اسلام آباد میں منعقد ہونے والا سارک ممالک کے سربراہوں کا نومبر اجلاس چار رکن ممالک کی عدم شرکت کے اعلان کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ ہندوستان کی عدم شرکت کے اعلان کے بعد بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان نے بھی اس کی پیروی کی جس کے فوراً بعد سارک کے موجودہ چیئر نیپال نے بھی عدم شرکت کا اعلان کیا۔ 27 ستمبر کو بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان نے رسمی طور پر کٹھمنڈو کو اپنی عدم شرکت کے بارے مطلع کیا۔ یہ سب 'موجودہ حالات‘ کی وجہ سے ہندوستان کے عدم شرکت کے اعلان کے فوراً بعد ہوا تاکہ پاکستان پر سفارتی دبائو بڑھایا جا سکے۔
ہندوستان کی موجودہ دائیں بازو کی رجعتی حکومت کے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے اعلان کے بعد لائن آف کنٹرول پر فوجی جھڑپیں بڑھ گئی ہیں۔ چینی اور امریکی حکومتوں کی اپیلوں کے باوجود برصغیر کے حکمران ٹولے فی الوقت جنگ کی بڑھکیں لگا رہے ہیں۔ دونوں اطراف کا کارپوریٹ میڈیا جنگی جنون میں پاگل ہوا پڑا ہے؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکمران طبقات ایک مکمل جنگ کی طرف لازماً جائیں گے۔ ان کے سامراجی آقا ایک کھلی جنگ کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے‘ لیکن ایک پائیدار امن بھی ان کے کارپوریٹ مفادات بالخصوص ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کے خلاف ہے جس میں مقامی حکمرانوں کی بھی حصہ داری ہے۔
سارک کو اس خطے میں بین الحکومتی تنظیم اور ایک جغرافیائی سیاسی اتحاد کی سوچ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا۔ افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان، نیپال، مالدیپ، پاکستان اور سری لنکا اس کے رکن ہیں۔ اسے 1985ء میں ڈھاکہ میں قائم کیا گیا اور اس کا مرکز کٹھمنڈو (نیپال) میں ہے۔ آفیشل سطح پر تنظیم کا مقصد 'معاشی اور علاقائی جڑت کو فروغ دینا‘ ہے۔ 2006ء میں سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا کا آغاز کیا گیا؛ تاہم 31 سالوں میں ان مقاصد میں سے ایک بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1985ء کی نسبت اختلافات مزید بڑھے ہیں اور تعلقات بگڑے ہیں۔
اس اتحاد کا اصل مقصد جنوبی ایشیا میں رائج بحران زدہ سرمایہ داری کو سہارا دینا تھا۔ غالباً ان سرمایہ دارانہ پالیسی سازوں کا خیال یہ تھا کہ رکن ممالک کے درمیان تجارتی اور کاروباری آسانیاں پیدا کرکے اور منڈیوں کو وسیع کرکے معاشی نمو حاصل کی جائے۔ وہ شاید یورپی یونین کی طرز پر سوچ رہے تھے لیکن یا تو بہت سادہ لوح تھے یا نہایت بے وقوف کیونکہ سارک ممالک کی سرمایہ داری تاریخی طور پر اتنی تاخیر زدہ، پسماندہ اور بحران زدہ ہے کہ معاشی، سیاسی و سفارتی استحکام، اقتصادی جڑت اور مشترکہ منڈی کو جنم ہی نہیں دے سکتی۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر جس بحران سے دوچار ہے اس کے تحت تو 2008ء کے بعد یورپی یونین کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ براہ راست نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد تو سارک ممالک کبھی دیرپا استحکام‘ اور دور رس اور ٹھوس ترقی حاصل ہی نہیں کر سکے اور نام نہاد آزادیوں کے بعد سرمایہ داری کا جبر و استحصال یہاں بڑھا ہی ہے۔
ان ممالک پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ موجودہ نظام میں ان کا مستقبل تاریک تر ہے۔ افغانستان 2001ء سے باقاعدہ سامراجی تسلط میں ہے۔ قبائلی جنگی سردار اور بنیاد پرست گروہ اس پر قابض ہیں۔ کابل اور چند اور شہروں کے علاوہ کہیں مرکزی حکومت کی رِٹ نہیں اور اس کٹھ پتلی حکومت کا اپنا وجود سامراجی فوج کی موجودگی کے مرہون منت ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ اس کی دو تہائی معیشت ویسے ہی کالے دھن پر مشتمل ہے‘ جس سے ریاست کی حدود و قیود اور رِٹ کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ عوام نسل در نسل غربت اور محرومی سے دوچار، حکمران طبقات تاریخی طور پر نااہل اور کرپٹ' اور ریاست داخلی تضادات سے لبریز ہے۔ ہندوستان خطے کا سب سے بڑا اور 'طاقتور‘ ملک ہے اور اس کے حکمران دنیا کی 'سب سے بڑی جمہوریت‘ کے دعویدار ہیں لیکن دنیا میں غربت کا سب سے بڑا ارتکاز بھی یہیں پر ہے۔ ویڈال گور نے ہندوستان کے بارے میں ایک مرتبہ کہا تھا ''یہ دنیا کا سب سے منظم انتشار ہے‘‘۔ محکوم قومیتوں کی جدوجہد، ذات پات کے تعصبات، سیاست دانوں، ریاستی مشینری اور کارپوریٹ ان داتائوں کی وسیع کرپشن کے سکینڈل، زینوفوبیا کا ابھار اور مذہبی قتل و غارت، توہم پرستی اور بدترین غربت آج کے ہندوستان کے معمولات ہیں۔ بی جے پی کی بنیاد پرست حکومت کو دو ستمبر کے عام ہڑتال کے ساتھ ایک تازہ دم طبقاتی جدوجہد کے ابھار اور کشمیری نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہے۔ ان تحریکوں نے اسے بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستانی حکمران جارحیت اور جنگ کے طبل بجا رہے ہیں تاکہ روایتی پاکستان دشمنی کے ذریعے ان تحریکوں کو زائل کر سکیں۔
نیپال ایک پہاڑی ملک ہے جو ہندوستان اور چین کے حکمرانوں کے درمیان سینڈوچ بن گیا ہے۔ بھوٹان ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کی حیثیت ہندوستان کے سیٹلائٹ سے زیادہ نہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک جابر 'جمہوری‘ حکومت ہے جو ایک ایسے الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آئی جس میں اپوزیشن نے شرکت ہی نہیں کی۔ انہیں شرکت سے یا تو روکا گیا یا بائیکاٹ پر مجبور کیا گیا۔ اگرچہ اس نے ہندوستان کی پیروی میں سارک کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا‘ لیکن اس کی پاکستان کے ساتھ اپنی چپقلش ہے جو زیادہ تر ماضی کے مسائل کی بنیاد پر ہے اور جسے وہاں کے حکمران اندرونی تضادات کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے محنت کش بدترین کارپوریٹ استحصال اور جبر کا شکار ہیں اور وہاں گارمنٹ فیکٹریوں کے انہدام یا آگ لگنے کے واقعات میں مزدوروں کی ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ دریائوں کے پانی کی تقسیم اور آسام اور بہار میں بنگلہ دیشی مہاجرین کے مسئلے پر بنگلہ دیش کے ہندوستان کے ساتھ اپنے جھگڑے بھی ہیں۔
سری لنکا بھی سامراجی عزائم کی حامل طاقتوں کی زد میں ہے۔ یہ بحر ہند میں ہندوستان اور چین کی دشمنی کے درمیان پھنس گیا ہے۔ یہاں پاکستان کے اپنے مفادات ہیں۔ بیرونی مداخلت کے علاوہ سری لنکا میں پچھلے کئی سالوں میں سنہالیوں اور تاملوں کے درمیان شدید قومی اور نسلی جنگیں ہوئی ہیں۔ اگرچہ تامل ٹائیگرز کو شکست ہوئی‘ لیکن سری لنکا میں قومی سوال اپنے حل سے بہت دور ہے۔ معیشت کے زوال کے ساتھ یہ پھر سر اٹھائے گا۔ مالدیپ بحر ہند میں ایک دور افتادہ جزیرہ اور ایک کمزور ریاست ہے اور خطے کے مختلف طاقتوں کی زد میں ہے۔ سارک میں اس کی اہمیت بہت کم ہے۔
اس اتحاد کا ہر رکن ملک روز افزوں سماجی، معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایسے میں علاقائی یکجہتی اور جڑت صرف ایک خواب ہی ہے۔ سارک معاہدے کے قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ حکمران طبقات کو داخلی مزاحمت کو دبانے کے لئے بیرونی جنگ کی نعرے بازی کی ضرورت ہوتی ہے۔کلازوٹز کے مطابق جارحانہ خارجہ پالیسی دراصل متشدد طریقے سے اندرونی سیاست کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔
کارپوریٹ میڈیا اور ریاستوں کی جانب سے اُگلے جانے والے مذہبی منافرت اور قومی شائونزم کے زہر کے برعکس اس خطے کے کروڑوں محنت کش انسانوں کی نجات کی منزل اور اس کا راستہ مشترک ہے۔ صرف طبقاتی بنیادوں پر جڑت اور جدوجہد ہی سامراج اور مقامی حکمران طبقات کے مسلط کردہ تعصبات کو چیر کر ان سماجوں کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ کسی ایک ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محنت کشوں کی فتح پورے خطے میں انقلابی تحریکوں کو جنم دے گی۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سارک کا اتحاد ایک فریب ہی رہے گا۔ منڈی کے اس نظام میں لوٹ مار اور منافع کی ہوس سماجی انتشار اور خونریز تصادموں کو بڑھاوا ہی دے سکتی ہے۔ لیکن جغرافیائی جڑت، مشترکہ تاریخ اور ثقافتی یکانگت ایک عظیم تر اتحاد کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ بھوک، استحصال اور خونریزی سے اس خطے کی آزادی اور اتحاد جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ منافع، مانگ اور استحصال سے پاک منصوبہ بند معیشت، تمام محکوم قومیتوں کی رضاکارانہ یونین، تمام شعبہ ہائے زندگی میں جنسی برابری اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول پر مبنی پر یہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی میں اس خطے کے عوام صدیوں کی محرومی سے آزاد اور یکجا ہو سکتے ہیں۔