صحابہ کرامؓ کا یہ شرف اور امتیاز ہے کہ انہیں امام کائنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رفاقت حاصل ہوئی۔ دنیا کی کوئی رفاقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے اور آپ کی بے مثال رہنمائی نے صحابہ کرام ؓ کو سیرت و کردار کے اعتبار سے انتہائی اعلیٰ اور بلند مقام پر فائز کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نے ان کی فکری صلاحیتوں اور استعداد کو اس انداز میں جلا بخشی کہ صحابہ کرام ؓ جرأت، بہادری، فیاضی، امانت و دیانت کی اعلیٰ ترین مثال بن گئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام حمید میں صحابہ کرام ؓ کو اپنی رضا کی خوشخبری سنا دی۔ صحابہ کرامؓ نے جس دور میں ایمان اور اسلام کو اختیار کیا‘ اس دور میں ایمان اور اسلام کے راستے پر چلنا کانٹوں اور انگاروں پر چلنے کے مترادف تھا۔ حضرت بلال حبشیؓ، حضرت سمیہؓ، حضرت زنیرہ ؓ اور بہت سے دیگر صحابہ کرام ؓ کو جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا اس کی مثال تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ ہر طرح کی ابتلاؤں، اذیتوں اور مشقتوںکو سہنے کے باوجود صحابہ کرامؓ ایمان اور اسلام کے راستے پر سختی سے کاربند رہے۔ مشقت اور فتنے کے اس دورِ پُرآشوب میں جبکہ کفار نے مسلمانوں کے لیے مکہ کی زمین تنگ کر دی تھی اور کسی بھی شخص کے لیے اپنے اسلام کو ظاہر کرنا آسان نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ! اسلام کو عمر ابن الخطاب یا عمر ابن ہشام کے ذریعے تقویت عطا فرما۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول و منظور فرما لی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام رئوسائے مکہ اور سردارانِ قریش کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ کل تلک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کی دشمنی پر آمادہ و تیار تھے تو آج اسلام کی حمایت میں اپنی تمام توانائیاں وقف کر چکے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام سے اہل اسلام کو زبردست تقویت حاصل ہوئی اور ان کا مورال بلند ہو گیا۔ گو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول اسلام کے بعد بہت سی تکلیفیں برداشت کیں‘ لیکن آپ کی بہادری اور شخصی وجاہت کے سامنے کفار مکہ اکثر و بیشتر بے بس ہو جایا کرتے تھے اور آپ کے بارے میں اپنے منفی اور برے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کی سرزمین کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم پر خیرباد کہا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیگر مسلمانوں کی طرح اپنے آباؤاجداد کے شہر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد زندگی مسلمانوں کے لیے آسان نہیں تھی۔ کفار پے در پے مسلمانوں کی سلطنت پر حملہ کرنے میں مصروف تھے۔ ایسے عالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی قلیل تعداد کے ساتھ مدینہ طیبہ کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ وہ عظیم نفوس‘ جنہوں نے ہمہ وقت اسلام اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا‘ ان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی سرفہرست ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں مختلف جنگوں میں حصہ لیا اور کفار سے مبارزت میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ اشارہء ابرو پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے پر آمادہ و تیار ہو جایا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پڑنے والی شکنوں کو دیکھ کر فوراً سے پہلے تلوار بدست ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی بھی موقع پر کفار کی بالادستی کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوا کرتے تھے‘ اور جہاں کہیں آپ محسوس کرتے کہ مسلمانوں کو نفسیاتی، سیاسی اور جنگی اعتبار سے پس قدمی کا سامنا ہے‘ آپ فوراً سے پہلے بے چین اور بے قرار ہو جایا کرتے تھے۔ آپ بحرانی دور کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے منتظر رہا کرتے تھے کہ کس طرح مسلمانوں کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر سکیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کی خبر جہاں دیگر صحابہ کرامؓ کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھی‘ وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس سانحہ اثرات کو غیر معمولی انداز میں محسوس کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو جب اس بات کا احساس دلایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس زمین سے ہر ہستی نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹ جانا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خبر کو قبول کر لیا‘ اور اپنے آپ کو عہد رسالتﷺ کی طرح خدمت اسلام کے لیے وقف کیے رکھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر خاص کی حیثیت سے اسلام کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ قرآن مجیدکی سورہ بقرہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک مطالبے کا ذکر کیا‘ جو انہوں نے اپنے نبی شموئیل ؑ سے کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کے لیے ایک بادشاہ کی ضرورت ہے‘ تو شموئیل ؑ نے انہیں یہ بات بتلائی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔ طالوت کی قیادت بنی اسرائیل کے لوگوں کے لیے حیران کن تھی‘ اس لیے کہ طالوت صاحب مال نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی اس خلش اور خدشے کا اظہار حضرت شموئیل ؑ کے سامنے کیا کہ طالوت ہمارے بادشاہ کس طرح ہو سکتے ہیں کہ ان کے پاس تو مال کی فراوانی نہیں۔ حضرت شموئیل ؑ نے ان کے شبے کا ازالہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب طالوت کو علم اور جسم کے اعتبار سے فوقیت دی ہے اس لیے وہ تمہارے رہنما ہوں گے۔ قرآن مجید کے اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا قائد اس شخص کو ہونا چاہیے جو علم اور قوت کے اعتبار سے ممتاز ہو۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مسلمانوں کے معاملات اور امور کو سنبھالا تو آپ کے پاس وافر مال تو نہیں تھا لیکن علمی اور جسمانی صلاحیتیں اور توانائیاںآپ کے پاس موجود تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کی سیاسی اور عسکری صلاحیتوں اور حیثیت کو بڑھانے کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور خدمتِ دین کا فریضہ ہر محاذ پر احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہء خلافت میں کسریٰ کے آتش کدے کو بجا دیا‘ قیصر کی ہیبت کو مٹا دیا اور پوری دنیا میں اسلام کے جھنڈوں کو لہرا دیا۔ سماجی انصاف اور رعایا کے حقوق کا ایسا مثالی تصور پیش کیا‘ جس کو اپنے تو اپنے اغیار بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ آج بھی مغرب میں جو سماجی انصاف کا تصور ہے اس کے پس منظر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دور کے تصورات موجود ہیں۔ مہاتما گاندھی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت کو سراہتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ رام اور کرشن تو غیر تاریخی کردار تھے‘ سادگی کا درس اگر حاصل کرنا چاہیے تو ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رعایا کے احوال جاننے کے لیے راتوں کے اندھیروں میں گشت فرماتے اور مظلوم اور مجبور کو حقوق دلانے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان سے بے تحاشہ پیار تھا۔ آپ نے اپنی دختر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دے کر اسی محبت کا اظہار فرمایا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندگی کے آخری لمحات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں معمور رہے۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ شہادت کی خلعت فاخرہ زیب تن فرمائیں اور مدینہ طیبہ میں دفن ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش پوری فرما دی اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پروانہ جام شہادت نوش کرنے کے بعد قیامت تک کے لیے اپنے محبوب رسول کی ہمراہی محو خواب ہو گیا۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی مسلمان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ وادی کشمیر میں بہتا ہوا لہو ہو یا فلسطین کے مظلومین ہوں‘ ان کے دکھوں کی شنوائی اور ان کے آنسوؤں کو پونچھنے کے لیے آج بھی لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے کسی قائد کے منتظر ہیں۔ اُمت مسلمہ کے زوال کو دور کرنے کے لیے مسلمان قائدین کو خلافت راشدہ کے ستونوں اور بالخصوص سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان ان عظیم تاریخی شخصیات کے ورثے کے امین بن جائیں تو امت کا زوال ختم ہو سکتا ہے‘ اور یہ عروج کے راستے پر گامزن ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