تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-10-2016

حسین حقانی اور نیگرو پونٹے

میری اطلاع کے مطابق نواز لیگ اور پی پی پی کے مشہور و معروف چارٹر آف ڈیمو کریسی معاہدے کا ڈرافٹ لندن میں تیار کیا گیااور پھر امریکہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس بعد میں سی آئی اے چیف جان نیگرو پونٹے کی جانب سے آئی ایس آئی اور پاکستان کی فوج کے بارے میں اضافی نکات شامل کرکے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے کیا گیا۔ امریکہ اور برطانیہ کے تیار کردہ آئندہ سیا سی نقشے کے تحت پاکستان کی ان دونوں سیا سی جماعتوںنے 2006ء میں اس معاہدے پر تالیوں کی گونج میں دستخط کئے جسے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے بھر پور کوریج دی۔۔۔۔ جن لوگوں کو میری اس بات سے اتفاق نہیں وہ دو روز پہلے جنرل مشرف کاوہ ا نٹرویو دیکھ لیں جس میں انہوں نے پہلی دفعہ تسلیم کیا ہے کہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو امریکہ کے دبائو پر پاکستان آنے کی اجازت دینی پڑی تھی!! ستم دیکھئے کہ'' عمران خان کے'' مبینہ ساتھی اسے ‘‘ پاناما لیکس‘‘ پرانہی تلوں سے تیل نکالنے کی بھول بھلیوں میں ابھی تک لئے پھرتے ہیں جس کے آگے تھوڑی سی بھی نظر رکھنے والوں کو سوائے اندھیروں اور کھائیوں کے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔عمران خان کو یقین کرنا ہو گا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی انشورنس پالیسیاں ہیں؟ غور کیجئے کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کے نام پر امریکہ اور برطانیہ کے کرائے جانے والے معاہدے کے تحت پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو پاکستان واپس لایا گیا اور پھر 
انہیں باری باری مرکزاور ان کے منتخب کردہ صوبوں میں حکومتیں بانٹی گئیں اور انتخابات سے پہلے امریکی نائب صدر نے ق لیگ کے چوہدری برداران کو ان کے گھر میں بیٹھ کر کھلے لفظوں میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ جیت بھی جائیں گے تو امریکہ آپ کی کامیابی کو تسلیم نہیں کرے گا؟ اگر کسی کو یادرہ گیا ہے تو مشہور ترین امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں 2008ء میں صدر پاکستان کا حلف اٹھانے کے مرحلے میں آصف علی زرداری کے نام سے( حسین حقانی کا لکھا ہوا ) ایک مضمون شائع ہوا جس میں لکھا تھا '' اگر امریکہ پاکستان کو 100 بلین ڈالر مہیا کر دے تو ایسی صورت میں پاکستان چند ایسی تجاویز مان سکتا ہے جس سے دنیا میں امن یقینی ہونے کی ضمانت حاصل ہو جائے گی۔۔۔اور پھر اس مضمون کے اگلے ہی دن وال سٹریٹ جرنل نے اپنے اداریئے میں لکھا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے پاکستان کیلئے 100 بلین ڈالر کوئی زیا دہ رقم نہیں ہو گی ۔ آج اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کی دھمکیوں اور پاکستان کے ہر صوبے میں کھلم کھلا مداخلت کے اعلانات کا منہ توڑ نہیں تو ہلکا سا جواب دینے کی ہمت بھی سیا سی قیا دت کی جانب سے کیوں نہیں کی جا رہی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب میثاق جمہوریت کے تحت بینظیر کی شہا دت کے بعد نواز لیگ نے پانچ سال تک زرداری کا 
بھر پور ساتھ دیا تھا اور اب اسی عمل کو مسلم لیگ نواز کی شکل میں پی پی پی کی جانب سے ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے تو یہ نیگرو پونٹے کا کرایا جانے والا میثاق جمہوریت یعنی COD ہے جو نہ جانے عمران خان کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہا؟ اگر کسی کو اس میں شک ہے تو حسین حقانی کو پاکستان واپس لا کر یا نواز شریف اور آصف زرداری سے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ کیا میثاق جمہوریت کے اس ڈرافٹ پر امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جان نیگرو پونٹے کی منظوری کے بعد دستخط نہیں ہوئے؟ 2013ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر پاکستان ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا'' کہ یہ ریٹرننگ افسران کے انتخابات تھے‘‘ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ2008ء میں کیا ہوا تھا؟ ان دونوں کے عرصہ اقتدار میں پاکستان کی سیا ست، تجارت، دفاع ، خارجہ اور داخلہ پالیسیاں ایک ہی ایجنڈے کے مطا بق کام کر رہی ہیں اور جو بیس سالوں سے ایک دوسرے کی بد ترین دشمن تھیں ۔ 2006 ء میں جب لندن میں اس معاہدے پر بڑے زور شور سے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے دستخط ہوئے تو اس وقت کی خبروں میں یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ یہ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی قانونی ٹیم کے ساتھ باہمی مشارت سے تیار کیا ہے جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔ دوشقیں پاکستان کی آئی ایس آئی اور نیوکلیئر پروگرام کے متعلق ہیں جس میں سے ایک پر آصف علی زرداری نے اقتدار سنبھالتے ہی حکم جاری کر دیا کہ آج سے آئی ایس آئی بھی رحمان ملک کو رپورٹ کیا کرے گی؟اور یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب پی پی پی کے وزیر اعظم گیلانی امریکی دورے پر روانہ ہونے کے بعد جہاز سے ابھی اترے ہی تھے۔لیکن جی ایچ کیو نے اس پر شدید رد عمل ظاہر کیا اور اگر اس حکم کی واپسی میں چند گھنٹوں کی دیر ہو جا تی تو معاملات بہت ہی آگے بڑھ جا نے تھے۔ نیوکلیئر پروگرام کوا سوقت اس معاہدے سے سب سے زیا دہ خطرہ ہے کیونکہ جان بوجھ کر پاکستان کو اس وقت گردن تک قرضوں اور سود در سود کے پہاڑ تلے دباتے ہوئے اسی میثاق جمہوریت کی نیو کلیئر شق کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جس کی جانب مسلم لیگ نواز کے با ضمیر سابق سینیٹر انور بیگ نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں اشارہ بھی کر دیا ہے ۔
عمران خان کو یہ مقولہ یاد رکھنا ہو گا کہ اگر کسی سوال کے 
لاتعدادجواب آنا شروع ہو جائیں تو وہ سوال اپنی قدر کھونے کے ساتھ ہی جواب سے محروم رہتا ہے اور یہی حال اس پاناما لیکس کے سوال کا ہے جس کے بارے میں رئوف کلاسرہ جیسے تجزیہ کار نے اپنے8 ستمبر کے پروگرام میںجو کچھ کہا میں ان سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ جب پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو پورے ملک میں شریف برادران کے بارے میں نفرت انگیز بھونچال کی کیفیت نے جنم لیا ہوا تھا ہر گھر ہر دکان اور ہر محفل میں اسی لوٹ مار کا چر چا ہو رہا تھا اور پاکستان بھر کا میڈیا پاکستان کے کھربوں روپوں کا ذکر کررہا تھا کہ اگر یہ واپس آ جائیں تو غریبوں کی حالت کافی حد تک سنور جائے گی ا س وقت مزدور اور چھوٹے کسان بھی غصے سے بپھرے ہوئے تھے انہیں صرف رہنما چاہئے تھا جو انہیں اپنے ساتھ کھڑا کر کے نظام حکومت کو ہلا کر رکھ دے اور یہی وہ وقت تھا جب عمران خان پاناما لیکس کے نام پر جس طرح کی چاہتے تحریک چلا تے جہاں چاہتے دھرنا دیتے انسانی سروں کاایک سیلاب ان کے ہمراہ ہوتا لیکن انہوں نے اپنے ہی شہر کے اپنے ہی قبیلے کے شاعر مرحوم منیر نیازی کے بقول'' ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘کو سچ ثابت کر دکھایا۔ٹرمز آف ریفرنسز اور کمیٹی کمیٹی کے چکر میں تحریک انصاف پر چھائے ہوئے نیگرو پونٹے کے ورکروں نے عمران خان کو خورشید شاہ کے اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جس کے ملکیتی کاغذات پر شریف برادران کا نام واضح اور صاف طور پرلکھا ہو ا سب کو نظر آ رہا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved