تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     05-10-2016

پانی کی بندش، حقیقت یامحض دھمکی؟

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے دھمکی دی ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرکے پاکستان کے تین دریائوں کا پانی بند کر دے گا۔ اس کی اس دھمکی کی ساری دنیا نے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم بلاوجہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی پیدا کررہاہے، اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ساتھ دو دو ہاتھ ہوجائیں، لیکن اس میں ہمت نہیں ہے، ہر چند کہ اس کے انتہا پسند ساتھی خصوصیت کے ساتھ اس کا قومی سلامتی کا مشیر اجیت ڈوول اس کو پاکستان کے خلاف فوج کشی کرنے کا مشورہ دے رہاہے، لیکن بھارت کے اندر سیکولر اور اعتدال پسند افراد وزیراعظم بھارت کو اس خطرناک مہم جوئی سے روک رہے ہیں‘ اوراُنہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرے ‘ اس کے ساتھ ہی پاکستان اور کشمیری عوام سے براہ راست بات چیت کرکے کشمیرکے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے،لیکن ابھی تک بھارتی وزیراعظم پر ان مثبت باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے، وہ مسلسل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرکے موجودہ حالات میں مزید تلخی پیدا کررہاہے، اسی پس منظر میں اس نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ جیسا کہ قارئین کو یاد ہوگا‘ عالمی بینک کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا تھا، طویل بات چیت کے بعد اس معاہدے پر کراچی میں 19ستمبر1960میںبھارت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو اور پاکستان کے صدرمرحوم ایوب خان نے دستخط کئے تھے۔ اس تاریخی معاہدے کے تحت مشرقی دریائوں بیاس، ستلج اور راوی کا کنٹرول بھارت کو دیا گیا تھا، جبکہ مغربی دریائوں ، سندھ، پنجاب اور جہلم پر کنٹرول پاکستان کا ہوگا۔اس معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں نے اس سے متعلق اپنے تحفظات پرکھل کر کبھی اظہار نہیں کیا، جبکہ مغربی دریائوں کا سارا مسئلہ بھارت سے منسلک ہے۔کہا جاتاہے کہ جنگ کی صورت میں بھارت ان تین دریائوں کا پانی روک کر پاکستان کے زرعی شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، اور قحط جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، تاہم ابھی تک یعنی کئی دہائیاں گزرجانے کے بعد یہ معاہدہ اپنی جگہ موجود ہے اور اس کے ساتھ دریائوں کی روانی بھی!لیکن حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے سے متعلق جو دھمکی دی ہے، اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوگا، کیونکہ بھارت کے پاس ان دریائوں کا پانی روکنے کی استطاعت ہی نہیں ہے؛ تاہم اگر نریندرمودی نے ایسا کوئی اقدام کیا تو یہ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ یہ الفاظ سرتاج عزیز خارجہ امور کے مشیر نے کہے ہیں اسی طرح کے الفاظ سینٹ کے چیئر مین جناب رضاربانی بھی کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میںادا کئے ہیں، چنانچہ بھارتی وزیراعظم کو سندھ طاس معاہدے کو توڑنے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے، اگر اس نے اس قسم کی حماقت کی 
تو ورلڈ بینک سمیت ساری دنیا اس کی مذمت کرے گی، اور اس کو ایسا قدم اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی، ورلڈ بینک کے بعض موجودہ افسران اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں، کہ سندھ طاس معاہدے سے بھارت کو فائدہ ہوا ہے، جہاں وافر مقدار میں پانی موجود ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت وہ مغربی دریائوں کا پانی روک نہیں سکتا ہے، تاہم بعض اطلاعات کے مطابق وہ مغربی دریائوں پر ڈیم بنا رہا ہے، تاکہ ان دریائوں سے زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کیاجاسکے اوراس کو زراعت اور بجلی پیدا کرنے کے سلسلے میں استعمال کیا جاسکے، یقینا یہ اطلاعات پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کرنی ہونگی، محض اخباری بیانات دے کر اس طرح کے سنگین نوعیت کے معاملے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ نریندرمودی جیسے انتہا پسند شخص سے خیر کی امید رکھنا عبث ہے، وہ پاکستان دشمنی میں کسی بھی حد تک جاسکتاہے، سندھ طاس معاہدے کو توڑنے سے متعلق اسکا حالیہ بیان پاکستان اور مسلمان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی کو روکنا شروع کردیاہے، بگلیہارڈیم کی تعمیر پرپاکستان کو شدید تحفظات ہیں پاکستان نے اس سلسلے میں اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، اسوقت بھی بھارت مزید ڈیم بنا کر پاکستان کے زرعی شعبے کے لئے مسائل پیدا کررہا ہے، حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے سلسلے میں ایک مستقل کمیشن قائم ہے، جہاں دونوں ممالک تنازعے کی صورت میں اپنا موقف پیش کرسکتے ہیں، تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تین جنگوں کے باوجود یہ معاہدہ اپنی جگہ قائم ہے، اور حالات کے سرد گرم سے گزر چکا ہے،ماضی میں بھارت کے کسی بھی وزیراعظم نے اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ ہونے کی دھمکی نہیں دی۔
سندھ طاس معاہدے سے علیحدہ ہونے کی بھارت کے وزیراعظم کی دھمکی دراصل مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک سے عالمی سطح پر توجہ ہٹانے کی بھونڈی کوشش ہے، حالانکہ بھارت کے 
انتہا پسند وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ فی الفور مقبوضہ کشمیر میںحالات معمول پر لانے کی کوشش کرے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم وجبر کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، نیز وادی سے اپنی سات لاکھ قابض فوج کو واپس بیرکوں میں لائے تاکہ کشمیریوں سمیت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے، دراصل مودی حریت پسند نوجوان لیڈر برہان وانی کو شہید کرکے اپنے ہی پیدا کردہ نامساعد حالات میں پھنس چکا ہے۔ اب تک بھارت کی قابض فوج نے ایک سو دس سے زائد نہتے کشمیریوں کو شہید کیا ہے، تقریباً دوسو سے زائد افراد کو پیلٹ گن کے ذریعہ نابینا کردیاہے، 6ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں، مسلسل کرفیو کی صورت میں وادی میں سیاسی وسماجی حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں جو اب تک رکنے میں نہیں آرہے ہیں۔امریکہ سمیت یورپ کی بعض طاقتیں اس صورتحال پر خاموش ہیں ، محض یہ نصیحت کہ بھارت اور پاکستان دونوں مذاکرات کا آغاز کرکے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ کشمیر کے معاملات کو حل کرنے میں معاون ومددگار ثابت نہیں ہوسکتی ۔ سب سے پہلے بھارت پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ قتل وغارت گری کا بازار بند کرے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو آگے بڑھ کر وادی میں تشدد رکوا کر بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے ، ورنہ جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور کشیدگی بڑھتی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved