تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-09-2016

قرۃ العین حیدر کی آنکھ سے کراچی کو دیکھو (آخری قسط)

ہندوستان وطن نہیں بلکہ ایک قسم کا عارضی پڑائو کا کیمپ ہے۔ علی گڑھ میں کہاوت ہے، مسلم یونیورسٹی کی سڑک نئی دلی کی بجائے سیدھی کراچی جاتی ہے۔ برطانوی دور حکومت میں دوسری اقلیتوں کی مانند مسلمانوں کی ملازمتوں میں نشستیں مخصوص تھیں۔ نامزدگی کا دستور تھا، ہندوستان میں ملازمتوںکے سلسلوں میں، مسلمانوں سے جو تعصب برتا جا رہا ہے، اس کا اندازہ مجھ سے بہتر کس کو ہوگا۔ مسلمانوں کے لاشعور میں ہجرت کا فسوں بسا ہوا ہے۔ پچھلی صدی میں ایشیا میں سیاسی بیداری کے پھیلتے ہی یہ قوم متضاد وفاداریوں کی کشمکش کا شکار ہوگئی۔ رہا ہند میں لیکن۔۔۔۔ میرے مولا بلا لے مدینے مجھے۔۔۔۔اس کا محبوب نغمہ تھا۔ پان اسلام ازم کی تحریک نے اس تصور کو اور دلآویز بنایا اور مسلمان کے یہاں نیشنلزم اور وطن پرستی کا تصور ہی بدل گیا۔ اب ہندوستانیت اور اسلام ہم معنی نہیں رہے کیونکہ اول الذکر میں ہندوازم بھی شامل تھی اور اس میں انگریزوں نے فرقہ پرست عناصر کے ذریعے الگ ہندویت کی تحریک چلا رکھی تھی۔ ایرانیت اور اسلام، عربیت اور اسلام میں کوئی تصادم نہیں تھا۔ جس طرح ہر فرانسیسی لامحالہ عیسائی بھی ہے مگر ہندی مسلمان کو اس ملک میں اکثریت کی ایک بڑی رنگین تہذیب اور مضبوط معاشرے سے مقابلہ کرنا تھا۔ لہٰذا وہ اس ماحول میں شامل ہو کر بھی مدافعت کرتا رہا۔ مگر یہ مدافعت کب پیدا ہوئی۔ سارے غیر ملکی مبصرین کا جو مغلوں کے زوال کے وقت ہندوستان میں آئے اور جن کو اُس وقت جدا کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کا علم نہ تھا کہ یہ انیسویں صدی میں تیار کی گئی،کا یہ کہنا ہے اس طوائف الملوکی کے باوجود ملک میں ہندو مسلم سوال کا وجود نہیں تھا۔
ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سوال کس طرح پیدا ہوا۔ انیسویں صدی میں جب ملک کی اقتصادی تباہی کی وجہ سے یہ کھچائو شدید تر ہوگیا، ہندو اکثریت کے ہاتھوں پٹ جانے کے خوف کی نفسیات کا تذکرہ پنڈت نہرو اور سردار پانیکر دونوں نے کیا ہے۔ یہ سوال تاریخ کا بہت بڑا 'اگر‘ ہے کہ اس خوف کا تدارک کیا جاتا جو کہ کانگریس کر سکتی تھی تو آج حالات کیا ہوتے؟
خیر ہندی مسلمان کا صہیون حجاز تھا۔ یورپی یہودیوں اور ہندی مسلمانوں کے علاوہ کسی اور قوم نے وفاداریوں کے اس تصادم کا سامنا نہیں کیا۔ یہودیوں اور مسلمانوں نے اپنے اپنے علیحدہ علیحدہ ملک بنائے ہیں اور دونوں اب مزید مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔پاکستان میں جو نفسانفسی کا عالم اور حب الوطنی کی کمی نظرآتی ہے اس کی یہی وجہ ہے، مسلمان کو اس سرزمین سے کوئی بے اختیار جذباتی اور روحانی لگائو نہیں۔ وہ موقع اور سکیورٹی کی تلاش میں یہاں (پاکستان) آئے ہیں۔ جو لوگ گومتی کے خربوزوں اور پریاگ کے میلے اور ساون کی گھٹائوںکو یاد کر کے روتے ہیں، ان کی اولادیں جو یہاں بڑی ہورہی ہیں، ان کے لیے یہ سارے تصوارت بے معنی اور مضحکہ خیز ہیں۔ یہ نسل خالص پاکستانی ہوگی اور اس طرح متضاد وفاداریوںکا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ 
زبان کا مسئلہ ہماری کتنی بڑی بدقسمتی رہی ہے۔ ہندوستان سے مڈل کلاس مسلمان کے قدم اکھڑنے کی دوسری وجہ سنسکرت آمیز ہندی زبان کا تسلط ہے۔ اپنی زبان کی تباہی کسی قوم کے لیے سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ انسان اپنی دولت لٹتے دیکھ سکتا ہے مگر اپنی زبان اور تہذیب کی بیج کنی برداشت نہیں کرسکتا۔ علاوہ ازیں ہندی مسلمان کو لاشعوری اور شعوری طور پر اپنی مخصوص تہذیب کی برتری کا ناز بھی رہا ہے۔ چنانچہ یہ اس کی دوسری بڑی زبردست نفسیاتی شکست ہے۔ مسلمان بچے اسکولوں میں ہندی پڑھ رہے ہیں (جبکہ ان کے باپوںکی نسل کے ہندو انہی سکولوں میں اردو پڑھتے تھے۔) یہ بچے اگر ہندوستان میں رہ گئے تو اس نئے تمدنی سانچے میںکھپ جائیں گے اور اسی میں ان کی عاقبت ہے۔ اگر وہ مزاحمت کرنا چاہتے ہیں تو لامحالہ ان کو اِدھر آنا پڑے گا۔ زبان کا مسئلہ زیادہ تر شہروںکے مسلمانوں کے لیے ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اتر پردیش کا وہ مسلمان جو مسلمانوں کی مڈل کلاس، سیاست اور تہذیب کا علمبردار تھا، نہ اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا۔ اس کی حالت قابل رحم ہے۔ 
اب میں پھر یہاں کے حالات کی طرف آتا ہوں۔ کل میں بھیاصاحب کے دفتر میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ وقت گزارنے کے لیے پبلسٹی کے لٹریچر کی ورق گردانی شروع کی اور بہت سی کتابیں گھر اٹھا لایا۔ رات کو میں نے پچھلے برسوںکے وزرائے اعظم کی اہم ترین تقاریر نکال کر پڑھیں۔ طلعت! وعدوں کا ایک سمندر ہے کہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ اسکیموں کا ایک ریلہ ہے جو آٹھ سال سے اب تک بہتا چلا آرہا ہے۔ مسلمان سیاست ہمیشہ سے مڈل کلاس سیاست رہی ہے، لہٰذا دیہات کی طرف بھولے سے بھی کوئی توجہ نہیں دیتا۔ مسلمانوں کے پروگرام میں تقسیم سے پہلے زرعی اصلاحات وغیرہ کا دور دور تک کہیں ذکر نہ تھا۔ وہی روایت اب بھی باقی ہے۔ زمینداری کے خاتمے کا فی الحال سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیونکہ اسی طبقے کی حکومت ہے۔ آج جمعے کی رات ہے اور میں ایک انٹیلکچوئل محفل سے لوٹ کر آرہا ہوں۔ وہاں گھاس پر قالینوں پر بیٹھے گروپ بنائے مغربی ادب اور عالمگیر سیاست کی موشگافیاںکر رہے تھے۔ دیسی لڑکیاں صرف دو تین ہی ہوتی ہیں۔ میں نے یہاں کی مسلمان لڑکیوں میں ان کی اعلیٰ تعلیم کے باوجود بینادی سنجیدہ مسائل کے متعلق سوچنے کی طرف سے حیرت انگیز بے اعتنائی دیکھی۔ 
اس محفل میں دنیا جہان کے مسائل پر زور شور سے بحثیں ہوتی ہیں۔ دراصل یہ ایک قسم کا ہائیڈ پارک کارنر ہے جہاں لوگ آکر اپنے اپنے دلوں کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ 
ہر محکمے میں ان گنت ایڈوائزر منسلک ہیں جو جانے کیا جادو سکھاتے ہیں مگر اب تک کوئی خاص ترقی کہیں نظر نہیں آئی۔چار سو اسکینڈلز کا بازار گرم ہے۔ رشوت کے اسکینڈلز، دھاندلی اور سیاسی غنڈہ گردی کے سکینڈل۔ 
اب صبح ہو رہی ہے۔ میں نے ساری رات تم کو خط لکھنے میںگزار دی۔ دریچے ہٹا کر باہر جھانکا۔ کراچی جاگ اٹھا ہے۔ کراچی اپنے کام پر جا رہا ہے۔ سینکڑوں انسان سائیکلوں، چھکڑا ایسی بسوں، سائیکل رکشائوں پر سوار کارخانوں اور دفتروںکی طرف رواں ہیں۔ ان لوگوں نے توکوئی قصور نہیں کیا۔ ان کو تعلیم نہیں دی گئی۔ ان کو بھوکا رکھا گیا۔ ان کو جس لاٹھی سے ہانک دو ہنک جائیں گے۔ یہ سب امن سے رہنے والے پیٹ بھر روٹی کھانے والے آرام سے سونے کے مستحق ہیں۔ جب ہزاروں انسانوں کا ریلا نئے ڈاک یارڈ کی طرف بڑھتا ہے تو مجھے پاکستان کے مستقبل سے امیدیں بندھ جاتی ہیں۔ یہ بڑے معصوم، بے ضرر انسان ہیں۔ یہ لوگ جو اس جدید ، بیہودہ، بدشکل بوم ٹائون کی پندرہ لاکھ آبادی ہیں، یہ مکرانی اونٹ گاڑی والے، رنگ برنگے لہنگے پہنے راجستھانی اورکاٹھیاواڑی مزدور۔ سعود آباد کو لونی میں رہنے والے بنارس کے جولاہے ، لالوکھیت اور لیاری کی لرزہ خیز مہاجر بستیوں کے باسی، مغربی اتر پردیش کے کاریگر، دلی کے بساطی، بمبئی کے ٹیکسی ڈرائیور، فٹ پاتھ پر دوکانوں والے چھوٹے چھوٹے کاروباری۔ انجام کولونی اور آگرہ تاج کولونی کے باشندے جو ہاکس بے کے راستے پر ہندئوں کے سابقہ شمشان گھاٹ کی دلدل میں جھونپڑے ڈالے پڑے ہیں اور اپنی اپنی جھگیوں پر چائو سے چاند تارے کا جھنڈا لہراتے ہیں۔ ہر سال بارش آتی ہے تو ان کی جھونپڑیاں بہہ جاتی ہیں۔ اپوا کی بیگمات آکر امریکن دودھ کے ڈبے اورکمبل ان کو تقسیم کرتی ہیں اور ان کے جھونپڑیاں اگلی برسات تک کے لیے پھر آباد ہوجاتی ہیں۔ 
رات میری رچرڈ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ بحیثیت سوشیالوجسٹ میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوںکہ اس قدر ناقابل یقین تکالیف کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے باوجود کراچی کی یہ مخلوق اس قدر امن پسند کس طرح ہے؟ یہ انقلاب برپا کیوں نہیں کرتی۔ تشدد پر کیوں نہیں اترآتی؟ کمال ہے میری رچرڈزکو یہ بھی معلوم نہیں۔ نہیں طلعت، ان سے متنفر نہ ہو کہ انہوں نے ہلہ کر کے تمہاری دنیا تقسیم کرادی۔ یہ بڑے معصوم لوگ ہیں۔ ان کو مباحثوں، تاریخ اور تجزیوں سے کوئی غرض نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ سندھ انڈسٹریل اسٹیٹ میں کارخانے کھل گئے ہیں اور ان کی مشینیں یہ انسان چلاتے ہیں اور جس ملک میں یہ رہ رہے ہیں اس کا نام پاکستان ہے۔ اب ماضی پر رونے اورغلطیوں پر پچھتانا مضحکہ خیز ہے کیونکہ مستقبل ابھی باقی ہے۔ یہ سوچنا حماقت ہے کہ دونوں ملک پھر متحد ہوجائیںگے۔ دنیا کا نقشہ ہر جنگ عظیم کے بعد بدلتا ہے۔ انیس سو پینتالیس کے بعد بھی بدل گیا ہے۔ جب میں ماضی کے متعلق سوچتا ہوں میرا دل کٹتا ہے مگر دل کہاں تک کٹے گا۔ زندگی آدھی گزرگئی۔ تھوڑی سی باقی ہے۔ اب بھی موقع ہے ہم اس بچے کھچے وقت کو سوارت کر لیں۔ اس ملک نے مجھے اپنی حفاظت میں لیا ہے۔ مجھے پناہ دی ہے۔ اس کو بنانا یا بگاڑنا میرے ہاتھ میں ہے۔ میں نے جو عمر بھر تخریب کی بجائے تعمیر کے خواب دیکھے ہیں، تمہارا کیا خیال ہے یہاں کے ذہن پرستوں کے خلا میں داخل ہوکر میں اپنے آپ کو کھو دوںگا؟نہیں طلعت میں ایسا نہیں ہونے دوںگا۔
میں تعمیر کروں گا۔ (ختم ) 
(یہ اقتباسات قرۃ العین حیدر کے ناول 'آگ کا دریا‘ سے ہیں جو پاکستان بننے کے آٹھ برس بعد لکھا گیا تھا۔)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved