تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     28-09-2016

ناکامیوں میں سے کامیابی کا راستہ

آج '' دنیا ‘‘ میں یہ میرا آخری کالم ہے ۔کالم نویسی کو اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے ساتھ چھوڑنے کا ارادہ تھا۔ کوشش کے باوجود اب تک میں ''کائنات میں ایک آدم ‘‘ مکمل نہیں کر سکا۔ تین ہفتوں میں یہ مکمل ہو سکتی ہے ۔ اس کے بعد یہ چھپائی (Publishing)کے مراحل سے گزرے گی ۔ فیس بک اور ای میل پر بہت سے دوستوں کا کہنا ہے کہ بے چینی سے انہیں اس کا انتظار ہے ۔ معذرت چاہتا ہوں کہ یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ 
میں کوشش کروں گا کہ کم از کم آخری کالم میں آپ کو بور نہ کروں ۔ قارئین، دوستوں اور سب سے بڑھ کر میرے والد کا کہنا یہ ہے کہ میں کالم لکھنا نہ چھوڑوں ۔ میری شریکِ حیات چاہتی ہے کہ میں لکھنا نہ چھوڑوں ۔ فیس بک کے دوست میاں آصف علی عرف وسی بابا کا دلچسپ مشورہ یہ ہے ''استاد لکھنا نہ چھوڑو، یہ خلائی مخلوق والے کالم لکھتے رہو۔ کم از کم میں پڑھتا ہوں ، سمجھ آئے نہ آئے ‘‘۔ اس پر مجھے دنیا ایڈیٹوریل بورڈ کے سجاد کریم صاحب یاد آئے۔ جب کبھی عمار چودھری صاحب کی چھٹی ہوتی ، سجاد صاحب مجھ سے یہ دریافت کرتے ہیں '' چاند ستاروں والا کالم ہے یا سیاست والا؟ ‘‘ 
مذہب، زندگی ، انسانی جذبات و احساسات کے علاوہ ، جن سائنسی موضوعات پر میں لکھتا رہا ، ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔ کرئہ ارض پر بیتنے والی پانچ عالمگیر ہلاکتیں (Mass Extinctions) اور موجودہ زندگی پر ان کے اثرات،کششِ ثقل کائنات اور زندگی پر کس طرح اثر اندا زہوتی ہے ، زمین پر زندگی کا ارتقا،عظیم الشان بلیک ہول (Super Massive Black Holes)، انسان اورجانوروں کی دوسری انواع (Species) میں فرق ، کرّئہ ارض پہ چاند کے مثبت اثرات، انسانی ذہانت او راس کا ماخذوغیرہ وغیرہ۔ ایک آدھ بار انسانی جبلتوں کے مجموعے ،نفس کے بارے میں بھی لکھا ۔یہ وہ موضوعات نہیں ، قائدِ اعظم یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے والا ایک نوجوان جن پر اظہارِ خیال کر سکے ۔اگر ان چیزوں پر میں لکھتا رہاتو صرف اس لیے کہ ایک عظیم استاد پروفیسر احمد رفیق اختر سے مجھے واسطہ پڑا۔ جنید ،مقصود اورپروفیسر صاحب کے دوسرے شاگردوں سے بات ہو تو معلوم ہوتاہے کہ میں نے ابھی پڑھنا شروع ہی نہیں کیا۔میں تو آج تک ان کا مشہور لیکچر "Does a man think?" بھی نہیں سن سکا۔ پروفیسر صاحب کی تعلیمات کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ محبت سے اپنے رب کی طرف پلٹ رہے ہیں ۔ ہزاروں نوجوانوں کا تناظروسیع ہو اہے ۔ خدا کی تلاش میں علم اور عقل کی اہمیت انہوں نے واضح کی ہے ۔انہوں نے بتایا ہے کہ شدید احساسِ جرم (Guilt)کی بجائے ،خدا کی رحمت پر یقین رکھتے ہوئے ہمیں اسے پکارنا چاہئیے ۔ میری زندگی پر پروفیسر احمد رفیق اختر کا اثر اتنا گہرا ہے کہ میں اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں ۔ ایک ان سے ملنے سے پہلے اور دوسرا ملنے کے بعد۔ اس کے باوجود میں ان کا نمائندہ نہیں بلکہ بہت سے شاگردوں میں سے ایک شاگرد ہوں ۔
لکھنا مجھے میرے والد صاحب نے سکھایا۔ کالج کے دنوں میں جب پہلی بار انہیں لکھ کر دکھایا تو فل سٹاپ اورکامہ لگانا بھی نہیں آتا تھا۔ ابّا جان کا اصرار تھا کہ جب تک ادب نہیں پڑھو گے ، افسانہ، ناول اور شاعری میں جی نہیں لگائو گے ، اردو بہتر نہیں ہوگی ۔ میرے چچا محمد امین بار بار کہتے رہے کہ مطالعہ وسیع کرو، محدود موضوعات پر بار بار نہیں لکھنا چاہیے ۔ بچپن میں ترک دانشور او رمحقق ہارون یحییٰ کی کتابیں میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھی تھیں اور شفیق الرحمن کی بھی ۔ اب تو محدود سائنسی موضوعات کے علاوہ کچھ پڑھنے کو جی چاہتا ہی نہیں۔ 
پونے چار سال پہ محیط اس عرصے میں ، جو کچھ میں نے لکھا ،ا س میں اہم ترین نکات یہ ہیں: 1۔ انسانی عقل خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔کرّہ ء ارض پہ زندگی نے اگر اتفاقاًجنم لیا ہوتا تو لازماً پانچ ارب دوسری مخلوقات میں سے کوئی اور بھی ذہانت حاصل کر لیتی ۔ 2۔ ہر جاندار کواور ہر انسان کواپنی زندگی میں لازماً تکلیف سے گزرناہوتاہے ۔ میں بہت سے لوگوں سے ملا۔ امیر سے امیر اور غریب سے غریب ، متوسط طبقے کے لوگوں سے بھی۔ ہر ایک کی زندگی میں آزمائشیں تھیں؛لہٰذا یہ کہا جاسکتاہے کہ ہر انسان کو لازماً آزمائش سے گزرنا ہوتاہے ۔ 3۔ کرئہ ارض پہ جس قسم کا جسم اور دماغ ہمیں دیا گیا ہے ، جس قسم کے رشتے اور احساسات میں ہم بندھے ہوتے ہیں ، اس میں ہم اپنی زندگی کو ایک حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتے ، خواہ ہم دنیا بھر کی دولت اکھٹی کر لیں ۔ اس لیے کہ ہر انسان یکساں طور پر بیمار اور بوڑھا ہوتا ہے اور بہت سی کمزوریاں ہمارے جسم میں رکھی گئی ہیں ۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ ہماری یہ زندگی آزمائش کے لیے بنی ہے ، تفریح کے لیے نہیں ۔ 5۔ آزاد انسان وہی ہے ، جو اپنی خواہشات کا غلام نہیں ۔ 
ہر انسان کی زندگی مواقع (Opportunities)اور مسائل (Difficulties)کا ایک نادر مجموعہ ہوتی ہے ۔ ایک دانشورکا قول پڑھیے :Life is the most difficult exam. Many people fail because they try to copy others. Not realising that everyone has a different question paper۔ یہ بات بالکل درست ہے ۔ ہر انسان کی زندگی دوسروں سے الگ ہے ۔میں اگر اپنی مختصر سی کہانی بیان کروں تو بیس برس کی عمر میں گریجویشن کے دور میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں نے صرف دس ماہ میں اٹھارہ پارے حفظ کر لیے تھے ۔ میں نے سی اے میں داخلہ لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکا؛حالانکہ میں ذہین طالبِ علم تھا لیکن حالات سازگار نہیں تھے ۔ بعد ازاں قائدِ اعظم یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ۔ پھر اپنے شعبے میں ایک دو معمولی نوکریاں کیں اور چھوڑ دیں۔ میں صحافت میں آیا تو نہ صرف یہ کہ اپنے والد کا ہاتھ بٹایا بلکہ یہاں ہزاروں پڑھنے والوں کے ساتھ میرے رابطے قائم ہوئے ۔ بعد ازاں جب میں نے اپنے بھائی کے کنسٹرکشن کے کام میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو میرے پڑھنے والوں ہی میں سے کئی افراد نے کنسٹرکشن کے سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا۔ یوں آج تیس برس کی عمر میں ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میری زندگی کی سابقہ ناکامیاں بھی اپنی جگہ ضروری تھیں۔ خدا کی نظر میں ایک مکمل منصوبہ ہوتاہے ۔ ہماری نظر میں اس کا ایک مختصر سا حصہ۔ 
خیر، آج میں ''دنیا‘‘ کو خیر باد کہہ رہا ہوں ۔ جو احباب رابطہ رکھنا چاہیں ، وہ فیس بک اور ای میل پر بات کر سکتے ہیں ۔ facebook.com/bilal.urrashid۔ اللہ حافظ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved