قوموں اور ملکوں کو سب سے بڑھ کر امن اور استحکام درکار ہوتا ہے۔ بھارت ایسا دشمن ہے جس کی پشت پہ امریکہ کھڑا ہے اور اس پر یہ غیر ذمہ داری ‘غور فرمائیے‘ حضور والا‘ غور فرمائیے۔
تحریک انصاف اب ایک جماعت ہے۔ جمعہ کو رائے ونڈ روڈ کے اجتماع سے یہ نکتہ آشکار ہے۔ وقت آ گیا کہ اس کے مخالفین‘ اب سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ خود اس کے اپنے کارکن اور رہنما بھی۔ کل عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے تو نون لیگ کیا کرے گی اور وہ نون لیگ کے ساتھ کیا کریں گے؟
اندیشہ بڑھتی ہوئی تلخی سے جنم لیتا ہے۔اس غیر ذمہ دارانہ طرزعمل سے جو ہر طرف کارفرما ہے۔ اجتماع کا ابھی آغاز تھا کہ ایک نیم سرکاری چینل نے ایک خاتون کے ساتھ مبینہ بدتمیزی کا واویلا شروع کیا۔ ممکن ہے کسی گنوار نے چھچھور پن کا مظاہرہ کیا ہو‘ مگر یہ تو ایک مہم تھی۔ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں گاہے ایسے واقعات ہوا کرتے۔ خوش بختی یہ تھی کہ الیکٹرانک میڈیا سرگرم نہ تھا۔ مقبولیت کی دوڑ اخبارات میں بھی ہوتی ہے‘ لیکن ایک ذرا مختلف انداز میں۔ لکھنے والے کے پاس غور و فکر کا وقت ہوتا ہے۔ پھر وہ کسی نہ کسی مدیر کی تنقیدی نگاہ سے گزرتا ہے۔
''قسم ہے قلم کی جو کچھ وہ لکھتے ہیں‘‘۔ تحریر کی ایک تقدیس ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ ستر کے ستر چینل دیکھ لیجئے‘ کہیں ڈھنگ کی کوئی بات نہ ہو رہی ہو گی۔ جب وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں ایک واقف حال نے بتایا کہ کس طرح کے پروگرام وہ دیکھتے ہیں‘ تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ خود وزیراعظم طیب اردوان نے ایک بار انہیں ٹوکا تھا۔ کتاب سے جس کا رشتہ نہ ہو‘ صاحبان علم کی صحبت سے گریز ہو‘ خیال و فکر کی گہرائی اور بالیدگی اس میں کہاں سے آئے گی۔ خود تنقیدی کا شعور کس طرح پیدا ہو۔
نجیب اور کامران حاکم وہ تھے‘ اعتراض اور اختلاف کرنے والوں کو جو دعوت دے کر بلایا کرتے۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ اور جناب عمر بن عبدالعزیزؒ‘ دونوں کا شعار یہ تھا۔
حجاج بن یوسف وہ پہلا بدبخت تھا‘ اسلام قبول کرنے والوں سے بھی‘ جس نے جزیہ وصول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بنو امیہ میں پھر یہ شعار ہو گیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ جب سلیمان بن عبدالملک کے وارث قرار پائے‘ اپنی جاگیروں سمیت‘ شاہی خاندان کی سب جاگیریں منسوخ کر دیں۔ پھر نو مسلموں سے جزیہ وصول کرنے کا سلسلہ موقوف کرنا شروع کیا۔
ٹوکنے والا ان کے گھر میںموجود تھا۔ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد شب بھر جاگتے رہے تھے۔ یوں بھی شب بیدار تھے‘ کم ہی سویا کرتے۔ رات گئے مشورے کا سلسلہ جاری رکھتے۔ چن چن کر کھرے لوگوں کو جمع کرتے۔ فقہ سے شغف سوا تھا۔ بہت بعد میں آنے والے صلاح الدین کی طرح‘ عمر بھر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک زمانے میں خود اس قدر دسترس تھی کہ بڑے بڑے ششدر رہ جاتے۔ ایوان اقتدار کا شہزادہ‘ رئیسانہ زندگی‘ مدینہ کے گورنر بنائے گئے تو ستر اونٹوں پر سامان لد کر گیا۔جس گلی سے گزرتے خوشبو گواہی دیتی۔ نجابت تب بھی ایسی تھی کہ جناب امام حسینؓ کی صاحبزادی تشریف لائیں تو مودب کھڑے رہے۔
بنو امیہ نے ستم یہ کیا تھا کہ سیدنا علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ‘ پہ تبریٰ کیا کرتے۔ یک قلم اسے منسوخ کر دیا ۔ احترام سے اہل بیت کا نام لیتے۔ دوپہر ہوئی تو کہا کچھ دیر آرام کر لوں۔ فرزند عبدالملک نے کہا : اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ سو کر اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ابھی احکامات صادر کیجئے۔
گاہے طبیعت میں جلال جاگ اُٹھتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر عبدالملک نے ٹوکا : آپ تو غصے میں آ گئے۔ کہا : فرزند کیا تمہیں کبھی غصہ نہیں آتا۔ اس کا پیٹ کچھ بڑا تھا۔ کہا : اس پیٹ کا کیا فائدہ‘ اگر میں برہمی ہضم نہ کر سکوں۔
ایک کے بعد دوسرے گورنر کو لکھتے کہ نو مسلموں سے جزیہ نہ لیا جائے۔ بعض اوقات افراد اور علاقوں کے نام لکھ بھیجتے کہ فلاں سے زیادتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرے مشیر نے جب یہ کہا کہ اس طرح آمدن کم ہو جائے گی تو کہا : اللہ نے اپنے آخری پیغمبر کو تحصیلدار بنا کر نہیں بھیجا تھا۔ اتنی کثرت سے یہ جملہ برتا کہ ضرب المثل ہو گیا۔ ایک دن کہا : میں چاہتا ہوں کہ میں خزانے جھاڑ دے دوں۔
یاللعجب ‘کم ہونے کی بجائے ٹیکس بڑھنے لگا۔ اب تو ایک طرح کی عبادت ہی تھی۔ سرمائے پر سب سے بڑا حق اب محتاجوں کا تھا۔ لشکروں کے اخراجات‘ سڑکیں اور پل۔ آخری برس آمدن ساڑھے دس کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ عمر فاروق اعظمؓ کے دور سے ایک ڈیڑھ فیصد کم۔ کہا : انشاء اللہ اگلے برس‘ ان کے دور سے بھی بڑھ جائے گی ۔وہ سال مگر ان پر طلوع نہ ہوا۔ قیصر روم نے ان کی وفات پر کہا تھا : بادشاہ نہیں‘ وہ ایک راہب تھا۔ دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ پھر صلاح الدین ایوبی نے اس طریق کو زندہ کیا ۔بہت بعد میں ایک حد تک سلطان ٹیپو نے۔ مغربی ممالک سے ڈیڑھ صدی پہلے‘ 1799 ء میں تو وہ دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔
اقتدار اور دولت کے بھوکوں کو کون بتائے کہ ہاتھ اٹھا لینے میں کیسی عافیت اور رفعت ہے۔ ٹیپو کے حسن اخلاق کا عالم یہ تھا کہ ہزاروں لوگ‘ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ان میں ایک ڈاکو بھی تھا‘ سلطان شہید کے بعد جس نے جنگل کا رُخ کیااور دو برس تک انگریزوں سے برسر جنگ رہا۔ اقبالؔ کو یونہی ان سے عقیدت نہ تھی۔ اس کے مزار کا قصد کیا اور کتنی ہی نظمیں لکھ ڈالیں ؎
روز ازل مجھ سے یہ جبریل نے کہا
جو عقل کا غلام ہو‘ وہ دل نہ کر قبول
اقبالؔ کے ہاں عقل ایک اور معنی رکھتی ہے۔ وحی کی روشنی سے محروم منصوبہ بندی کا استعارہ۔
دانش تو وگرنہ دین کا حصہ ہے‘ ایمان‘ ایثار اور حکمت۔ہاں !مگر دنیا کی محبت۔ قرآن کریم کہتا ہے ''مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘‘۔ فرمایا'' آدمی میں دولت کی محبت زیادہ ہوتی ہے‘‘ جنگ اسی سے لڑنا ہوتی ہے۔ خود اپنی جبلت سے۔ یہی جہاد اکبر ہے۔ روزہ رکھنا مشکل سہی‘ مسافروں اور محتاجوں کو کھلانا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ روحانی بالیدگی مگر اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اہل ایمان کے بارے میں اسی لیے کہا گیا ''ایثار کرتے ہیں‘ خواہ تنگ دست ہوں... اور یہ بھی کہ ''وہ غصّہ پی جاتے ہیں‘‘۔
شکایت اور اختلاف ایک چیز ہے‘ عداوت اور بغض و عناد بالکل دوسری۔ اسی زمین پر آدمی کی جو آزمائشیں ہیں‘ ان میں سے ایک بڑی آزمائش کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے:'' تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے‘‘۔ فضیلت معاف کرنے میں رکھی گئی‘ انتقام میں نہیں۔
عمران خان اور اس کے حریفوں میں اختلاف نہیں‘ اب بغض و عناد کارفرما ہے۔ دونوں ہی گروہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ سرکاری اخبار نویس اور بعض وزراء کرام اس کو ہوا دیتے ہیں۔ سرکاری صحافیوں کی تنقید بے ثمر ہو گی۔ تمام کاوشیں بے نتیجہ رہیں گی۔ درباریوں کی گواہی کون تسلیم کرتا ہے؟
جمعہ کے جلسہ عام کے لیے قافلے ملک بھر سے آئے۔ انتظامات میں بھی سلیقہ دکھائی دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ اب یہ امکان موجود ہے کہ کسی وقت وہ اقتدار حاصل کر لے۔ پاکستانی تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ کسی بھی حکمران کو زیادہ سے زیادہ دس گیارہ برس تک گوارا کیا جاتا ہے۔ پھر حامی بھی اکتا جاتے ہیں‘ وہ بھی ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجاب‘ سرحد میں یہ سانحہ ہو چکا۔ نون لیگ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
احتساب کا مطالبہ جائز مگر عمران خان کا لہجہ ناموزوں ہے ۔ ظاہر ہے کہ نون لیگ کا بھی۔ اگر پی ٹی آئی ‘شریف حکومت کو اکھاڑ پھینکے۔ فرض کیجئے ‘اس کے بعد وہ اقتدار بھی پا لے تو ملک کو قرار اور استحکام حاصل نہ ہو گا۔
قوموں اور ملکوں کو سب سے بڑھ کر امن اور استحکام درکار ہوتا ہے۔ بھارت ایسا دشمن ہے جس کی پشت پہ امریکہ کھڑا ہے اور اس پر یہ غیر ذمہ داری ‘غور فرمائیے‘ حضور والا‘ غور فرمائیے۔