار‘ اکثریتی پارٹی کے پاس ہوتا ہے۔ہر چند‘ اعلیٰ ترین منتخب ادارہ یعنی پارلیمنٹ خود مختار ہوتا ہے لیکن عوام کی بالادستی برقرار رہتی ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں نے ہی‘ برطانوی طرز حکومت اختیار کیا لیکن70سال 
کی جمہوریت میں رہتے ہوئے یہ دونو ں ملک‘ مختلف سمتوں میں سفر کرتے رہے۔ ان دونوں ملکوں کی خوبیاں اور خرابیاں بڑی حد تک ملتی جلتی ہیں۔ لیکن بھارت میں انتخابی عمل باقاعدگی سے جاری رہا۔ جبکہ پاکستان کے حکمران طبقوں نے انتخابی عمل کو‘ اپنے اپنے مخصوص مفادات کے مطابق ڈھال لیا۔ بھارتی جمہوریت پر سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کا کنٹرول ہے جبکہ پاکستان میں چند مخصوص طبقے اقتدار پر قابض رہتے ہیں۔ حکمرانوں کے یہ طبقے مختلف سیاسی پارٹیوں میںتقسیم ہوتے ہیں لیکن حکومت سازی کے لئے درکار نشستیں‘ چند با اثرخاندان آپس میں بانٹ لیتے ہیں اور انہی کے درمیان ‘ اقتدار کی تقسیم بھی کر لی جاتی ہے۔ اکثر اوقات حکومتیں بنانے والی جماعتیں اور ہوتی ہیں اور اقتدار پر قبضہ کرنے والے خاندان دوسرے۔پاکستانی عوام اس اعتبار سے بدنصیب رہے کہ ہمارے ملک میں ایک تیسری طاقت یعنی فوج‘ اقتدار کے کھیل میں شامل ہو گئی۔ چونکہ یہ ایک منظم‘ مسلح اور طاقتور پارٹی(تنظیم) ہوتی ہے‘اس لئے اپنے تنظیمی نظام کے تحت‘ حکمران ادارے کا سب سے بڑا فرد ‘یعنی چیف آف آرمی سٹاف یا کمانڈر انچیف ‘حکومت کا سربراہ بن جاتا ہے اور وہی کامل اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔حکومتیں بنانے کی ذمہ داری پارٹیوں کے پاس نہیں ہوتی۔فوج کا سربراہ ‘جو اصل میں اقتدار پر قبضہ کرتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق‘ کبھی پہلے سول اورفوجی اداروں کے اندر‘ چند حاشیہ برداروں کو چن کر حکومت بناتا ہے اور اسی کو سیاسی جماعت کا نام دے کر‘(جمہوری حکومت) بنا لیتا ہے۔ ہر فوجی حکمران اپنے ساتھ مختلف طرز حکومت لے کرآیا۔ سب سے پہلے‘ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ تو موصوف نے سیاسی جماعتوں کا نام و نشان ہی مٹا دیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے نام سے اس نے بلدیاتی طرز کے انتخابات منعقد کروائے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کو چالیس چالیس ہزار نمائندے چننے کا اختیار ملا۔ یہی نمائندے بعد میں حاکم اعلیٰ‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کی سیاسی پارٹیوں میں چلے گئے۔ یہ بلدیاتی نظام بھی چلاتے تھے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی بناتے اور توڑتے رہتے۔جس نام کے ساتھ بھی سیاسی جماعت کی حکومت بنتی‘ اس کا سربراہ فوج کا کمانڈر انچیف ہی ہوا کرتا۔اس آمرانہ طرز حکومت میں نہ ووٹرو ںکی کوئی اہمیت تھی نہ سیاسی جماعتوں کی اور نہ انتخابی عمل کی۔ایوب خان نے اپنے دور میں تین مختلف سیاسی نظام قائم کئے۔ مگر جب اقتدار چھوڑنے کا وقت آیا تو اس نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین اور اسمبلیوں کو پھلانگتے ہوئے‘ اقتدار اپنے جانشین کمانڈر انچیف‘ جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔یحییٰ خان کو اقتدار کسی نظام کے تحت منتقل نہیں ہوا تھا۔ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے تمام طاقت اور اقتدار اس کے قبضے میں تھی۔ اس نے کوئی جماعت بنائے بغیر‘ عام انتخابات منعقد کرا دئیے۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں منتخب ہو کر آئیں اور یحییٰ خان نے انہی جماعتوں کے اندر سے‘ اپنے مستقل اقتدار کی راہیں نکالنے کے جتن شروع کر دئیے۔ سیاسی کھیل یحییٰ خان جیسے غیر سیاسی سپاہی کے بس کی بات نہیں تھی۔اس نے جمہوری نظام کے ساتھ وہی کیا‘ جو عموماً فوجی کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق‘ الیکشن میں جیتی ہوئی پارٹیوں کے ساتھ جوڑتوڑ کر کے‘ حکومت پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جب اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا تو الیکشن میں کامیاب ہونے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔مشرقی پاکستان کے عوام اکثریت میں ہونے کے باوجود‘ مغربی پاکستان کے طاقتور گھرانوں سے اقتدار حاصل نہ کر سکے۔پھر جوتم 
پیزار ہوئی۔ اقتدار تو کوئی نہ حاصل کر سکا۔ بد نصیب پاکستان دولخت ہو گیا۔یہ کہانی اسی انداز میں آگے بڑھتی رہی۔فوج کے نئے سربراہ ضیا الحق نے روایتی چھڑی ہاتھ میں پکڑ کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔وہ اللہ کا خاص بندہ تھا۔ مردِ مومن مردِ حق کا خطاب چنا۔اللہ تعالیٰ نے مردِ مومن کو دو فرزند عطا فرمائے تھے۔ ضیا الحق نے انہی کو اپنا جانشین قرار دے دیا۔ باقی فیصلے قدرت نے کر دئیے۔ضیا الحق‘ بہاولپور کے صحرائوں میں ریت کی نذر ہوا۔اس کے بعد ان کا آہنی جانشین‘ اقتدار پرمع اہل و عیال قابض ہو گیا۔اللہ کے فضل وکرم سے ‘اقتدار اب اسی آہنی خاندان کی دسترس میں ہے۔عوام کی مجال نہیں کہ انتخابی عمل میں اپنی مرضی کے حاکم چن سکیں۔آہنی خاندان اپنے درمیان سے ‘ایک دو فولادی شخصیتوں کو گھر کے اندر ہی منتخب کر لیتا ہے۔ تادم تحریر یہی آہنی خاندان اقتدار پر‘ مضبوطی سے اپنی گرفت قائم کئے بیٹھا ہے۔میں آج صبح امریکہ میں نئے سربراہ حکومت کے انتخاب کی میڈیا کوریج دیکھ رہا تھا ۔ دوامیدواروں کا پہلا مباحثہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ جمہوریت تو ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔ کیا میں کسی سے کم ہوں؟اندر سے آواز آئی'' یہ منہ ‘ مسور کی دال‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved