جانے سے پہلے پی آئی اے کے دفاتر کا پھیرا ڈالا ‘ بند ملے‘ لہٰذا علی الصبح ٹکٹ خریدے گئے اور سہ پہر کو کراچی چل دیا۔ یہ اُڑان براستہ کوئٹہ تھی‘ کوئٹہ میں جہاز ایک گھنٹے تک رُکا لیکن کراچی کے مسافروں کے لیے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے رہنے کا حکم صادر ہوا‘ اس دوران میں جہاز کے فرش و فروش جھاڑے پونچھے بھی گئے۔ بند کمرے میں جھاڑو دی جا رہی ہو اور آپ کو وہیں باندھ دیا جائے تو کیفیت دم گھٹنے والی تو ہو جائے گی۔ اس میں مصلحت کیا تھی‘ کار پردازان ہوائی سے پوچھنے کی ہمت مجھ میں تو تھی نہیں کسی اور نے بھی جرأت رندانہ سے کام نہ لیا۔ کراچی کے ہوائی اڈے سے نکل کر جب میں ٹیکسی میں بیٹھ چکا تھا ایک پولیس افسر نے بڑی مستعدی سے ایک چٹ میرے ہاتھوں میں تھما دی جس پر ٹیکسی کا نمبر ‘مدد کی ضرورت پڑے تو ٹیلیفون نمبر وغیرہ لکھے ہوئے تھے۔ کراچی کے معروف محلے گلشن اقبال میں زاہدہ حنا اور جون کے گھر کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور چاہا کہ پاسپورٹ وغیرہ وہ خود چل کر بنوا دیں یا اپنے بھائی کو مجھ سے نتھی کر دیں تو بھی بہت سی الجھنوں سے بچ جائوں گا۔ زاہدہ کے بھائی عتیق جاوہ دفتر کی حاضری کے پابند نکلے اور زاہدہ یہ کہہ کر طرح دے گئیں ‘ اب آپ رئیس صاحب کے ساتھ جا رہے ہیں تو مسلط بھی ہو جائیے نا ان پر‘ میں چونکہ کم ہمت اور کام چور ہوں‘ میرے دست و بازو میرے رفیقان کار بنے رہتے ہیں‘ تن آسانی کی وجہ سے دفتری اورسرکاری لکھت پڑھت ایک آزمائش بن جاتے ہیں‘ مرتا کیا نہ کرتا‘ منہ اندھیرے نکل کھڑا ہوا حضرت رئیس بیدار ہوئے ہی تھے کہ میں نے ان کو جا لیا۔ وہ بھی اپنے کارکنوں کا انتظار کھینچنے لگے۔ یوسف آئے‘ میں ان کے حوالے
ہوا اور وہ مجھے سکوٹر پر اپنے لاد کر کمال مہارت سے چلاتے ہوئے پاسپورٹ آفس پہنچے۔ ایک میلہ لگا ہوا اور بیسیوں ایجنٹ اپنی اپنی کرسیاں سجائے آنے والوں کی تاک لگائے بیٹھے ہوئے‘ میرا شناختی کارڈ دیکھ کر منہ لٹکا دیا یہ تو پنجاب کا ہے‘ پنجاب ہی سے بنے گا پاسپورٹ‘ اب کیا ہو‘ میں بھی ایک اختلاجی‘ ریل تو شام کو جائے گی‘ آج دوسری ہے‘ اکتوبر کی آٹھویں کو جانا ہے ‘رہ رہ کر رب نواز محمدی پر غصہ آتا رہا۔ دو برس سے کہہ تھا میں میرا پاسپورٹ بنوا دو۔ جب جب ذکر آیا فرمایا آپ کو کہیں جانا تو ہے نہیں‘ ایسی کیا جلدی ہے‘ بن جائے گا‘ رب نواز محمدی کی ریڈیائی مصروفیات کو رگیدتا کوستا ہوا پرانی نمائش سے بس میں سوار ہوا ۔ کراچی سے حیدر آباد سندھ کے لیے مخصوص بسوں کی نشستیں نہایت تکلیف دہ ہیں۔ یہ ہمارے ہاں کیوں رائج ہیں یہ تو نہ کسی سے کوئی پوچھنے والا ہے نہ کسی کو کوئی بتانے والا‘ بس چلانے والا بھی کم ظرف نکلا۔ پہاڑی راستے میں جہاں جہاں ڈھلوان ہو‘ اترائی ہو‘ تیل بچانے کے لیے انجن بند کر دے۔ راستہ صاف سیدھا ہو تو رفتار نہ بڑھائے۔ یہ آخر ہمارا کیا اندازِ فکر و عمل ہے۔ حیدر آباد سے ویگن میں سکھر کے لیے بیٹھا۔ یہ تجربہ بھی تلخ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ لاکھ روکا مگر ناخدا کیوں مانتا‘ اپنی روائتی سست روی کو بھول بھال کر دوسری ویگن کو پہلو سے نکل جانے کا وہ موقع ہی کیوں دینا چاہے اپنی اور بے گناہ مسافروں کی جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔ خدا خدا کر کے سکھر اُترا ‘اب پھر وہی بس کا
سامنا تھا۔ سکھر سے ملتان کے لیے چلنے والی یہ بسیں سو میل کے مسافر کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ دوبار پہیہ خراب ہوا اور بعداز خرابیٔ بسیار بارہ بجے رات کو سنجرپور نظر آیا۔ یہاں اچھو میاں میں نے آپ کو سوتے میں سے جگا کر کس مزے سے ٹہلتے ہوئے لے جا کر سرواہی میں میاں شبیر کے مہمان کی نیند خراب کی۔ میاں شبیر کو گھر سے برآمد کیا‘ وہ بیچارے سراج میاں کو جگا لائے۔ فیض میاں نے موٹر نکال کر ہمارے حوالے کی۔ رات ہی کتنی رہ گئی تھی‘ نیند بھی اڑ چکی تھی۔ صبح ہی صبح رحیم یار خان سے ہوتے ہوئے بہاولپور پہنچنا کل ہی کی تو بات ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس تو میں زاہدہ کے ہاں کراچی ہی بھول آیا تھا۔ ڈرنا چاہیے‘ اگر کہیں پوچھ گچھ ہو تو شرمندہ ہونا پڑتا‘ لہٰذا اچھو میاں کو موٹر چلانا پڑی۔ ڈیڑھ پونے دو سو میل اتنے زیادہ تو نہیں ہوتے‘ اچھو میاں اسی میں چُور ہو جاتے ہیں۔ میرا تو یہ تھا چار چار سو میل ایک سانس میں طے کئے ہیں‘ وہ بھی رات کی تاریکیوں میں۔ شام کو محمد آباد سے چلے ‘ صبح کو کراچی جا کر دم لیا۔ تو جناب بہاولپور میں رب نواز محمدی کو پکڑا‘ وہ ہمیں بہاولپور کے مشہور پاسپورٹ کارکن اعظم ہاشمی کے یہاں لے گئے‘ کاغذات کی تکمیل تصویری‘ دستخط سبھی کچھ ہوا‘ ہر بات‘ ہر چیز کی دوہری فوری اجرت اٹھارہ سو دے کر خیر سے شام کو پھر محمد آباد آئے تاکہ کچھ اور وقت بچوں کے ساتھ گزارا جائے۔ دو تین مہینوں کا سفر‘ دل میرا الجھ رہا۔ تھا‘ بھئی سننا پڑے گا‘ لکھیں گے تو پڑھنا پڑے گا۔ ہم تو الف سے یے تک اسی ڈھب سے سنائیں گے‘ سنتے جائو‘ گھبرائو نہیں۔چوتھی اکتوبر کو امیندا جی تم سنائو بہاولپور سے پاسپورٹ لے کر کس طرح تم کراچی گئے۔ ہمیں تو جلدی تھی ہم نے بہاولپور سے پلٹتے ہی امیندا جی کو چلتا کیا تاکہ پاسپورٹ لے کر بالا ہی بالا کراچی پہنچیں اور بالآخر کاغذات کی تکمیل ہو۔ ہا سائیں میں اباسین ایکسپریس سے بہاولپور پہنچ کر شام کی خیبر میل سے کھڑے کھڑے پہاڑ سی رات کاٹ کر حضرت رئیس کے حضور پہنچا تھا۔ ہاں بھائی‘ ریلوں بسوں ویگنوں میں بھیڑ بھاڑ کا یہی عالم ہے۔ سفر ترک کیے جائیں یہ تو ہو گا نہیں۔ زندگی اور اس کے لوازمات کی بھر مار اور کچھ خود ساختہ مسائل کے تقاضے یہ ہیں کہ تیز رفتار گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ایسی گاڑیاں جن میں تیسرے درجے کے ڈبے زیادہ سے زیادہ اور آگے پیچھے نہیں‘ بیچ میں جوڑے جائیں تاکہ عام مسافروں کو بھاگ بھاگ کر بے حال نہ ہونا پڑے۔ بدحواسی کے عالم میں بھاگ دوڑ کے مناظر میں اضافہ نہیں‘ کمی ہونا چاہیے۔ یخ بستہ کمرے آگے پیچھے جوڑے بھی جائیں تو امراء کے لیے دو چار قدم چلنے کی مشکل تو پڑے گی‘ اکثریت کا بھلا ہو جائے گا۔ امراء کی نشستیں پہلے سے ہی مخصوص کرا لی جاتی ہیں اس لیے وہاں کہیں بھٹکنے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ امیندا جی تم نے تو جسمانی تکلیف ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اٹھائی‘ ہمیں ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ حماقت تو دیکھو‘ ویزہ فارم کے لیے جو تصاویر پنڈی اور لاہور میں زیادہ اجرت دے کر فوری طور پر اتروائی گئی تھیں وہ تو مجھے بے حد بوڑھا پھو س اور مریل ظاہر کرتی تھیں‘ ناچار صادق آباد کے ''عکاس‘‘کو زحمت دی گئی۔ ایک ڈیڑھ سال پرانا عکس حاصل کر کے جیب میں ڈال لیا تھا‘ وہ جیب ہی میں رہا‘ امیندا جی کے حوالے نہ ہوا۔ اب کیا ہو۔ ابوالکلام اور ریاض موٹر سائیکل دوڑاکر صادق آباد گئے خیبر میل میں امیندا جی کو تو نہ پا سکے‘ ڈاکٹر سعید سنجر پوری مل گئے۔ ادھر امیندا جی تو حضرت رئیس کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دے کر پلٹے‘ ادھر سعید صاحب نے موٹر لے جا کر دیئے لیکن اس برق رفتاری کا حاصل کچھ نہ نکلا‘کاغذات کی تکمیل میرے جانے پر ہی ممکن ہوئی‘ ویزہ فارم پر میرے دستخط ضروری تھے۔
سکھر تک تو میں نے اور اچھو میاں نے پسنجر یعنی مقامی گاڑی سے سفر کیا۔ ریلوے سٹیشن پر رخصت اور الوداع کہنے والوں میں کون کون تھا‘ ذرا بتانا میاں۔ ہاں ظاہر ہے سرفہرست تو ہمارے حضرت یعقوب شاہ جیلانی دعاگوئوںمیں ہوں گے‘ سراج میاں بھی تھے ۔ سردار بن شیخ محمد نصراللہ کو ٹکٹ کے پیسے دے دیئے گئے لیکن وہاں جا کر کھلا کہ نشست مخصوص نہیں کروائی جا سکی...
آج کا مقطع
گزر گئی تھی مجھے کچل کر ظفرؔ کوئی شے
وگرنہ میں تو کہیں کنارے پر جا رہا تھا