تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-10-2016

’’ساڈا کی بنے گا؟‘‘

پنجاب کے وزیراعلیٰ‘ جناب شہباز شریف اپنے اور ملک کے دشمنوں کو ایسی ایسی دھمکیاں دیتے رہتے ہیںکہ ان کا ہدف بننے والے کم و بیش تمام ملکی وغیر ملکی شخصیات‘ ایک بار تو میاں صاحب کی دھمکیاں سن کرشہر‘ ملک یا براعظم چھوڑ جاتے ہوں گے۔ اہل وطن کو یاد ہو گا کہ میاں صاحب نے سابق صدر‘ آصف زرداری کو ایک باردھمکی دی تھی کہ'' میںا نہیں سڑکوں پر گھسیٹوں گا‘‘ ۔ وہ دن اور آج کا دن‘ زرداری صاحب نے سڑکوں پر سفر کرنا ہی چھوڑ دیا۔ زیادہ سفر وہ ہیلی کاپٹر یا ہوائی جہازوں پر کرتے ہیں کہ نہ وہ سڑک پر آئیں اور نہ میاں صاحب انہیں گھسیٹ سکیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد ‘ وہ پاکستان سے ہی باہر چلے گئے اور واپس بھی آتے تو چھوٹے میاں صاحب کی نگاہوں سے چھپ کر۔مگر لگتا ہے کہ اچانک انہیں پھر چھوٹے میاں صاحب کی دھمکی یاد آگئی اور وہ ملک سے ایسے فرار ہوئے کہ پاکستان واپس آ نے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی‘ پاکستان کے پرانے دشمن ہیں۔ وہ لاہور آئے توتھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ڈرتے ڈرتے ہی آئے ۔ یوں تو مودی‘ان کے بڑے بھائی وزیراعظم ‘ میاں نوازشریف سے ملنے ان کے گھر بھی گئے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ مودی صاحب‘ شہباز شریف سے آنکھ بچا کر لاہور میں گھومتے رہے۔ کم از کم مجھے تو وہ لاہور میں کسی جگہ پر دکھائی نہیں دئیے۔کل ہی چھوٹے میاں صاحب نے ‘ مودی کو ایک دھمکی دی ہے۔ جس میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ'' بھارت نے اگر میلی آنکھ سے دیکھا‘ تو آنکھیں نکال لیں گے‘‘۔ یہ دھمکی سن کرمودی صاحب پر ایسا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے آصف زرداری کی طرح‘ لاہور آنے سے ہی توبہ کر لی۔ورنہ جب تک چھوٹے میاں صاحب نے مودی کو دھمکی نہیں دی تھی‘ وہ بے دھڑک لاہور آیا جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھار چھپ چھپا کے‘ لاہور آتے توان کے بڑے بھائی ‘ میاں نوازشریف اور ان کے اہل خاندان سے ملاقات کے لئے جاتی امرا چلے جاتے۔ مگر جیسے ہی مودی صاحب کو پتہ چلتا کہ چھوٹے میاں صاحب ‘ جاتی امرا کے آس پاس سے گزرتے ہوئے پائے گئے ہیں تو وہ پلک جھپکتے ہی لاہور ائیر پورٹ کا رخ کر لیتے۔ اور ان کی خصوصی فرمائش یہ ہوتی کہ '' مجھے ایک ہی اڈاری میں دہلی پہنچا دو۔ جب تک لاہور ایئر پورٹ پر ہوں‘ مجھے گہرے کالے شیشوں والی عینک دے دو۔ اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ ‘ شہباز شریف نے میری میلی آنکھ دیکھ لی‘تو وہ میری آنکھیں نکالے بغیر‘ مجھے نہیں چھوڑیں گے‘‘۔مودی صاحب بھی‘ چھوٹے میاں صاحب کی دھمکی سے ایسا ڈرے ہیں کہ انہوں نے دہلی میں قدم جماتے ہی‘ اپنی مسلح افواج کے سربراہوں کا اجلاس طلب کیااور حکم دیا کہ پاکستان پر فوراً حملہ کر دیا جائے۔ مودی صاحب کے حکم کی تعمیل تو ہو گئی لیکن ان کے فوجی نہ تو پاکستان کی سرحد یا لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب آ سکے اور نہ ہی چھوٹے میاں صاحب کو مودی کی میلی آنکھ نکالنے کا موقع ملا۔
بھارتیوں کواچھی طرح معلوم ہے کہ'' چھوٹا شیر‘‘ بہت غصے والا ہے۔جس پر وہ ناراض ہو جائے‘ اس کا پیٹ پھاڑ کر‘ انتڑیاں تو پہلے حملے میں ہی نکال لیتا ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین‘ عمران خان صاحب بہت دنوں سے چھوٹے میاں صاحب کے غیظ و غضب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے ذاتی استعمال کے لئے‘ پولیس کے بھانت بھانت کے دستے بنا رکھے ہیں۔شہر لاہور میں خان صاحب کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے ہمارے وزیراعلیٰ نے پولیس کی ایک خصوصی ڈولفن فورس قائم کر رکھی ہے۔ اس فورس کے جوان‘ ہر وقت لاہو رکی سڑکوں پر گھومتے ہوئے‘ چاروں طرف نگاہیں جمائے رکھتے ہیں کہ کہیں عمران خان‘ انہیں دکھائی د یں اورہ وہ چھوٹے میاں صاحب کو بلاتاخیر اس کی اطلاع کریں۔ اس کے علاوہ ‘عمران خان کی نقل و حرکت کے بارے میں‘ ایک ایک لمحے کی خبر پانے کے لئے ‘چھوٹے میاں صاحب نے ایک بہت بڑا اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کنٹرول روم بنا رکھا ہے۔ جہاں مانیٹرنگ سیل لگے ہوئے ہیں‘ جن پر چھوٹے میاں صاحب کی عقابی نگاہیں ہر وقت جمی رہتی ہیں۔ سنا ہے کہ جب بھی انہیں شہر میں عمران خان کی نقل و حرکت کی اطلاع ملتی ہے تو وہ سارے کام چھوڑ کر مانیٹرز کو ٹک ٹکی لگا کر‘ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔اکثراوقات انہیں کئی کئی گھنٹے عمران خان کو دیکھنا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ کئی کئی گھنٹے ‘شہر کی سڑکوں پر گھومتے اور اپنے ساتھیوں سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔شام کے وقت عمران کو جہاں بھی کوئی کشادہ سڑک خالی نظر آتی ہے۔ وہ کار سے اتر کے‘ دوڑنا شروع کر دیتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے دوڑتے رہتے ہیں۔عمران کو دیکھتے ہوئے چھوٹے میاں صاحب اکثر سوچتے ہیں کہ یوں تو وہ خود بھی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیر کرتے ہیں لیکن زیادہ دیر تک وہ تیز رفتاری سے قدم نہیں اٹھا سکتے۔ کبھی سانس تیز ہو جاتا ہے اور کبھی پسینہ بے تحاشہ بہنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنے اس تجربے کی روشنی میں ان کی نگاہیں ‘عمران خان کے جسم پر لگی رہتی ہیں۔چھوٹے میاں صاحب ان کے بدن پر نگاہیں جمائے رکھتے ہیں کہ بہتا ہوا پسینہ دکھائی دے جائے۔ مگر چھوٹے میاں صاحب کئی کئی گھنٹے عمران کو دوڑیں لگاتے دیکھ کر‘ ان کا پسینہ دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ حالانکہ پسینہ خان صاحب کو بھی آتا ہے لیکن مانیٹرنگ سکرینیںاس طر ز پر بنی ہیں کہ ان میں دوڑتا ہوا بندہ‘ دکھائی دے جاتا ہے مگر پسینہ نکلتے نظر نہیں آتا۔
