تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     03-10-2016

سارک کانفرنس کی منسوخی سے بھارت تنہا ہوا

جنوبی ایشیاء کے ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کی گزشتہ تقریباً 31 برس کی تاریخ میں سالانہ سربراہی کانفرنسوں کا التوا یا کسی رکن ملک کی طرف سے اس کا بائیکاٹ کوئی نئی بات نہیں‘ جیسا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ 1985ء میں اپنے قیام سے اب تک ''سارک‘‘ کی سربراہی کانفرنس چار دفعہ ملتوی ہو چکی ہے اور اس کے پیچھے ہر دفعہ بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ اس دفعہ بھی بھارت نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر کے اس کی منسوخی کی راہ ہموار کی ہے لیکن اس بار بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور افغانستان نے بھی اسلام آباد کانفرنس میں شرکت سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔ نتیجتاً نیپال جو کہ اس وقت تنظیم کا چیئرمین ملک ہے اس کے پاس اسلام آباد یعنی 19 ویں کانفرنس کے التواء کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اگرچہ ''سارک‘‘ جنوبی ایشیا کے آٹھ آزاد اور خودمختار ممالک کی رضاکارانہ بنیادوں پر تشکیل پانے والی علاقائی تعاون کی ایک تنظیم ہے اور کسی رکن ملک کی جانب سے اس کے اجلاس میں شرکت سے انکار یا منسوخی کا فوری طور پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑتا لیکن ''سارک‘‘ کی اسلام آباد میں ہونے والی 19 ویں سربراہی کانفرنس جن حالات میں منسوخ کی گئی ہے‘ اُن کی روشنی میں اس سے نہ صرف پاکستان کے خلاف بھارت کے معاندانہ رویے کا پتا چلتا ہے‘ بلکہ اس تنظیم کے ماضی کے ریکارڈ میں کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ ہیں‘ کے مستقبل کے بارے میں بھی نئے اور اہم خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ 1985ء میں ''سارک‘‘ کے قیام کے پیچھے رکن ممالک کی کوششوں اور جدوجہد کی ایک طویل داستان موجود ہے۔ جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کے قیام کی کوششوں کا آغاز آزادی کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا لیکن پاکستان کی طرف سے سیٹو (1954) اور معاہدہ بغداد (1955) میں شرکت کی وجہ سے یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں تاہم 1970ء کی دہائی کے اختتام پر جب پاکستان نے دفاعی معاہدوں کو خیرباد کہہ کر غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنائی‘ 
جنوبی ایشیاء کی طرف رُخ کیا تو پاکستان نے اس خطے کیلئے علاقائی تعاون کی تنظیم کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان میں عملی طور پر بھی حصہ لیا۔ ان کوششوں میں بنگلہ دیش کے ایک سابق صدر ضیاء الرحمن نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں 1985ء میں ڈھاکہ کے مقام پر ''سارک‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اگر دنیا کی باقی تنظیموں مثلاً یورپی یونین (EU) اور آسیان (ASEAN) کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو سارک کی گزشتہ تقریباً تین دہائیوں میں پرفارمنس قابل رشک نہیں۔ مثلاً اب بھی سارک کے رکن ممالک کی بیرونی تجارت کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ علاقے سے باہر ممالک خصوصاً صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور جاپان سے ہے۔ رکن ممالک کے درمیان تجارت اور اشیاء کی نقل و حرکت کو سہل بنانے کے لیے سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا کا معاہدہ 2006ء سے نافذ العمل ہے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ علاقے کے دو سب سے بڑے ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان اب بھی تجارت پر پابندیاں ہیں۔ افغانستان بھی سارک کا رکن ملک ہے۔ لیکن پاکستان کے راستے اسے بھارت کے ساتھ تجارت کی اجازت نہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ''سارک‘‘ ایک بیکار تنظیم ہے اور اس کے غیر فعال ہونے سے جنوبی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس گزشتہ چند برسوں میں ''سارک‘‘ کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دنیا کے تمام اہم ممالک ''سارک‘‘ میں آبزور سٹیٹ کا سٹیٹس یا تو حاصل کر چکے ہیں یا اس کے حصول کے لیے لائن میں کھڑے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش نے معاشی شعبے میں جو اچھی پرفارمنس دکھائی ہے اس کی وجہ سے تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سارک 
