کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں حکومت اور کرپشن دو متوازی اور متبادل اصطلاحات ہو کر رہ گئی ہیں۔ آئے دن اربوں کے سکینڈلز کا انکشاف اور ان پر ہاہا کار بھی مچی ہے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور حکومت کی پھرتیاں دیکھیے کہ پاناما لیکس کو تو کھوہ کھاتے میں ڈال دیا ہے اور وزیر خزانہ نے بہاما لیکس کی فوری تحقیقات کے لیے ایف بی آر اور ایف آئی اے وغیرہ کو احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اربوں کے گھپلے پیپلز پارٹی کے کئی زعما کے خلاف ہیں جن کی فائلیں وزیر داخلہ کے پاس ہیں۔ ہم وزیر داخلہ کی دیانتداری کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے لیکن کرپشن کو چھپانا کہاں کی دیانتداری ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ وہ خود اس کا اعتراف بلکہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ یہ فائلیں انہوں نے دبا رکھی ہیں۔ اب تو اس میں کسی کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا کہ کرپشن کا منبعٔ اعظم اور سرچشمۂ اوّل کون اور کہاں واقع ہے اور اتنی کرپشن کے باوجود اگر قیامت ابھی تک نہیں آئی اور آسمان ٹوٹ نہیں پڑا تو اس لیے کہ اللہ میاں نے ہنوز رسّی دراز کر رکھی ہے۔
اب یہ کچھ مزید ترقی یافتہ ہو گئی ہے اور اس کے ثبوت جلانے اور غائب کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے اور متعدد ایسے اداروں کے حوالے سے رپورٹ ہو چکا ہے کہ کرپشن سے متعلقہ فائلیں یا تو نذر آتش کر دی گئی ہیں یا چُرا لی گئی ہیں کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ وزیر اطلاعات کی یہ شکایت کہ معلومات تک رسائی میں بیورو کریسی رکاوٹ ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ بیورو کریسی بھی آپ کی حکومت کی طرح اسی کام میں مصروف ہے ‘کسی بھی قسم کے خوف و خطر کے بغیر کہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور ایک دوسرے کے کانے۔ وہ آپ کی بات کیوں مانے گی!
تاہم‘ حکومت نے ایک پھندا ضرور رکھا ہوا ہے جو وہ کسی کے بھی گلے میں حسب ضرورت ڈال دیتی ہے اور جس کی ایک دلچسپ مثال سابق چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ آصف ہاشمی بھی ہیں کہ موصوف کی کردار کشی کے لیے جاری مہم تھمنے میں نہیں آ رہی۔ واضح رہے کہ دبئی کے محکمۂ انصاف نے نہ صرف حکومت پاکستان کی طرف سے آصف ہاشمی کی حوالگی کی درخواست کو رد کر دیا بلکہ دبئی میں ان کی حفاظتی تحویل کو بھی بلا جواز اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ آصف ہاشمی پر لگائے گئے الزامات اگرچہ پاکستان میں بھی ثابت نہیں کیے جا سکے‘ پھر بھی وزارت داخلہ اور معزز عدلیہ کے فیصلوں کے برعکس اور قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر ان کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے جیسا مضحکہ خیز فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دبئی میں موجود آصف ہاشمی کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت پاکستان کی استدعا پر وہ حفاظتی تحویل میں لے لیے گئے اور پاکستانی حکام نے جب ان ریڈ وارنٹس کو قانونی اور اخلاقی قرار دینے کے لیے بذریعہ ایف آئی اے عدالت سے درخواست کی تو اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسلام آباد کے اے ڈی سی جی آفس سے اسے قانونی قرار دلوانے کی کوشش کی گئی تو وہاں بھی دال نہ گل پائی۔ وزارت داخلہ نے آصف ہاشمی کے خلاف ریڈ وارنٹس جاری کرنے کی اپیل کو19ستمبر 2014ء کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا جبکہ پاکستانی حکام نے دبئی کی عدالت کو گمراہ کرنے کے لیے جو وارنٹ گرفتاری پیش کئے وہ جعلسازی سے بنائے گئے وہ وارنٹ تھے جن پر 31اکتوبر 2013ء کی تاریخ درج تھی۔
جس معاہدہ کو بنیاد بنا کر آصف ہاشمی کے خلاف یہ بلا جواز کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایف آئی اے اپنی تحقیقات میں یہ تسلیم کر چکی ہے کہ یہ معاہدہ کرنے کا اختیار بورڈ کو تھا ہی نہیں۔ بورڈ صرف سفارش کر سکتا تھا اور یہ اختیارات صرف فیڈرل سیکرٹری اقلیتی امور کو حاصل تھے۔ اس وقت کے وفاقی سیکرٹری اقلیتی امور عبدالغفار سومرو اور جائنٹ سیکرٹری طاہر علی شاہ نے اس معاہدے کی اجازت دی تھی لیکن شومئی قسمت کہ ایف آئی اے کی جانب سے ٹھہرائے جانے والے اصل ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے سومرو صاحب کو الیکشن کمشن رکن بنا دیا گیا(یہ بھی حکومت کا خاص سٹائل ہے کہ کیسے بندے چُن چُن کر کہاں کہاں لگاتی ہے۔) موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کے لیے یہ امر باعث تشویش ہونا چاہیے کہ ان کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے دور میں ہونے والی تحقیقات میں ان کی سربراہی میں کمیٹی نے آصف ہاشمی کو ان الزامات سے بری کر دیا تھاجبکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سب کمیٹی نے بعدازاں ریاض پیرزادہ کی سربراہی میں اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے آصف ہاشمی پر لگنے والے الزامات کی تردید کی۔اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں ہونے والے خصوصی آڈٹ میں بھی آصف ہاشمی کے موقف کودرست قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ ہائی کورٹ نے تیس دن تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے آصف ہاشمی کو پاکستان آنے اور تمام مقدمات کا سامنا کرنے کو کہا۔ فاضل عدالت نے تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے آصف ہاشمی کو پاکستان آنے کی اجازت مرحمت فرمائی لیکن حکومت پاکستان نے آصف ہاشمی کو پاسپورٹ ہی جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ دیکھنا اب چوہدری نثار علی خاں جیسے ذمہ دار اور بیباک سیاستدان کے لیے انتہائی ناگزیر ہو گیا ہے کہ قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر ریڈ وارنٹ کیسے اور کیوں
جاری کروائے گئے۔ دبئی سمیت پوری دنیا میں ہونے والی پاکستانی حکام کی سُبکی کا ذمہ دار کون ہے اور انہیں اس مجرمانہ غفلت اور کارکردگی کی کیا سزا دی جائے گی۔ تمام تحقیقاتی رپورٹس اور ایف آئی اے کی تحقیقات کی روشنی میں ذمہ داران کی بجائے صرف آصف ہاشمی کو انتقامی طرز عمل کا نشانہ بنانے کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما ہیں اور عدالت کی واضح ہدایات کے باوجود پاکستان میں موجود ڈاکٹر ایس ایم یعقوب اور ڈاکٹر نذیر سعید کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی گئی اور صرف آصف ہاشمی کے خلاف ریڈ وارنٹ کیوں جاری کروائے گئے؟ کیا اس لیے کہ ایک کا بیٹا بیورو کریٹ اور دوسرا سیکرٹری داخلہ شاہد خان کا قریبی دوست تھا؟ اور ان تمام حقائق کو سامنے لانا خود ان کی اور ان کی وزارت کی نیک نامی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چوہدری نثار علی خاں کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس ایف آئی آر کی کیا حیثیت ہو گی جس کے بارے میں خود ایف آئی اے بتا چکی ہے کہ متروکہ وقف املاک کی 202کنال اراضی ایف آئی آر درج کروانے والے گلاب سنگھ ہی کے قبضے سے واگزار کروائی گئی۔ بدنیتی پر مشتمل اس تمام کارروائی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور ان جیسے باخبر وزیر وزیر داخلہ کے ہوتے ہوئے غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر ریڈ وارنٹ کیوں جاری کئے گئے؟
آج کا مقطع
کُچھ سمت ہی سُوجھے‘ ظفرؔ‘ اِس تیرہ شبی میں
سورج نہیں ملتا تو ستارہ ہی بہت ہے