آزمائش کے یہ دن گزر جائیں گے ۔ پاکستان انشاء اللہ سرخرو ہوگا۔ امت کے دردمند اقبالؔ ؒ نے، کھرے اور سچے محمد علی جناحؒنے ، اس کی بنیادیں استوار کی تھیں.....ہم سب لیکن اب عرصہ ء امتحان میں ہیں ۔ رہگزرِ سیلِ بے پناہ میں ہیں ۔
مکّہ مکرمہ کی شاہراہ خالد بن ولید اور عزیزیہ کے علاقوں میں جب مسافر نے پہاڑ کھودنے کا منظر دیکھا تو سرکارؐ کو یاد کیا۔ پہاڑ کاٹے جاتے ہیں ۔
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
آپؐ نے مگر فرمایا تھا کہ اس دیار کے کوہسار کھود ڈالے جائیں گے ۔جی ہاں ، زیرِ زمین ، گہری ، دو تین منزلیں بنانے کے لیے ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: عرب قیامت سے پہلے سرسبز ہو جائے گا ۔ فجر کی نما زکے بعد منیٰ کی پہاڑیوں سے اترا اور کراچی کے ڈیفنس ایسا منظر۔ گنگ مسافر وہاں کھڑا رہا۔ پھر حجاز میں مقیم رہنے والے ، پاکستانی یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے آپؐ کا فرمان یا ددلایا : ننگے پیروں والے عالیشان عمارتیں بنائیں گے ۔ صحرا سے ان کا مالک مکان کرایہ وصول کرنے آیا تو پائوں میں جوتے نہیں تھے ۔
فرمایاتھا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا ، جب تک کسریٰ کے محلات پر قبضہ کرو گے ۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب کسریٰ کے محلات کو جا لو گے ۔ ستر اونٹنیوں کا انعام پانے کے لالچ میں شتر سوار سراقہ لپک کر آیا، ہجرت کے سفر میں ۔ قریب پہنچا تو اسپ کے پائوں جیسے زمین میں گڑگئے ۔ خوش بخت تھاکہ ایمان لایا۔ فرمایا: سراقہ، اس وقت تیرا کیا حال ہوگا ، جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ سیدنا فاروقِ اعظم ؓ نے اپنے ہاتھوں سے پہنائے اور کہا : تم اللہ کے رسولؐ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہو۔
ایک ایک کر کے سب فرمان سچے ہوئے ۔باقی پورے ہوں گے۔ برصغیر میں اسلام کے وجود ہی نہیں ، اس کے عروج کی بشارت بھی دی تھی ۔ ارشاد کیا تھا کہ ہند کے مسلمان مشرکین کے امرا کو گرفتار کریں گے ، پھر دمشق میں ابنِ مریم ؑ کے ساتھ مل کر یہودیوں کا مقابلہ کریں گے ۔ رحمتہ اللعالمینؐ سے جیسی محبت اس دیار کے مسلمانوں کو ہے ، کسی کو نہیں ۔ فرمادیا تھا کہ ہند کے ساحلوں سے انہیں خوشبو آتی ہے ۔ سب سے زیادہ فصیح پیمبرؐ نے ''خوشبو‘‘ کا لفظ کیا یونہی برتا تھا؟دوسرے ترک ہیں ۔ صدیوں تک ہر عرب حکمران پر ، آدھی دنیا پر جن کا اقتدار تھا، قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا ولولہ سوار رہا۔ سلیمان بن عبد الملک نے تو یہاں تک کہہ دیا : خدا کی قسم قسطنطنیہ تسخیر کروں گا یا جان دے دوں گا ۔ یہ اعزاز مگر ترکوں کے نصیب میں تھا ، جن کے پورے لشکر کو جنت کی بشارت دی ۔ غزوہ ہند کی تمام سپاہ کو بھی، جو ابھی باقی ہے ۔
اکیس برس ہوتے ہیں ، محمد عظیم نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک خواب اس نے دیکھا تھا۔ کہوٹہ کی ایٹمی لیبارٹری میں گوروں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ نواحِ اسلا م آباد کے دریائے سواں تک آگئے ۔ اسی نواح میں یہ عاجز مقیم تھا اور محمد عظیم بھی ۔ وہاں سرکارؐ کو اس نے دیکھا۔ سپاہیوں والا خود آپ نے پہن رکھا تھا۔ سیدنا عمر ابن خطابؓ اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ ان کے دائیں بائیں کھڑے تھے ۔ فرمایا: مشرکین کو مدینہ میں ہم داخل نہ ہونے دیں گے اور غزوہ ہند میں فوج کے سربراہ خالد بن ولید ؓ ہوں گے ۔ محمد عظیم نے کہا : یا رسول اللہ ؐ امیر المومنین عمر ابن خطابؓ کیوں نہیں ۔ ارشاد فرمایا: وہ میرے مشیر ہوں گے ۔ پوچھا : جناب علی ؓ کیوں نہیں ۔ ارشاد کیا: وہ خالد بن ولیدؓ کے مشیر ہوں گے ۔ وہاں سے گزر کر میں گوجر خان جاتا ہوں ۔
گوجر خان میں ایک شب عارف نے اچانک کہا: اللہ نے اپنے مقصود کو پا لیا ۔ہم سے اب وہ کیا چاہتا ہے ؟ عرض کیا: اللہ کے بندے تو اسے یاد تک نہیں کرتے ۔ فرمایا: نہیں ، رحمتہ اللعالمین ؐ کی شکل میں ۔ خالقِ ارض و سما نے چاہا کہ ارادہ و اختیار کے ساتھ بندے اس سے محبت کریں ۔ سرورِ عالمؐ نے یہ کر دکھایا اور اس طرح کر دکھایا کہ مالک نے خود گواہی دی ۔ دونوں جہانوں کی رحمت کہا، سراجاً منیرا کہا ، دمکتا ہوا سورج ۔ سرورِ کا ئناتؐ سے جتنی ، جس نے محبت کی ، اتنا ہی اس کا ایمان کامل ہے ۔ ایمان کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے ہر فرمان کو مانا جائے ۔ احادیث کا منکر بھی مسلمان کہلاتا ہے مگر نام کا مسلمان ۔ اللہ معاف کرے، ہم بھی خطاکار ہیں ، دانشوروں کو میں نے رسوااور خاک آلود دیکھا ہے ، احادیث پر جو ایمان نہیں رکھتے۔ ان کے مقدر میں اضطراب ہے اور فکر و نظر سے محرومی ۔
اس عالمِ دین پرشاعر منیر نیازی ؔ کو یہ طالبِ علم ترجیح دے گا، سرکارؐ کے مقام و مرتبے سے جو آشنا نہیں ۔اس نے کہا تھا۔
فروغِ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ
قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو
اور ظاہر ہے کہ اسد اللہ خان غالبؔ کو
غالبؔ ثنائے خواجہ ؐ بہ یزداں گذاشتم
آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
خوف بھارت سے نہیں ۔ اپنی بد اعمالیوں سے ہے ۔ اخلاق سے تہی دامن ، علم سے بیگانہ اور دنیا کی محبت ۔ ارشاد کیا تھا : مجھ سے جو محبت کرتاہے ، وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے ۔ سیاست کا بازار کوڑے کا ڈھیر ہو گیامگر تاجروں اور صنعت کاروں کا حال کیا ہے ؟ ملّا کا عالم کیاہے ؟ میڈیا کا معاملہ کیا ہے؟...اور بھاڑے کے وہ ٹٹو ، جو دانشور کہلاتے ہیں۔
کوئی مشتری ہو تو آواز دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
وعدہ تو پورا ہوگا۔ صادقؐ اور امینؐ کا پیمان ہے ۔ مگر ہم ریاکاروں کا کیا ہوگا، بندہ ہائے درہم و دینار کا؟فتنہ آخر الزماں کے باب میں ارشاد یہ ہے کہ فقط دو ہی خیمے باقی رہ جائیں گے ۔ ایک کفر کا او ردوسرا اسلام کا ۔
ملحد سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ۔ کل وہ سویت یونین کے بندے تھے ، آج امریکہ بہادر کے ۔ خواہ وہ برہمن کا گیت گائیں یا پاکستان کو گالی دیں ۔ اللہ کے نام پر قتل و غارت کرنے والے زیادہ خطرناک ہیں ۔ آپؐ کاارشاد یہ ہے کہ ایک تہائی دجال سے جا ملیں گے ۔ ایک تہائی دجال کے خلاف لڑیں گے اور ہار جائیں گے ۔ وہ فاسق ہوں گے ۔ پھر ایک تہائی اٹھیں گے اور غلبہ پائیں گے ۔
جی ایچ کیو میں دو تین بار نمازِ جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ عبادت کا ذوق و شوق دیکھا تو سپاہیوں میں دیکھا ۔ سب میں نہیں ، بعض میں ۔ پاکستانی فوج مثالی ہرگز نہیں ۔ بعض کے دماغ میں فتور ہے ۔ سامنے کی یہ بات کچھ کی سمجھ میں نہیں آتی کہ سول اداروں کے بغیر ملک اور معاشرے تعمیر نہیں ہوتے ۔ کچھ کو ہیرو بننے کا ہوکا ہے ۔ سول اداروں کو بے شک سیاستدانوں نے برباد کیا ۔ تعلیم کو ، علاج گاہوں کو۔ پولیس اور ٹیکس وصول کرنے والوں کو بدعنوان کر دیا۔ عسکری قیادت کو مگر احساس ہونا چاہئیے کہ خارجہ پالیسیوں کی تشکیل میں دفتر، خارجہ کا کردار غالب نہ ہوگا تو ان کی پوری صلاحیت کبھی بروئے کار نہ آئے گی ۔ملک کا بھلا نہ ہوگا۔ پاک فوج بے شک ایک قابلِ فخر ادارہ ہے ۔ عمارت مگر ایک ستون پر قائم نہیں ہوتی، خواہ وہ کتنا ہی مضبوط ہو۔
بھارت کا احسان ہے کہ نئی نسل کو دو قومی نظریہ آج اس نے سمجھا دیا۔ الطاف حسین کی عنایت کہ سیاسی خودکشی کر لی ۔ اچکزئی کا شکریہ کہ اب ان کے خلاف دلائل دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ امن بجاکہ نجابت کی دلیل ہے لیکن اس کے نام پر برہمن اور مغرب کے گیت گانے والوں سے، اللہ کا شکر ہے کہ بھارت نے آج ہمیں چھٹکارا دلا دیا۔
آزمائش کے یہ دن گزر جائیں گے ۔ پاکستان انشاء اللہ سرخرو ہوگا۔ امت کے دردمند اقبالؔ ؒ نے، کھرے اور سچے محمد علی جناحؒنے ، اس کی بنیادیں استوار کی تھیں .....ہم سب لیکن اب عرصہ ء امتحان میں ہیں ۔ رہگزرِ سیلِ بے پناہ میں ہیں ۔