یہ کتاب اکادمی بازیافت کراچی نے چھاپ کر اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی ہے‘ خوبصورت ٹائٹل اور عمدہ گیٹ کے ساتھ چھاپی گئی یہ کتاب شاعر کی اہلیہ عظمیٰ کے نام منسوب ہے۔ مبین مرزا ہمارے دوست ہیں اور ہمارے نامور دوستوں کی آراء اس پر درج ہیں جن کے نکتہ ہائے نظر سے مکمل اتفاق ہی ممکن ہے‘ مثلاً بزرگ ادیب احمد ندیم قاسمی کے نزدیک ''مبین مرزا کا سن دیکھتا ہوں اور پھر اس کی شاعری پڑھتا ہوں تو یقین ہی نہیں آتا کہ اس عمر میں قدرت کی طرف سے فکر کی یہ تگ و تاز اور خامیوں سے مبّرا کلام کی نعمت اسے کیسے ودیعت ہوئی ہے۔ درد اور کرب تو ہمارے معاشرے اور ہمارے عصر کی رگوں میں لہو کی طرح دوڑ رہا ہے‘ چنانچہ اس سے تو مفر نہیں‘ مگر مبین مرزا نے اس درد و کرب میں اپنی ذات کے حسن اور مادّی اور روحانی خوبصورتیوں کی طلب کی شدت کو جس سلیقے سے آمیخت کیا ہے وہ اس کے فنّی مستقبل کا ایک گراں بہا سرمایہ ہے‘‘۔
یاد رہے کہ یہ تحریر 1986ء کی ہے یعنی تیس برس پہلے ہی انہوں نے اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ پروفیسر سحر انصاری کے مطابق'' ہر تخلیقی انسان کی زندگی خواب اور حقیقت کے درمیان بسر ہوتی ہے۔ الفاظ کے جتنے بھی تصویری پیکر بنتے ہیں وہ اِسی تناظر میں اُبھرتے ہیں۔ مبین مرزا کی مجموعی شاعری ایک خاص تاثر مرتب کرتی ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اپنے عہد کی عکاس ہیں۔ اندازہ ہو سکتا ہے کہ مبین مرزا نے نظم اور غزل کے پیرائے میں زندگی کی کیسی لطیف اور نازک حقیقتوں کو تخلیقی گرفت میں لیا ہے۔ مبین مرزا شاعری کے رموز سے واقف ہیں اور انہوں نے اپنے اس شعری مجموعے میں اسے سلیقے اور ہنرمندی سے برتا ہے۔ مبین مرزا کی شاعری کی یہ کتاب تازہ کاری کی ایک عمدہ مثال ہے اور تخلیق کے کئی انوکھے زاویے رکھتی ہے‘‘۔
ہمارے یار غار ڈاکٹر تحسین فراقی کے بقول ''ان غزلوں میں دوپہر کی دھوپ نہیں‘ جھٹپٹے کا ملگجا پن ہے اور اہل دل جانتے ہیں کہ شام کا یہ ملگجاپن‘ دن اور رات کا یہ برزخ کتنا اداس کر دینے والا ہوتا ہے۔ یہ شاعری تیز بارش کا جھالا اپنی شبنم کی لطافت اور بے زبانی سے عبارت ہے‘ ایسی بے زبانی جو کچھ نہیں کہتی مگر بہت کچھ کہتی ہے یہ حواس کو گرفت میں لیتی ہے اور دل میں میٹھے درد کا جادو جگاتی ہے‘‘۔
''ان نظموں نیز غزلوں کا خالق ایک ایسے شاعر کی صورت میں ظہور کرتا ہے جس کی شخصیت خوب منجھی اور کڑھی ہوئی ہے ‘جو انسانوں اور تہذیبوں کا ہمدرد ناظر ہے‘ جو عشق کو ایک آرزو انگیز اور انقلاب خیز قوت سمجھتا ہے اور شکست خواب کے باوجود خواب دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے کہ خواب ہی دراصل سچے ادب و تمدن کے نقش گر اورنقش بند ہوتے ہیں اور تاریخ کو ایک نئی کروٹ اور نئے فلسفے کا آہنگ دیتے ہیں‘‘ ۔انہی پر بس نہیں‘ ڈاکٹر شمیم حنفی اور ڈاکٹر عرش صدیقی جیسے نامور نابغوں کی تحسینی آرا بھی سرورق کے اندر باہر جگمگا رہی ہیں۔ ایسے جید علما کے بعد میرے جیسے کالم نویس کی رائے کو سنجیدگی سے کم ہی لیا جائے گا۔ تاہم میرے ناقص خیال کے مطابق مبین مرزا جو کم و بیش نصف صدی سے اس کارخیر پر کاربند ہیں‘ اگر اپنے آپ کو اپ ڈیٹ بھی کرتے رہتے تو ان کے اور ہمارے حق میں مزید بہتر ہوتا کیونکہ جدید طرز اظہار ان کے شعری اوائل ہی سے برسرکار ہے اور جس نے شاعری کے رُخ ہی کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ اس لیے بھی کہ اسے بروئے کار لانے سے شاعری کو ایک طرح کی تازگی ارزانی ہوتی ہے۔ میں اُس وقت کے مروجہ طرزو روش کا مخالف نہیں ہوں کیونکہ اساتذہ نے سارے پھول اسی کی مدد سے کھلائے ہیں۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جدید طرز اظہار کو بروئے کار لاتے ہوئے مصرع بنانے کا طریقہ کار بھی خاصی حد تک تبدیل ہو جاتا ہے۔ شعر میں پوری بات کہنے کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ اشارے کنائے اور آدھی بات کہنے کا چلن عام ہوتا ہے‘ حتیٰ کہ بات بعض اوقات آدھی بھی نہیں کہی گئی ہوتی اور شعر ختم ہو جاتا ہے۔ ایک ناقص دلیل کے طور پر میرا ایک شعر ہے ؎
وہ کسی کے پاس رُکنے اور ٹھہرنے میں کہاں
جو مزہ نزدیک سے ہو کر گزر جانے میں ہے
اسی لیے میں بات اور موضوع کی نسبت پیرایۂ اظہار کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ ضروری نہیں کہ یہ باتیں صحیح بھی ہوں کہ میں تو اس طریقہ واردات کا ذکر کرتا ہوں جو میری نام نہاد شاعری میں پایا جاتا ہے‘ یا اس طرح کی ایک کوشش کہیں کہیں ضرور نظر آتی ہے اور میں اس کی ترغیب اس لیے بھی نہیںدیا کرتا کہ اس میں متنازعہ ہو جانے کا امکان زیادہ رہتا ہے اور پختہ کار شاعروں کو شاید اس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کہ ان کا کام اگر چل رہا ہے تو انہیں کیا پاگل کُتے نے کاٹا ہے جو وہ اتنے رسک لیتے پھریں۔ واضح رہے کہ جب میں روایتی شاعری کی بات کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ مکھّی پر مکھّی مار کہ ٹریش شاعری ہوتی ہے جس کے ہمارے گردنواح میں ڈھیر لگائے جا رہے ہیں۔ مجھے ایسے خیالات پر مار بھی بہت پڑتی ہے لیکن میں باز پھر بھی نہیں آتا۔ اُمید ہے اس کے لیے مجھے اللہ میاں بھی معاف کر دیں گے اگرچہ اس کا امکان کم ہے اور اب مبین مرزا کے چند شعر :
میں ایک دشت تھا خود اپنے ہی سراب میں گم
بس ایک موج نے دریا بنا دیا ہے مجھے
ہر خواہش سے منور تھا جو اِک گوشہ دل
اس جزیرے میں بھی اب شام ہوئی جاتی ہے
میں دن بھر پہلے اس دُنیا کی جولانی میں رہتا ہوں
مگر پھر رات بھر دل کی بیابانی میں رہتا ہوں
زیادہ تذکرہ میرا ہے اس میں
اگرچہ یہ کہانی ہے تمہاری
ہے منتظر کوئی آگے نہ کوئی ساتھ مرے
رواں ہوں جس پہ وہ رستہ کہیں نہیں جاتا
خبر ہے مار ڈالے گی مجھے آخر یہ خاموشی
میں کہنا چاہتا بھی تھامگر کہہ بھی نہیں سکتا
میں خاک عشق ہوں‘ میرا نصیب دربہ دری
گلہ زمیں سے نہ شکوہ ہے آسماں سے مجھے
مجھے یہ دکھ ہے زمیں آسماںبنا کر بھی
میں دربدر ہوں خود اپنا جہاں بنا کر بھی
وہاں سے اب واپسی نہیں ممکن
آگے بھی رہ گزر کوئی نہیں ہے
مبین مرزا کی نظم کے بارے میں کچھ کہنے سے اس لیے معذور ہوں کہ یہ میری استعداد سے باہر ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں غزل میں کوئی سند کا درجہ رکھتا ہوں کہ باقی شعرا کی طرح مجھے بھی اپنی پسند کا شعر ہی اچھا لگتا ہے‘ جس پسند کے حوالے سے کئی سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ مبین مرزا کو اس کتاب پر دلی مبارکباد‘ اُمید ہے کا اگلا مجموعہ اس سے بھی بہتر ہو گا کیونکہ وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں۔
اور آخری بات یہ ہے کہ پیرایۂ اظہار کوئی بھی ہو‘ غزل کے شعر کو تازہ اور خوش مزہ ہونا چاہیے۔
آج کا مطلع
ترے لبوں پہ اگر سرخیٔ وفا ہی نہیں
تو یہ بنائو‘ یہ سج دھج تجھے روا ہی نہیں