آج ایوان وزیراعلیٰ‘ ماڈل ٹائون میں خصوصی کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ وزیراعلیٰ‘ شہباز شریف نے اپنے خطاب کے دوران‘ امریکہ پر بڑی دھونس جمائی اور سخت ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہا کہ ''مغربی ملکوں کی زبان کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘‘۔ چھوٹے میاں صاحب نے عمران خان کے جلسوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ جتنا زور چاہیں لگا لیں لیکن بڑے میاں صاحب کے مقابلے میں جلسہ نہیں کر سکتے۔عمران خان اور ان کے کارکنوں کو شہر شہر اور گلی گلی گھوم کر جلسوں کے لئے حاضری کا انتظام کرنا پڑتا ہے جبکہ بڑے میاں صاحب ‘اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چند افراد کو احکامات دیتے ہیں اور بے شمار جلسوں کے لئے حاضرین کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ چند کمشنرز ہوتے ہیں۔ جو پورے صوبے کے پٹواریوں کو حاضری کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ ایک آئی جی پولیس ہوتا ہے ‘جو سارے صوبے کی پولیس اور زیر تفتیش ملزموں کو جمع کر کے‘بھاری تعداد میں حاضرین کو حاضر کر دیتا ہے۔ بڑے میاں صاحب زیادہ حاضرین جمع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ ساٹھ ستر ہزار حاضرین پر قناعت کر کے‘ اپنا جلسہ بھگتا لیتے ہیں۔بڑے میاں صاحب کے بعد‘ بے شمار حاضرین وزیراعلیٰ کے ان گنت جلسوں میں ‘حاضری دینے کی غرض سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔ لیکن ان ساری ترکیبوں اور نسخوں کے استعمال کے بعد بھی‘ عمران خان کے جلسوں کا مقابلہ نہیں ہو پاتا۔یقیناً خان صاحب کے ساتھیوں کے ملازمین کی تعداد صوبہ پنجاب کے ملازمین سے زیادہ لگتی ہے۔ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کہ عمران خان کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد‘ پورے صوبے کے ملازمین سے زیادہ ہو۔میاں صاحب کے مصاحبین دلائل دیتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے ذاتی ملازمین اور شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی تعداد‘ یقیناً صوبے کے سرکاری ملازمین کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ ورنہ عمران خان اپنے جلسوں میں اتنے حاضرین کہاں سے لا سکتا ہے؟بطور سیاست دان دونوں میاں صاحبان کا جی تو چاہتا ہو گا کہ ان کے جلسے بھی‘عمران خان سے بڑے ہو ں۔ لیکن دونوں میں سے کوئی لیڈر بھی‘ غیر سرکاری حاضرین سے بڑا جلسہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔مصاحبین کے ایک اجلاس میں تمام حاضرین نے بیک زبان رائے دی تھی کہ '' حضور والا!جب اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں بھائیوں کو پورے صوبے اور پورے ملک کے ملازمین کی خدمات مہیا کر رکھی ہیں تو آپ کو بطور سیاست دان جلسے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔ عمران خان کے حامیوں کے ملازمین کی تعداد میں‘ایک نہ ایک دن‘ تھوڑی بہت کمی ہو جائے گی جبکہ سرکاری ذرائع سے فراہم ہونے والے حاضرین‘ ہمیشہ کے لئے جلسے بھرتے رہیں گے۔
''اتنے طویل عرصے تک بھلاکون اقتدار میں رہ سکتا ہے؟ میاںشہبازشریف نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک افسر کے کان میں سرگوشی کی‘‘۔ 
''سر! یہ ممکن ہے۔آپ کے دونوں بیٹے‘ ابھی لمبے عرصے تک اقتدار میں رہیں گے۔ بعد میں ان کے بچے آجائیں گے۔ اقتدار آپ کے گھر سے کبھی باہر نہیں جائے گا‘‘۔
''ساڈا کی بنے گا؟‘‘ یومیہ چار پانچ پریس کانفرنسیں کرنے والے ایک فدوی نے‘ ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved