تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-09-2016

فورتھ جنریشن وار

1965ء کی طرح بھارت ایک بار پھر اپنی مرضی کا محاذ منتخب کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، اس لئے ہر ذمہ دار کو اپنی اپنی جگہ جاگتے رہنا ہو گا۔ 'فورتھ جنریشن وار‘ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی پاکستان کے خلاف وہ خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جس کے تحت فوج اور عوام میں دوریاں اور نفرتیں پیدا کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے اس طرح مدمقابل لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ 90 فیصد عوام کو پتا ہی نہیں چل رہا کہ دشمن انہیں اپنے گھنائونے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال موٹر وے پولیس اور ایس ایس جی کے کیپٹن کا وہ حالیہ جھگڑا ہے جو مخصوص الیکٹرانک میڈیا ہائوسز اور سوشل میڈیا کے ذریعے لمحوں میں پھیلایا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے ان کمانڈوز کا تعلق کسی دشمن ملک سے تھا۔ ان میں وہ میڈیا گروپ پیش پیش تھا جو امن کی آشا کے بتوں کے گرد ناچ ناچ کر اپنے محبوب کو خوش کرتے ہوئے بے حال ہوا جا رہا ہے۔
عوام کو اپنی فوج کے خلاف کسی بھی خبر پر یقین کرنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ فورتھ جنریشن وار میں سب سے پہلے ہدف بنائے جانے والے ملک کا میڈیا خریدا جاتا ہے‘ پھر اس میں چن چن کر ایسے افراد کو بٹھایا جاتا ہے جو مختلف طریقوں سے عوام میں مایوسی اور ذہنی خلفشار پھیلانے کے ماہر سمجھے جاتے ہوں۔ ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فوج پر سے عوام کا اعتماد اٹھا دیں۔ یہی حربہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں استعمال کیا تھا‘ جس کا تذکرہ ایک بھارتی جنرل نے اپنی کتاب میں یہ کہتے ہوئے کیا: ''ہم اپنے فوجیوںکو پاکستانی وردی پہنا کر بنگالی عورتوں کا زبردستی ریپ کرواتے اور پھر انہیں بھگا دیتے۔ بنگالی یہی سمجھتے کہ یہ پنجابی فوجی تھے‘‘۔ جس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے موٹر وے کے واقعے کو نمک مرچ لگا کر پیش کیا گیا، اسے Fourth generation War کہا جا سکتا ہے‘ جو نہایت خطرناک جنگی حکمت عملی کہلاتی ہے (یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پابندی عائد کی ہے کہ فوج سے پوچھے بغیر اس کے بارے میں کوئی خبر نشر نہیں کی جا سکتی)۔
فوج اور عوام میں دوریاں پیدا کرنے کا آغاز جنرل مشرف کے خلاف ''آزاد عدلیہ‘‘ کے نعروں کے ذریعے کیا گیا۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں کالی پٹی باندھ کر کی جانے والی تقریر کون بھول سکتا ہے؟ جس میں انہوں نے بھارت کو 1949ء، 65ء، 71ء اور 1999ء کی جنگوں کا فاتح قرار دیتے ہوئے پاکستانی فوج کو مٹی کا ڈھیر قرار دیا تھا۔ یہ ایک حربہ تھا جس کے ذریعے عوام کو یہ بتاتے ہوئے فوج سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی کہ تمہاری بھوک اور افلاس کی وجہ ہم سیاستدان نہیں‘ بلکہ یہ فوج ہے جو ملک کا سارا بجٹ اکیلے ہی کھا جاتی ہے۔
جان لیجیے کہ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرحدیں 3600 کلومیٹر طویل ہیں‘ اور جس کی ان سرحدوں پر آج بھارت کی کم از کم 8 لاکھ فوج جدید اور تباہ کن اسلحے سے لیس‘ کھڑی للکار رہی ہے اور جسے امریکہ کی بھرپور مدد حاصل ہے کیونکہ آج امریکہ پاکستان کے خلاف بھارت کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ 
جنرل مشرف کی حکومت کے خلاف فورتھ جنریشن وار کے لیے امریکہ اور بھارت نے مشترکہ طور پر کردار ادا کیا‘ اور کہا جاتا ہے کہ ظاہری طور پر ملک بھر کے وکلا کو سہانے خواب دکھاتے ہوئے میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس تحریک کے ذریعے چھ ستمبر‘ یوم دفاع پاکستان کو وکلا کے ذریعے یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہوئے ملک بھر کے وکلا کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے دفاتر اور تمام عدالتوں پر سیاہ جھنڈے لہرائیں۔ اس دن ستمبر کے شہدا کی روحیں کس قدر تڑپی ہوں گی اس کا اندازہ شاید ہمارے وکلا کو آج تک نہیں ہو سکا۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جناب والا ''کدھر ہے وہ آزاد عدلیہ اور ماں جیسی ریاست؟‘‘۔ اگر ہمارے وکلا اور عوام بھول چکے ہیں تو انہیں یوگوسلاویہ، عراق، شام اور لیبیا کا انجام سامنے رکھنا ہو گا‘ جہاں بالکل اسی طرح عوام کو فوج کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا۔
امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کی اس مشترکہ فورتھ جنریشن وار کے ذریعے صوبائیت اور فرقہ پرستی کو زیادہ سے زیادہ ہوا دی جاتی ہے۔ اپنے ہی آدمیوں کے ذریعے مسلکی اور لسانی فسادات کروائے جاتے ہیں۔ اس کے ثبوت اب گرفتار کئے گئے پچاس سے زائد ان ٹارگٹ کلرز کے ذریعے پورے پاکستان کے سامنے آ چکے ہیں کہ کس طرح ایک ہی گروہ سے ایک دن کسی شیعہ عالم یا ڈاکٹر کا قتل کرایا جاتا‘ تو اگلے دن دیو بندی فرقے کے کسی عالم کو قتل کرا دیا جاتا۔ قاتل ان دونوں کے جنازوں میں شامل ہوتے‘ لیکن جنازوں کے جلوس میں شامل لوگوں سے گالیاں ایک دوسرے کو دلوائی جاتیں تاکہ نفرت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے۔
امریکی صدر اوباما نے چھپ کر نہیں بلکہ سب کے سامنے اقرار کیا ہے کہ امریکہ پاکستانی میڈیا پر پچاس ملین ڈالر سالانہ خرچ کر
رہا ہے۔ اب آپ ایک ڈالر کو 105 سے ضرب دے کر دیکھ لیں‘ بآسانی اندازہ ہو جائے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اور پھر خود ہی ٹی وی پروگرام دیکھنے کے بعد اندازہ کر لیں کہ یہ ڈالر کہاں جا رہے ہیں اور کن کن کو جا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے امریکہ سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کہ یہ پچاس ملین ڈالر آپ پاکستان میں اپنے کن دوستوں کو کن مقاصد کے لیے ادا کر رہے ہیں؟ اور وہ بھی ہر سال۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم امریکہ کی فورتھ جنریشن وار کی براہ راست زد میں ہیں اور نہ جانے کب سے۔ فورتھ جنریشن وار کا سب سے زیادہ انحصار ''ڈس انفارمیشن‘‘ پر ہوتا ہے‘ جس کے ذریعے نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت ایس ایس جی کے کیپٹن اور موٹر وے پولیس کے اہلکار کی لڑائی کی صورت میں حال ہی میں دیکھا گیا کہ کس طرح لمحے بھر میں سوشل میڈیا پر فوج کو رگیدنا شروع کر دیا گیا تھا۔ کیا کسی حکومتی اہلکار نے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی؟ کسی نے فوج کا دفاع کرنے کے لیے جھوٹ بولنے والوں کو جواب دیا؟ حکومت سے ایسی امید رکھنا فضول ہو گا‘ اس لیے پاکستانی عوام کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور خود کو ہر وقت تیار رکھنا ہو گا‘ کیونکہ دشمن کے پاس فورتھ جنریشن وار کے لیے طاقت، وسائل اور ہر سال پچاس ملین ڈالر ہیں‘ جس کا مقابلہ صرف قوت ایمانی اور وطن سے سچی محبت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved