راہداری منصوبہ سی پیک پر سینٹ کی سپیشل کمیٹی نے اپنی خصوصی رپورٹ میں اس پر مزید سوال اٹھائے ہیں۔ کمیٹی نے جس کا اجلاس پارلیمنٹ میں ہوا گوادر بندر گاہ کو ''نان سٹارٹر‘‘ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ منصوبے کا مغربی روٹ‘ جو برہان ‘ہکلا‘ ڈی آئی خان‘ ژوب‘ کوئٹہ ‘ سہراب بسما‘ پنجگور‘ تربت اور گوادر پر مشتمل ہے‘ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر نے بتایا کہ اجلاس میں اس کے لیے مزید سفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں جو کمیٹی کی فائنل رپورٹ میں شامل کی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ گوادر پر کام کرنے کی بجائے حکومت کراچی پورٹ کو اپ گریڈ کرنے پر توجہ دے رہی ہے اور گوادر پورٹ کے بارے میں حکومت کے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ متفقہ مغربی روٹ کی ڈبل لین موٹر وے جو کہ ضرورت سے تنگ تر ہو گی اور جو گوادر تک جائے گی‘ کے علاوہ گوادر کی گہری برتھیں ابھی تک شروع ہی نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ موقع پر یہ شواہد موجود ہیں کہ جن کے مطابق متفقہ مغربی روٹ کو وزیر اعظم کی یقین دہانی کے بعد بھی کوئی ترجیح نہیں دی جا رہی ‘جبکہ مشرقی روٹ پر پشاور کراچی مین لائن ون ریلوے پر کام بہت تیز رفتاری سے جاری ہے جبکہ مشرقی روٹ کی 6لائن موٹر وے بہت جلد مکمل ہونے والی ہے۔
کمیٹی نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ چین کی جوائنٹ کوآر ڈی نیشن کمیٹی اور پاکستان نے جو اہم فیصلے کیے تھے ان پر نہایت راز داری سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی اطلاعات
موجود ہیں کہ جے سی سی نے متفقہ مغربی روٹ کو اپنے پروگرام سے خارج کر دیا ہے اور کمیٹی کی طرف سے بیان کئے گئے زمینی حقائق بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وزارت پلاننگ و ڈویلپمنٹ‘ کمیٹی کو جے سی سی کے ایم او یو اور کارروائی کی تفصیل سے آگاہ کرے۔ کمیٹی چیئرمین نے بتایا کہ مغربی روٹ ڈی آئی خان اور بلوچستان سے آگے تعمیر نہیں کیا جا رہا اور 124بلین روپے جن کا برہان ڈی آئی خان سیکشن کے لیے اعلان کیا گیا تھا‘ وہ پنجاب میں خرچ کیا جا رہا ہے جیسے یہ سیکشن اس صوبے میں واقع ہے اور اس سیکشن کے ذریعے صوبہ پختونخواہ کو مکمل طور پر بائی پاس کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے اس رکاوٹ کا نوٹس بھی لیا جو ڈی آئی خان اور ژوب کے درمیان چٹان کی صورت میں موجود ہے اور اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان سے گزرنے والی موٹر وے پر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی اس پر خاموش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا کوئی متبادل بھی موجود ہے؟ اور اس انتہائی قابل عمل انجینئرنگ کا حل نکالنے میں مزید کتنا عرصہ لگے گا۔ کمیٹی نے قرار دیا کہ اس واحد رکاوٹ کی قربانگاہ پر اس منصوبے کو نہیں چڑھایا جا سکتا۔ انہوں نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ہدایت کی ہے کہ اس رکاوٹ میں سے موٹر وے کو گزارنے کے لیے ایک واضح پلان پیش کرے۔ کمیٹی نے اس امر
پر افسوس کا اظہار کیا کہ متفقہ مغربی روٹ پر کوئی پاور پلان تجویز نہیں کیا گیا تاہم جو پاور پلان اس منصوبے میں شامل کیے گئے ہیں وہ متفقہ مغربی روٹ سے بہت فاصلے پر ہیں۔
بڑے اور اہم معاملات پر حکومت کس قدر سنجیدہ ہے‘ اس کا ایک اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مولانا فضل الرحمن کو لگا رکھا ہے جو انگریزی زبان کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہیں۔ شاید حکومت کا خیال یہ ہو کہ غیر ملکی عمائدین ان کے تن و توش سے ہی اندازہ لگا لیں گے کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح حکومت جو20ارکان اسمبلی کو دنیا بھر میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے بھجوا رہی ہے‘ وہ اس کا کماحقہ ادراک ہی نہیں رکھتے۔ جبکہ اس کا مقصد آئندہ الیکشن میں مدد حاصل کرنے کے لئے ان حضرات کا محض سیر سپاٹا پیش نظر ہے‘ ورنہ حق تو یہ تھا کہ اس کے لیے کسی منتخب تھنک ٹینک کو بھجوایا جاتا جبکہ نہ صرف یہ کہ ملک کا کوئی بااختیار وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں پاکستان کی سفارتی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ جب وزیر اعظم جنرل اسمبلی میں تقریر فرما رہے تھے تو امریکی قانون ساز پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی قرار داد پیش کر رہے تھے۔ ہمارے منہ پر اس سے بڑا سفارتی طمانچہ شاید اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ عالم یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں پاکستان کا کوئی لابسٹ ہی نہیں ہے جبکہ بھارت کے لاتعداد لابسٹ وہاں دن رات پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ بات انہی کالموں میں عرض کی جا چکی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم کی طرف سے سفارت کار افسروں کی جو کھیپ منتخب کر کے بھیجی گئی ہے اُن کا میرٹ صرف صاحب موصوف کا ذاتی تعلق اور پسند پر مبنی تھا۔ واضح رہے کہ دوران تقریر سماعت کرنے والوں معززین کی تعداد بھی خاصی پتلی تھی اور وزیر اعظم اسی پر مطمئن تھے کہ انہوں نے اپنی کم سن نواسی کو اگلی نشستوں پر بٹھوا دیا جبکہ امریکہ کے ایک سابق صدر اور اوباما کی اہلیہ گیلری میں بیٹھے تھے سرکاری میڈیا ٹیم کی بدحواسیوں کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ راہداری منصوبہ وقت پر مکمل ہوتا ہے یا نہیں‘ وزیر اعظم کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ ان کا مقصد اورنج لائن ‘ میٹرو بس اور اس منصوبے کے نام پر اگلا الیکشن جیتنا ہے جبکہ اس منصوبے کو پروگرام کے مطابق بھی بہت بعد تک جاری رہنا ہے۔ وزیر اعظم کا سارا زور چونکہ پنجاب پر ہے اس لیے نہ صرف یہ کہ جن امور پر اتفاق کیا گیا تھا اور جس کے بارے واویلا مچنے پر
انہوں نے یقین دہانی کروائی تھی ‘ اس سے بری طرح صرف نظر کیا جا رہا ہے اور متفقہ مغربی روٹ کو بری طرح نظر انداز کر کے سارا زور اور ساراروپیہ پیسہ مشرقی روٹ پر ہی خرچ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ کے پی کے اور بلوچستان والے اس بے انصافی پر متعدد بار شور مچا چکے ہیں اور اب بھی اس پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن وہی ڈھاک کے تین پات ۔ نہ ہی ان کی بات سنے جانے کا کوئی امکان ہے اس منصوبے کے ساتھ وزیر اعظم کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ معروضی اور زمینی حقائق کے مطابق یہ منصوبہ دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں؛ حتیٰ کہ بھارت نے اس کے لیے فنڈز بھی مخصوص کر رکھے ہیں کچھ عرصہ پہلے آرمی نے پیش کش کی تھی کہ اس کے معاملات ایک اتھارٹی کے حوالے کر دیے جائیں تو دشمنوں کے عزائم ناکام بنائے جا سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم نے اس سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ وہ الیکشن کی خاطر اس منصوبے کا سو فیصد کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں اور اس میں فوج سمیت کسی کو شریک کرنے کے روادار نہیں ہیں اور مشرقی روٹ کے حوالے سے جو پُراسرار راز داری سے کام لیا جا رہا ہے وہ بھی اس لیے ہے کہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ جو زیادتی ہونے جا رہی ہے وہ قبل از وقت ظاہر نہ ہو جائے۔
آج کا مقطع
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اُصول اُس نے ‘ ظفر
کتنا چالاک تھا‘ مارا مجھے تنہا کر کے