کا علاقہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ سری لنکا میں تامل اور نیپال میں مائو پرست شورشوں کے خاتمہ کے بعد علاقے میں معاشی ترقی کے امکانات اور بھی روشن ہو گئے ہیں اور دنیا کے اہم صنعتی ممالک مثلاً یورپی یونین‘ چین‘ امریکہ‘ جاپان اور روس جنوبی ایشیائی ممالک خصوصاً بھارت کی ایک وسیع کنزیومر مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان 70 ارب ڈالر سے زائد دوطرفہ تجارت اور امریکہ اور بھارت کے درمیان تقریباً تمام اہم شعبوں میں تعاون پر مشتمل سٹرٹیجک اور کمرشل ڈائیلاگ اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ غیر سیاسی اور سماجی شعبے میں ''سارک‘‘ کی اہم کامیابی ''سوشل چارٹر‘‘ کی منظوری ہے جس پر عملدرآمد سے رکن ممالک میں بچوں‘ عورتوں اور اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگیوں میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم‘ صحت‘ ذرائع ابلاغ کی ترقی اور دہشت گردی کے خاتمہ اور مانع ادویات کی سمگلنگ کی روک تھام میں کافی بہتری آئی ہے۔ ''سارک‘‘ کے فریم ورک میں رکن ممالک کے درمیان آمدورفت کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سارک کے تحت مختلف شعبوں میں اب تک جتنے بھی اقدامات کئے گئے ہیں اُن کا سب سے زیادہ فائدہ تنظیم کے چھوٹے ممالک کو پہنچا ہے۔ اسی لیے سارک کے عمل میں اگر کوئی رکاوٹ پیدا ہو جیسے 
بھارتی رویے کی وجہ سے اسلام آباد کانفرنس کی منسوخی‘ تو اس کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹے ممالک کو بھی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی سارک کے چھوٹے ممالک نے پاکستان اور بھارت پر اپنے اختلافات کو ختم کرنے پر زور دیا ہے تاکہ سارک اپنے چارٹر کے تحت مقرر کردہ اہداف حاصل کر سکے۔ سارک نے صرف اقتصادی تجارتی اور سماجی شعبوں میں ہی نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کیں بلکہ ڈپلومیسی اور کشیدگی کو کم کرنے میں بھی سارک نے بعض نازک مواقع پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں تنظیم کے مختلف سربراہی اجلاس نے نہایت مفید پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ مثلاً 1997ء میں پاکستان اور بھارت میں دو طرفہ بات چیت پر ڈیڈ لاک ختم کرنے میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب اندر کمار گجرال کے مابین مالدیپ میں سارک سربراہی کانفرنس کے موقع پر ملاقات نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح 2003ء میں کھٹمنڈو (نیپال) میں سارک کی گیارہویں سربراہی کانفرنس کے موقعہ پر جنرل مشرف کی طرف سے اپنی سیٹ سے اُٹھ کر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سردمہری کی جگہ گرم جوشی نے لے لی‘ جو اس کے بعد اگلی سربراہی کانفرنس (اسلام آباد 2004ء) کے موقع پر 6 جنوری کے مشہور مشترکہ اعلامیہ پر منتج ہوئی۔ اس مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان اور بھارت نے مارچ 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ اور بیس پراسیس شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جو کہ اگرچہ اس وقت معطل ہے تاہم ختم نہیں ہوا۔ اگرچہ سارک کے باقاعدہ اجلاس میں دو طرفہ تنازعات پر بات چیت یا بحث نہیں ہو سکتی کیونکہ 1985ء میں متفقہ طور پر منظور کردہ سارک چارٹر کے تحت متنازع امور اور سیاسی اختلافات سارک کے دائرہ اختیار سے خارج ہیں۔ تاہم سربراہی اجلاس کے مواقع پر رکن ممالک کے سربراہان مملکت یا حکومت کی موجودگی کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کا فیصلہ کیا جاتا رہا ہے اور ان کا تعلق صرف اور صرف پاک ہند اختلافات سے ہی نہیں تھا‘ بلکہ بھارت اور سری لنکا اور بھارت و نیپال کے درمیان بھی ناراضگی یا کشیدگی کو ختم کرنے میں سارک سربراہی کانفرنسوں کے موقع پر بھارتی رہنمائوں کے ساتھ سری لنکا اور نیپال کے سربراہان کی غیر رسمی ملاقاتیں سودمند ثابت ہوئی ہیں۔ نومبر میں سارک کی 19 ویں سربراہی کانفرنس جس کی میزبانی پاکستان کر رہا تھا‘ بھی اسی قسم کا اہم کردار ادا کر سکتی تھی۔ جیسا کہ ابتداء میں کہا جا رہا تھا اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں وزیراعظم نریندر مودی کی شرکت متوقع تھی۔ اسلام آباد میں بھارتی وزیراعظم کی موجودگی اور پاکستانی حکام بشمول وزیراعظم نوازشریف سے اُن کی ملاقات سے نہ صرف دونوں ممالک میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملتی بلکہ متنازعہ امور جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے‘ پر دوطرفہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر بھی فیصلہ ہو سکتا تھا۔ اس سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے علاوہ جنوبی ایشیاء میں امن کی فضاء بھی مستحکم ہو سکتی تھی۔ لیکن بھارت نے بائیکاٹ کے ذریعے سارک سربراہی کانفرنس کو منسوخ کروا دیا۔ بھارت کے اس اقدام سے نہ صرف دونوں ملکوں میں کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے‘ بلکہ یہ ''سارک‘‘ کے عمل پر بھی ایک کاری ضرب ہے۔ حالانکہ اس تنظیم میں بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے سات اور ممالک بھی شامل ہیں۔ ان سب کے اہم مفادات اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔ بھارت نے اپنے اقدام سے سارک کے باقی تمام رکن ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ بھوٹان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھی اسلام آباد میں شرکت سے معذوری کا اظہار کر کے بھارت کا ساتھ دیا ہے‘ تاہم اس کی وجوہ اور ہیں۔ جہاں تک سارک کانفرنس کی منسوخی کا تعلق ہے بھارت کے علاوہ کوئی بھی رکن ملک اس پر خوش نہیں‘ اسی طرح کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے بھارت نے پاکستان کو الگ تھلگ نہیں کیا بلکہ حقیقت میں اس نے خود کو خطے میں الگ تھلگ کر لیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved