آپ کو نامانوس سا عنوان پڑھ کر یقینا حیرت ہوگی ۔در اصل عربی میں کنواری عورت کو ''عَذ راء‘‘کہتے ہیں،جسے انگریزی میں Virginکہاجاتا ہے ۔جو شخص کسی کنواری خاتون سے شادی کرے ،اُسے عربی زبان میں ''ھُوَ اَبُوْ عُذْ رِہٖ‘‘کہتے ہیں، یعنی اُس نے کنوارے پن کا ازالہ کیا اور کرکٹ میں جس بالر کے کسی اوور میں بیٹسمین کوئی رنز نہ بناسکے ،اُسے Maidenکہتے ہیں، یعنی اُسے بھی کنوارے پن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔جنگلوں اور بیابانوں میں راستے بنے ہوئے نہیں ہوتے ،ہر مسافر کواپنا راستہ بنانا ہوتا ہے، اسی طرح برف سے ڈھکے ہوئے بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پگڈنڈی ہوتی ہے ،وہ برف تلے چھپ جاتی ہے اور مسافر ذرا سی چُوک یا بے احتیاطی کے سبب گہری کھائی میں جاگرتا ہے ۔ا لغرض جس پگڈنڈی یا راستے پر پہلے کوئی نہ چلا ہو، اُسے عربی میں ''طَرِیْقٌ عَذْرَاء‘‘ یعنی کنوارا راستہ کہتے ہیںاورجو پہلا راہی اُس پر چلے اور راستہ بنائے،اُسے عربی میں ''ھُوَ اَبُوْ عُذْ رِہٖ‘‘کہتے ہیں۔اس کے مقابلے میں جو راستہ چلتے چلتے پختہ ہوگیا ہو ،اُسے ''طَرِیْقٌ مَوْطُوْئَۃٌ‘‘یعنی ''روندھا ہوا راستہ‘‘کہتے ہیں۔عربی کے مشہور ادیب حریری اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں :میں نے اپنی کتاب ''مقاماتِ حریری‘‘میں دوسروں کے صرف دو اشعار لکھے ہیں اوردوشعروں پر تضمین کی ہے ۔اِن کے علاوہ باقی تمام اشعار میرے اپنے ہیں،سو وہ اُن کے بارے میںلکھتے ہیں:''فَخاطِرِیْ اَبُوْعُذْرِہ ٖ‘‘، یعنی وہ تمام اشعار میری اپنی جودتِ فکر کا نتیجہ ہیں، میری اپنی تخلیق ہیں اور مجھ سے پہلے کسی کے ذہن میں اس جیسا خیال نہیں آیا۔عربی کے مشہورشاعرمتنبّی اپنے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اُس کے موزے یعنی کھُر گھِسے ہوئے یا پھٹے ہوئے ہیں،اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل سفر طے کرنے اورنئے نئے راستوں پر چلنے کا عادی ہے ،وہ بھی ''طَرِیْقُھَا عَذرَائُ‘‘کے کلمات استعمال کرتے ہیں، عربی میں ''طَرِیْق‘‘راستے کو کہتے ہیں۔سو آج ہمارے بدعنوانیوں سے آلودہ اِس فرسودہ نظام کو بدلنے اور جڑ سے اکھیڑنے کا کام جو شخص انجام دے گا،بجا طور پر اُس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے :''ھُوَ اَبُوْ عُذْ رِہٖ‘‘۔
پہلے سے قائم استحصالی نظام برقراررکھنے کوہماری سیاسی اصطلاح میں ''Status quo‘‘کہتے ہیں اور تبدیلی کی راہ میں مُزاحم قوتوں کو بھی ''Status quo‘‘کی حامی یا مُراعات یافتہ طبقہ(Privileged class)کہاجاتا ہے۔وہ تبدیلی کی مُزاحَمت اس لیے کرتے ہیں کہ کسی بھی تبدیلی کی صورت میں اُن کے مفادات پر زَد پڑے گی اوراستحصال پر مبنی نظام پر اُن کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی۔انبیائے کرام کو بھی ہر دور میںاس طبقے کی شدید مُزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(1):''اور جب اُن سے کہاجاتا ہے:آئو اُس دین کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور (آئو)رسول کی طرف،تو کہتے ہیں:ہمیں وہی (شعارِ زندگی) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ،خواہ اُن کے باپ دادا کسی چیز کا علم نہ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں، (المائدہ:104)‘‘۔
(2): '' اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں ،تو کہتے ہیں:ہم نے انہی کاموں پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ہمیں اللہ نے ان کاموں کا حکم دیا ہے ،آپ کہیے: بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا ،کیا تم اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہوجس کا تمہیں علم نہیں ہے، (الاعراف:28)‘‘۔
(3):''اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا:یہ کیسی مورتیاں (بُت) ہیں جن کے آگے تم (عبادت کے لیے) آسن جمائے رہتے ہو،انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا تھا،انہوں نے کہا: بے شک تم اور تمہارے باپ دادا کھلی گمراہی میں تھے،(الانبیاء:52-54)‘‘۔ الشعراء آیت:84،لقمان ،آیت:31،الزخرف، آیت:22-23 میں اسی مضمون کو دہرایا گیا ہے۔
الغرض حق آشکار ہونے کے باوجود ہر دور کے باطل پرستوں کے پاس ایک لگی بندھی دلیل ''دینِ آباء‘‘کی تھی اور آبائواجداد پر تفاخُر اُن کا شِعار تھا،یہی ان ادوار کا Status quoتھا۔فتحِ مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اِسی بُت پر کاری ضرب لگائی اور فرمایا:''اور بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نَخوَت اورنسبی تفاخر کو مٹادیا ہے،تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے ،پھر آپ نے سورۂ حجرات کی آیت :13تلاوت فرمائی ۔اِسی موقعے پر آپ نے فرمایا:''سنو!عہدِ جاہلیت کے سودی مطالبات ،(نسل در نسل جاری رہنے والی) خونی انتقام کی روایت،اپنی نسبی برتری پر فخر ومُباہات(Arrogance) اور زمانۂ جاہلیت کے مالی مطالبات کو میں آج اپنے قدموں تلے پامال کر رہا ہوں (لہٰذا ان سب چیزوں کواب قصۂ پارینہ سمجھا جائے)،(سُبُلُ الھُدیٰ وَالرَّشَاد فِی سِیْرَۃِ خَیْرِ الْعِبَاد،ج: 5، ص: 642)‘‘۔
لیکن آج ہم جس صورتِ حال سے دوچار ہیں ،وہ ماضی کی ان امتوں کی اَقدار سے مختلف ہے۔وہ لوگ یقینا گمراہ ،کٹ حُجّت، اَڑیَل اور ضدی تھے ،مگر اُن میں مُنافَقت اور دوغلاپن نسبتاً کم تھا ۔چنانچہ ابوسفیان جب قیصرِروم کے دربار میں پہنچے،تو بادشاہ نے اُس سے مُدعیٔ نبوت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بابت جاننے کے لیے متعدد سوالات کیے ،جن میں سے ایک یہ تھا :کبھی انہوں نے جھوٹ بولا ہے ؟،تو ابوسفیان نے کہا: نہیں۔ابوسفیان اُس وقت تک رسول اللہ ﷺ کے شدید ترین مخالفین کا سردار تھا۔وہ عداوت کے جذبے سے مغلوب ہوکر العیاذ باللہ !کہہ سکتا تھا کہ وہ جھوٹے ہیں، مگر اُسے اپنے وقار اور منصب کا پاس تھا ،سو اُس نے شدید عداوت کے باوجود ایسا نہیں کیا ۔اس لیے یہ لوگ یا تو حق سے ٹکراکرفنا ہوگئے اور یا حق آشکار ہونے کے بعد اُس کے سامنے سرنگوں ہوگئے اور آج بھی تاریخ اُن کے اس دوسرے طبقے کی تعریف میں رَطبُ اللِّسان ہے۔علامہ اقبال نے چنگیز خان کے پوتے ہلاکوخان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد اُن کی قلبِ ماہیت اور حق کے آگے سرنِگوں ہونے کے بارے میں کہا تھا:
تو نہ مٹ جائے گا، ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلّق نہیں، پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے، کعبے کو صنم خانے سے
لیکن موجودہ دور میں ''Status quo‘‘کی قوتیں انتہائی عیّار ،مطلب برار،منافق اور ابنُ الوَقت ہوتی ہیں ۔ان کا موٹویہ نہیں ہوتا کہ '':گرزمانہ باتو نہ سازد، تو بازمانہ ستیز‘‘یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ نِباہ نہیں کرتاتوتم زمانے کے آگے سِپر انداز ہونے کی بجائے سینہ سِپر ہوجائواورٹکرا جائو،بلکہ ان کا موٹو یہ ہوتا ہے :'' گرزمانہ باتو نہ سازد،توبازمانہ بساز‘‘یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ نِباہ نہیں کرتا یا تمہارے سامنے سرنِگوں نہیں ہوتا یا تم سے مفاہمت نہیں کرتا تو تم اپنے مفادات کو قربان کر کے اُس سے ٹکرانے کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اُس کے آگے سرنگوں ہوجائو اور اُس سے مفاہمت کرلو۔ اصل مقصد اصول پسندی نہیں بلکہ مطلب براری ہونا چاہیے ، اِسی کو ہمارے اردو محاورے میں کہاجاتا ہے: ''ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنالیاجاتا ہے‘‘۔
لہٰذاآج مراعات یافتہ اور مفاد پرست طبقے کو اقتدار کی بساط الٹتی نظر آئے تو اُن کی سیاسی قوتِ شامّہ (Smelling Sense)بڑی تیز ہوتی ہے ،وہ ہوا کے رُخ کو تبدیلی سے پہلے سونگھ لیتے ہیں ،اصول پرستی کا روگ نہیں پالتے،بلکہ ہوا کے رُخ پراُس سے بھی آگے چل پڑتے ہیں ،اِسی کو ہماری سیاسی زبان میں ''فلور کراسنگ‘‘کہتے ہیں۔تحریکِ پاکستان کامیاب ہوتی نظر آئی تو پنجاب کی یونینسٹ پارٹی نے اپنے آپ کو تحلیل کر کے مسلم لیگ میں شامل ہونے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگائی اور مذمّت کے نعرے آنِ واحد میںستائش میں تبدیل ہوگئے اور نیا نعرہ لگا :
ابھی ابھی خبر آئی ہے
خضر ہمارا بھائی ہے
اس سے ملتا جلتا عربی زبان کا ایک لفظ ''بَدِیْع‘‘ہے،جس کی تعریف یہ کی گئی ہے :''پہلے سے موجود کسی مثال کے نہ ہوتے ہوئے کوئی نئی چیز ،نئی روِش یا نیا شِعار ایجاد کرنا‘‘۔ عہدِ رسالت مآب ﷺ کے بعد قرنِ اول میں اس کی بہترین مثال امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشِعارِ خلافت یاطرزِ حکومت ہے ،جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ اکابر صحابۂ کرام کو اپنی مجلسِ شوریٰ میں شامل کیا اوراہل الرائے کی مشاورت سے نظامِ حکومت چلانے کی بنیاد ڈالی ۔سرکاری خزانے میں آنے والے مال کے لیے انہوں نے یہ شرط لگائی :حق کے ساتھ لیا جائے اورحق کے مطابق دیا جائے اورلینے اور دینے میں باطل کو ممنوع قرار دیا جائے، میں کسی کو کسی پر ظلم کرنے نہیں دوں گا یہاں تک کہ ظالم حق کے آگے سرنگوں ہوجائے ۔انہوں نے کہا: ریاست کے مال میں میرا اتنا ہی حق ہے جیسے ایک یتیم کے مال میں اُس کے سرپرست کا ہوتا ہے کہ اگر میں خود کفیل ہوں تو بیت المال سے اپنی ذات پر کچھ بھی خرچ نہ کروں اور اگر میں ضرورت مند ہوں تو صرف بقدرِ ضرورت صَرف کروں ۔انہوں نے کہا: عدل ریاست کی ذمے داری ہے اور سنتِ رسول ہے ۔قاضی کے سامنے پیش ہونے والے فریقین(مدعی ومدعیٰ علیہ) کے ساتھ یکساں سلوک ہو،کمزور اپنے آپ کو بے سہارا محسوس نہ کرے اور طاقت وَر بے جا رعایت کی امید نہ لگائے ۔ہر دعوے کا بارِ ثبوت مدعی پر ہے اور دعوے کو رَد کرنے کی صورت میں مدعیٰ علیہ کو قسم دی جائے گی ۔فریقین میں صلح جائز ہے ،مگر جو صلح حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردے ،کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ قاضی پیش آمدہ مسئلے کے حل کے لیے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرے اور کتاب وسنت میں حل نہ ملے تو پہلے سے موجود عدالتی نظائر پر قیاس کرے ۔اگر فیصلہ صادر کرنے کے بعد قاضی کو شرح ِ صدر ہوجائے کہ فیصلہ درست نہیں ہوا ،تو اُس سے رجوع کرلے۔جب وہ فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس گئے اورایک پہاڑی چوٹی پر کھڑے ہوکر اردگرد نظر دوڑائی۔انہیں ہر سو لہلہاتے ہوئے کھیت اور باغات نظر آئے ،انہوں نے محسوس کیا کہ دولت کی اِفراط قوموں کے کردار کو تباہ کردیتی ہے ۔انہوں نے قومِ فرعون کے عبرت ناک انجام کے بارے میں قرآنِ مجید کی یہ سبق آموز آیات پڑھیں:''وہ کتنے ہی (دلکش )باغات اور) میٹھے پانی کے( چشمے ،(لہلہاتے ہوئے )کھیت اور عالی شان محلات اور نازو نِعَم کے اسباب ،جن میں وہ محوِ عیش تھے ،چھوڑ گئے ،ایسا ہی ہوا اور ہم نے دوسروں کو اُن کا وارث بنادیا۔سواِن کی بربادی پر نہ( چشمِ) فلک روئی اور نہ ہی زمین اور ( مکافاتِ عمل کاوقت آیاتو) انہیں کوئی مہلت بھی نہ ملی،(الدخان:25-29)‘‘۔پس معلوم ہوا کہ مثالی حکمران وہی ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنالیتے ہیں اور اُن کے بعد بھی دنیا انہیں چھلکتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ یاد کرتی ہے۔