تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-10-2016

حاضری اسی طرح گھٹتی ہے

شب کے 9بجے تک جاتی عمرہ کے گردونواح میں خالی پلاٹ‘ سڑکیں‘ چوراہے اور چھتیں‘عمران خان کے جلسے کے سامعین سے بھر چکے تھے، لیکن کیمرے سے لامتناہی ہجوم کی کوریج کرنے والے فوٹوگرافروں کی مشکل یہ تھی کہ وہ کونسا طریقہ اختیار کریں کہ عوام کو سارے ہجوم پر ایک نگاہ ڈالنے کا موقع مل سکے؟ ہر کسی کی اپنی اپنی مجبوری تھی۔ راناثناء اللہ بڑے بہادر آدمی ہیں۔ انہیں حاکم برادران کی مرضی کے عین مطابق ‘ہجوم کے سائز اور جلسے کے حاضرین کی تعداد بتانا تھی اور وہ بھی اس طرح کہ ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ رہے۔ طریقہ بہت آسان ہے کہ بندہ حاضرین کی تعداد میں آرڈر کے مطابق کمی بیشی کرتا رہے۔ رانا صاحب کو یہ سہولت ہے کہ ان کے کسٹمر نے ایک ہی طرح کے آرڈرز دیئے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر جلسے کے میدان میں بیٹھے یا کھڑے ہوئے لوگوں کا آرڈر کے عین مطابق اندازہ لگاتے ہیں‘ تو ان کی تعداد ''زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار‘‘ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد پوری جلسہ گاہ میں موجود حاضرین کی ہوتی ہے۔کسی حساب دان کو اس کام پر لگایا جائے تو وہ کسی دقت کے بغیر‘ لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی حاضری گن جائے گا۔ مگر آرڈر دینے والوں کا مقصد حقیقی گنتی نہیں''مطلوبہ ‘‘ گنتی ہوتا ہے۔ آپ نے وہ قصہ تو سنا ہو گا کہ ایک راجپوت جیل چلا گیا ‘ اسے چکی پیسنے کی مشقت ملی۔ راجپوت‘ تراش خراش سے پہلے رانگڑ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے رانا ثنا اللہ بہت پڑھے لکھے اور بنے سنورے رانگڑ ہیں۔ چنانچہ انہیں راجپوت ہی لکھنا پڑے گا۔ جیل میں چکی کی مشقت کرتے وقت‘ راجپوت نے ایک ٹانگ چکی کے اوپر والے پاٹ پر رکھی ہوتی تھی۔ جیل کا ایک اہلکار قریب سے گزرا ‘اور اس نے انوکھے انداز میں چکی کی مشقت کرتے ہوئے دیکھا ‘ تو اس نے قیدی سے پوچھ لیا کہ'' بھائی! چکی پیسنے کا یہ کیا طریقہ ہے‘‘؟
قیدی نے ہاتھ روک کر جواب دیا:''چکی سارے ہی اس طرح پیستے ہیں‘‘۔
اہلکار نے چکی کے اوپر رکھی ہوئی ٹانگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قیدی سے کہا: ''باقی سارے قیدی جس طرح چکی پیستے ہیں‘ وہ تیں نے دیکھی ہو گی۔بھلا کوئی اس طرح پیستا ہے؟‘‘
قیدی نے جواب دیا:''اتنا کچھ بتانے کے بعد بھی تجھے سمجھانا پڑے گا؟ ابے او‘ یہ چکی کے پاٹ پر ٹانگ دھری ہے‘ اسے رنگڑھو بولتے ہیں‘‘۔
سوال کرنے والے کی تسلی ہو گئی اور اس کے بعد‘ وہ رانا صاحب کی چکی والا راستہ چھوڑ گیا۔ میں کسی رانا صاحب سے اس کے کام کاج کے طریقوں کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے رانا صاحب سے پوچھ لیا کہ ''جلسے کے تمام حاضرین کی تعداد کتنی ہے؟‘‘
رانا صاحب نے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے جواب دیا ۔ ''آٹھ، نو سو تو ہوں گے‘‘۔
پوچھنے والا ہکا بکا رہ گیا۔اس کی آنکھیں اور منہ دونوں‘ کھلے کے کھلے تھے۔ 
رانا صاحب نے اس کی حالت دیکھ کر کہا :''ابے تو تو ہریان پریسان ہو گیا؟ چل تجھے مسکل سے نکالتا ہوں۔ بندے تو زیادہ گنے ہیں۔ تیری خاطر ایک کم کر دیتا ہوں‘‘۔
بعد میں اس نے رانا صاحب سے جلسے میں بیٹھے لوگوں کی گنتی کا فارمولا پوچھا۔ جب پورا فارمولا سمجھ میں آیا تو‘ اسے پتہ چل گیا کہ شہر کی ساری سڑکوں پرآنے جانے والے راہگیروں کو ایک ایک‘ دو دو گن لو‘ توسارے سترہ اٹھارہ نکل آئیں گے۔ 
رانا صاحب نے اسے حیرت زدہ دیکھ کر کہا: ''ابے ہریان کیوں ہو رہا ہے۔گنتی نہیںآتی کیا؟‘‘
سوال کرنے والے نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا:''آتی ہے جی‘ آتی ہے‘‘۔
رانا صاحب نے احسان جتاتے ہوئے کہا:'' تیں بھی کیا یاد کرے گا؟ پھر کبھی گنتی کی ضرورت پڑے تو میرے پاس آجانا۔ یہ میرا ٹیلی فون نمبر والاکارڈ ہے۔ خود نہ پڑھیو۔ ہمیسہ دو چار نمبر غلط ہو جاتے ہیں۔ کوئی پڑھا لکھا دکھائی دیوے تو اس سے پوچھ لیجیو‘‘۔
معلومات سے مالا مال ہونے کے بعد‘سوال کرنے والے نے کھسکنا چاہا تو رانا صاحب نے ہاتھ آگے بڑھا کراس کی پتلون اتنے زور سے کھینچی کہ بیلٹ ہاتھ میں آگئی۔ رانا صاحب نے بیلٹ واپس د ے کر اس پر مہربانی فرماتے ہوئے کہا:'' ابھی تو پورا جلسہ پڑا ہے‘ تو تھوڑی سی گنتی سن کر چکرا گیا؟‘‘
''نہیں رانا صاحب اب گھنی دیر نہیں لگے گی۔ تھوڑے سے راستے اور گرائونڈیں رہ گئی ہیں۔ لوگوں کی تعداد چٹکی میں گنی جائے گی‘‘ تھوڑا سا رکو‘ سارے جنے ‘زیادہ سے زیادہ 9سو ہو جائیں گے‘‘۔
اس کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ ہی کھلی رہ گئیں اور حیرت سے پوچھا''رانا صاحب 9 سو؟ ‘‘ 
''چل تیری خاطر ایک کم کر دیتا ہوں۔ اس سے زیادہ میں نہیں کر سکتا۔ میری بھی تو مسکل ہے‘‘۔ رانا صاحب نے کہا۔
''رانا صاحب! آپ کو کیا مشکل ہے؟‘‘
''مجھے اپنے مالکوں کو جواب دینا ہوتا ہے‘‘۔
''آپ کے مالک کیا کرتے ہیں؟‘‘
''کرنا کرانا کیا ہے؟ سویرے صاف ستھرے‘ نہائے دھوئے لوگوں کو‘ دوچار گھنٹے بیٹھک میں بٹھا کے ملنے کے لئے باہر آتے ہیں۔ ہر ملاقاتی میرے مالک کی تعریف میں جتنا کچھ بول سکتا ہے‘ بولتا ہے۔ اس کے بعد‘ کوئی دوسرا ملاقاتی اسے گردن سے پکڑ کے ہٹاتا اور کہتا ہے:'' سرکار میری بھی تو سنو‘‘۔سرکاراسے چھوڑ کے نئے ملاقاتی کی سننے لگتی ہے۔دو تین بار ہاتھ چھوڑ کے منہ‘ مالک کے کان کے پاس لاکر کچھ کہتا ہے اور مالک اپنے منشی کے کان میں دھیرے سے بات کرتا ہے اور پھر ملاقاتی سے کہتا ہے کہ ''جائو تمہارا کام ہو گیا‘‘۔ بیٹھک میں موجود سارے ملاقاتی بلند آواز سے مالک کو دعائیں دیتے ہیں۔ چارپانچ منٹ اپنے اور سارے خاندان والوں کے لئے دعائیں سن کر مالک‘ انہیںچپ رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔مالک اس کے جانے کے فوراً ہی بعد باقی رہ جانے والے ملاقاتیوں کی طرف دیکھتا ہے۔سارے لوگوں میں جو شخص دونوں آنکھوں کے پپوٹے‘ دست سوال کی طرح ‘مالک کے سامنے پھیلا کر بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کی قسمت یاوری کرتی ہے اور مالک‘ ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب بلا کر پوچھتا ہے کہ ''تم اپنے گائوں سے کتنے آدمی لے کر آئے ہو؟‘‘
مسکین آدمی ہاتھ جوڑ کر بتا تا ہے کہ'' میں سات لوگوں کو لے کر آیا ہوں‘‘۔
مالک پوچھتا ہے'' کہ سات بندے لے کر آئے ہو ؟‘‘
''نہیں مائی باپ‘ گھر میں تو ہمارے پندرہ ووٹ ہیں لیکن میں صرف سات لایا ہوں ۔ باقی سب بچے ہیں‘‘۔
مالک شاباش دیتے ہوئے کہتا ہے: ''ہمیشہ یاد رکھو۔ گھر میں جن کا ووٹ نہ ہو، ان سب کو ہمارے مخالفوں کے کیمپ میں لے جایا کرو اور جن کے ہوں‘ انہیں ہمارے کیمپ میں ‘‘۔
''جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر مالک درخواست گزار سے کہتا ہے کہ پولنگ والے دن‘ گھر کے سارے ووٹروں کو ہمارے کیمپ میں لے کر آنا‘ تمہاری ذمہ داری ہے‘‘۔
اتنی دیر میں مالک کی طرف سے بلاوا آتا ہے کہ رانا صاحب کو ٹیلی ویژن والے بلا رہے ہیں۔ رانا صاحب بھاگے بھاگے عارضی ٹی وی سٹوڈیو کی طرف جاتے ہیں۔ اس وقت اینکر یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ'' آج عمران کے جلسے میں حاضری کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ لوگ جوق در جوق رائیونڈ کی طرف آرہے ہیں‘‘۔
رانا صاحب بے اختیاری سے ‘اینکر کے قریب جا کر سرگوشی میں کہتے ہیں'' سر! میں نے حج کے ٹکٹ کا لفافہ آپ کے گھر پہنچا دیا تھا۔آمدورفت کے خرچ کا لفافہ الگ تھا۔ بچوں کے لئے خریداری کا بندوبست بھی ہو چکا اور پھر بھی آپ اس جلسے کی حاضری بڑھا چڑھا کر بتا رہے ہیں‘‘۔
اینکر صاحب فوراً ہی پینترا بدلتے ہیں۔ عمران کے جلسے کی حاضری اگلے جملے میں اتنی کم رہ جاتی ہے کہ چینل کا ساراسٹاف‘ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے‘ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہا تھا ''عمران کے جلسے جلوسوں میںحاضری اسی طرح گھٹتی ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved