تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     30-09-2016

ڈاکٹر اور ڈاکٹری

زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ پاکستان کے ہر محلے میں ایک نہ ایک ایسا 'ڈاکٹر‘ ہوا کرتا تھا جو علاقے بھر کے لوگوں کو طبّی مسائل میں پہلا مشورہ دیا کرتا تھا۔ ان ڈاکٹروں کے پاس ڈاکٹری کی سند تو نہیں ہوتی تھی مگر کہیں کمپاؤنڈر رہ کر ،سرکاری ہسپتالوں میں کسی ڈاکٹر کے معاون ہو کر یا اپنے جیسے ہی کسی 'سینئرڈاکٹر‘ کی شاگردی میں یہ لوگ عام بیماریوں کا علاج، زخموں کی مرہم پٹی اور انجکشن وغیرہ لگانے میں مہارت حاصل کرلیتے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنی تعلیم سے غفلت برتی تھی ، بلکہ معاملہ یہ تھا کہ جب پاکستان بنا تو اس وقت صرف دو میڈیکل کالج اس کے حصے میں آئے اور ظاہر ہے ایسے حالات میںجبکہ دور دراز آمدورفت کے ذرائع بھی نہ ہوں تو فنّی نوعیت کی تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ استادی شاگردی کے روایتی طریق کار سے نکلے ہوئے ان لوگوں کی پیشہ ورانہ خصوصیت تھی کہ یہ اپنے محلوں میں ہی پریکٹس کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے ممکنہ مریضوں کے کھانے پینے، رہن سہن اور وراثتی بیماریوں سے پوری واقفیت ہوتی تھی، گویا ان کا سماجی میل جول بھی ان کی معلومات کا ذریعہ ہوتا تھا۔ انہی معلومات کی روشنی میں وہ اپنے پاس آنے والے مریضوں کو ہلکی پھلکی دوائیاں دیتے اور کچھ سمجھ میں نہ آتا تو اسے قریبی ہسپتال روانہ کردیتے۔اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ہلکی پھلکی بیماری کا بروقت علاج ہونے سے پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتی تھیں اور ہسپتالوں کی آبادی بھی نہیں بڑھتی تھی۔ انیس سواسی کی دہائی کے آخرمیں وہ وقت آیا کہ پاکستان کو مناسب تعداد میں ایم بی بی ایس شدہ ڈاکٹر میسر آگئے ۔ اب مہم شروع ہوئی کہ ڈاکٹری کا حق صرف اسے حاصل ہے جو کسی میڈیکل کالج کا سند یافتہ ہو، صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اپنے اپنے محکمہ ہائے صحت کے کارپردازوں کو متحرک کیا کہ ان روایتی ڈاکٹروں کو نکال باہر کریں تاکہ میڈیکل کالجز کے پڑھے ہوئے لوگ ان کی جگہ لیں۔ پیشے سے نکال دیے جانے والے یہ ڈاکٹر جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد گلی محلے تک صحت کی بری بھلی سہولت پہنچائی تھی ''عطائی‘‘ کا توہین آمیز ٹھپہ لگواکر اگلے جہان چلے گئے اور ہمیں ان لوگوں سے واسطہ پڑا جنہیں ہم آج ڈاکٹر سمجھتے ہیں۔ 
ادارہء شماریات کے مطابق جب پاکستان بنا تو اس وقت ملک میں موجود ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی تعداد صرف اڑتالیس تھی اور عملی طور پر صحت کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے ایم بی بی ایس نہیں کیا تھا بلکہ انگریز کا متعارف کردہ ڈی ایم پی ایس نامی ایسا ڈپلوما کر رکھا تھا جس کا دورانیہ دوسال اور نصاب اردو میں تھا ۔ امریکاکے اتباع میں ہم نے جو بہت سے کام کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا طبّی تعلیم کے لیے صرف وہی راستہ کھلا رکھا جو انیس سو دس میں ابراہام فلیکسنر نے اس بنیاد پر تجویز کیا تھا کہ امریکا میں میڈیکل تعلیم کے غیر منظم نظام کو کسی قاعدے کے تحت لایا جاسکے ، حالانکہ اس وقت پاکستان کو جونظام ورثے میں ملا تھا اس میں ماہرانہ انداز میں میڈیکل کی تعلیم کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا؛ اول ، دوسال کا ڈپلوما کورس جو میڈیکل کالجز میںاردو میں کرایا جاتا تھا اور اس کورس کے فارغ التحصیل عمومی بیماریوں کے لیے دوادینے کے اہل
تھے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ تھے جو موجودہ طرز میں ایم بی بی ایس کی ڈگری چار سال میں حاصل کرتے تھے اور تیسری قسم کے لوگ نرسنگ کی طرف چلے جاتے تھے۔ چار سالہ تعلیم مکمل کرنے والے لوگ بڑے ڈاکٹر کہلاتے اور دو سال والوں کو اردو ڈاکٹر کہا جاتا۔ بڑے ڈاکٹر سرکاری اداروں کا انتظام سنبھالتے اور اردو ڈاکٹر جنرل فزیشن کے طور پر اپنے کلینک چلاتے یاسرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے بارے میں فیصلہ کرتے کہ ضرورت پڑے تو انہیںکس بڑے ڈاکٹر کے پاس بھیجنا ہے۔ اردومیں پڑھنے والے ڈاکٹروں کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ تھا کہ یہ لوگ بہت جلد عملی میدان میں خدمات سرانجام دینے لگتے اور دوسرا یہ کہ ان کے عزائم بھی آج کل کے انگریزی دان ڈاکٹروں کی طرح بلند نہیں تھے۔ یہ لوگ موسمی بیماریوں اور ہلکی پھلکی انفیکشن کا علاج کرتے اور تجربے میں اضافے کے ساتھ یہ لوگ ایم بی بی ایس ڈاکٹروںسے آگے نکل جاتے۔ ذاتی طور پر میں نے سرگودھا میں اسی طرح کے معالج ڈاکٹر ابوالحسن مرحوم کو دیکھا ہے جن سے میری عمر کے سرگودھا کے تمام شہری اپنے بچپن میں دوا لیتے رہے ہیں۔ ان کے تجربے کا اور لوگوں کی بیماری کو سمجھنے کا عالم یہ تھا کہ ان کے ایک عزیز ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ان کے ساتھ پریکٹس کرنے لگے مگر مریض ڈاکٹر ابوالحسن سے ہی علاج کرانے کو ترجیح دیتے۔ 
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ ستاون ہزار ڈاکٹروں کے پاس پریکٹس کا لائسنس موجود ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ایک ہزار تین سو افراد کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔کتابی حد تک یہ بات درست ہے مگر اصلیت یہ ہے کہ لائسنس یافتہ ڈاکٹروں میں سے تقریباََ نصف خواتین ہیں جن کی بہت بڑی اکثریت تعلیم تو حاصل کرتی ہے مگر پریکٹس نہیں کرتی۔اس تعداد کو نکال دینے کے بعد ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ رہ جاتی ہے یعنی دوہزار افراد پر ایک ڈاکٹر۔ ان لائسنس یافتہ ڈاکٹروں میں وہ ڈاکٹر بھی شامل کرلیں جو پڑھے تو پاکستان میں مگر دوسرے ملکوں میں جابسے تومعلوم ہوتا ہے کہ اصل میں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں تین ہزار سے زائد افراد کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارے ڈاکٹروں کا ارتکاز شہروں تک ہی محدود ہے اور دیہی علاقے آج بھی ان سے خالی ہیں۔ ان جدید تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کو جب حکومت دیہات میں جانے کا کہتی ہے تو یہ لوگ ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن بنا کر کہتے ہیں کہ نہیں جاتے کر لو جو کرنا ہے۔مسیحا یوں کرے تو کوئی بھی کیا کہہ سکتا ہے ؟ جہاں تک ایم بی بی ایس کیے ہوئے ڈاکٹروں کی قابلیت کا سوال ہے تو اس بارے میں صرف اتنا عرض ہے کہ ان کی مبلغ صلاحیت سرگودھا کے اردوڈاکٹر ابوالحسن مرحوم کے میٹرک پاس معاون سے اگر کم نہیں تو زیادہ بھی نہیں۔ اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ ٹسٹ جو میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت نوجوانوں سے لیا جاتا ہے ، کسی بھی ڈاکٹر یا ینگ ڈاکٹر کے سامنے رکھ کر دیکھ لیں نتیجہ خود معلوم ہوجائے گا۔ 
سنگ و خشت کی عمارت اگر بیمار ی کا علاج کرسکتی تو یقین مانیے پاکستان دنیا میں صحت کی سہولیات میں بہت آگے ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحت کی سہولت کی فراہمی میںڈاکٹر ہی سب کچھ ہے مگر ہماری مصیبت یہ ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹر کم اور ینگ ڈاکٹر زیادہ پائے جاتے ہیں اوران ینگ ڈاکٹروں سے اسوقت تو خیر کی کوئی توقع نہیں جب تک یہ ینگ ہیں۔لہذا ہمارا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے کہ ڈاکٹر کم اور مریض زیادہ ہیں۔ اور اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم پھر بنیاد کی طرف لوٹیں یعنی اپنی ضروریات کے مطابق دو سال کا نصاب اردومیں تشکیل دے کر نوجوانوں کو اس شعبے میں داخل کریں۔ یہ لوگ آپ کو انگریزوں کے پاس جانے کی دھمکی بھی نہیں دیں گے ، اپنے گاؤں میں بیٹھ کر لوگوں کے درد بانٹیں گے اور اپنے ایم بی بی ایس کے زعم میں لوگوں کی توہین بھی نہیں کریں گے۔ مکرر عرض ہے، دو سال کی تعلیم، اردو کا نصاب ہمارے ڈاکٹر کے لیے کافی رہے گا۔ یوں بھی کسی ینگ ڈاکٹر کی انا کے بھینٹ چڑھ کر مرنے سے بہتر ہے کہ تھوڑے کم پڑھے لکھے سہی کسی اپنے کے ہاتھوں میں دم دیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved