مجی شیخ محمد فاضل لیکچرر گورنمنٹ کالج سکھر کے دولت کدے پر سائیں رکھیل شاہ اور ان کے صاحب زادے سائیں مظہر شاہ مدعو تھے ‘ہم بھی نازل ہوئے‘ چائے اور کھانے میں شریک بھی ہوئے گو میرا کھانا برائے نام ہی رہا۔ کھانا کھا کر سکھر ریلوے سٹیشن سب کے سب میرے ساتھ چلے۔ مظہر شاہ کی تگ و دو سے میرا کام بن گیا۔ نشست محفوظ اور مخصوص کرا دینے کے بعد بھی یہ سب حضرات کم و بیش گھنٹے بھر ستم کش انتظار رہے‘ گاڑی چلے تو جائیں۔ سائیں رکھیل شاہ کی صحت قابل رشک ہے‘ مزاج کی شگفتگی سونے پر سہاگہ۔ مجھ پر بے حد شفقت فرماتے ہیں‘ یہی حال پروفیسر فاضل کا ہے‘ مظہر شاہ نوجوان ہیں ‘سی ایس پی افسر لیکن مزاج میں نوازش کا عنصر غالب ہے۔ بڑی محبت سے پیش آئے‘ سکھر ایکسپریس چلی تو مجھے اپنے طویل سفر کا احساس ہوا اور جس حال میں میں اچھو میاں سے رخصت ہوا ہوں‘ وہی بتا سکیں گے۔ جی بھر آیا اور میں نے رُندھے ہوئے گلے سے بچوں کی نگہداشت اور ضروریات کا خیال رکھنے کی تلقین کی۔ میرے ہاتھ میں برادرم ایوب قادری کی غالب اور عصر غالب نامی کتاب تھی۔ اس پر ابوالکلام کے لیے چند سطریں لکھی گئیں۔ ابلو‘ٹام اور بھائیوں بہنوں کا خیال رکھنا۔ دادی کو بھی پوچھنا۔ ایک پیسہ بھی اچھو میاں سے مشورے کے بغیر خرچ نہ کرنا اور پائی پائی کا حساب رکھنا باغ میں ڈیرے ڈالنا۔ رات کو لائبریری ‘ خادم کا بھی خیال رکھنا اور محمدآباد ہی میں رکھنا۔ دن کو سوئے رات کو جاگے۔ ہم دشمنوں میں
گھرے ہوئے ہیں۔ کام کرنے والوں سے کام لینا ‘خادم کو لکڑی دے دینا۔ انیس 5اکتوبر82ئسکھر۔ رات بھر میں سو نہ سکا بمشکل آنکھ لگی۔ بارہ سے دو بجے تک بھوک اور پیاس کی شدت اور دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ گھر کی بنی ہوئی خشک میٹھی روٹی کھائی ‘پانی پیا ‘دل پھر بھی بے قابو رہا۔ دور دراز کا سفرسوارتھا۔ میں نے گزشتہ چودہ برس میں کہ یہی میری عملی زندگی کے سن و سال ہیں کوئی سفر تنہا نہیں کیا ‘ریل میں بہت کم ‘موٹر میں ہوتے رہے۔ یہ سفر اندرون ملک ہوتے رہے۔ ہم مزاج دوستوں اور کارکنوں کی رفاقت میں سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ میں نے کراچی پہنچتے ہی ایک خط میں کسی قدرتفصیل سے لکھی تو تھیںکچھ باتیں‘ یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔
اچھو میاں‘ آپ سے جدا ہو کر میں بہت غم زدہ ہوا ‘دراصل میں گھر سے نکل نہیں سکتا نکلوں تو موٹر ہو اور ساتھی ایسے ہوں جو میری شلوار میں کمر بند ڈال سکے ‘جوتے پالش کر سکے‘ غرض ہر طرح مجھے سنبھالے۔ دس برس بلکہ زیادہ اچھے دیکھے اب بھی برے دن تو نہیں ہیں لیکن بچوں کی ضروریات پوری نہ پڑ رہی ہوں تو غربت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ مجھے بچوں سے پیارنہیں عشق ہے گو اس کا اظہار نہ کروں۔ نصراللہ کی بے توجہی آپ نے دیکھی‘ مظہر شاہ نہ ہوتے تو بڑی مشکل پڑتی‘ گاڑی چلی ‘روہڑی تک تو مجھے کچھ پتہ نہ چلا‘ روہڑی میں سیارہ ڈائجسٹ خرید کر اوپر چلا گیا۔ہاں جس ڈبے میں میں سوار ہوا تھا ہمسفروں نے بیوی بچوں میں سے نکال کر مجھے دوسرے ڈبے میں منتقل کر دیا تھا‘ گھبرا رہے تھے وہ لوگ‘ دوسرے عزیز ان کے ہمسفر ہو گئے ۔تھوڑی ہی دیر میں سو گیا‘ کچھ بھی نہ پڑھا گیا۔ دو بجے آنکھ کھل گئی۔ سخت بھوک ‘کمزوری ‘پسینہ‘ میں تو گھبرا گیا‘ درود پڑھتا رہا۔ لفافے پر اپنا نام و پتہ لکھا‘ ایک کاغذ پر الگ سے لکھا‘ گھڑی میں اٹکا لیا‘ اگر دم نکل جائے تو اتہ پتہ تو ہو (وہ دونوں کاغذ بھیج رہا ہوں) نیچے اتر کر یعنی اپنی اوپر کی نشست سے نیچے اتر کر دیکھا تو گاڑی شہداد پور سے چل چکی تھی۔ ٹنڈو آدم آیا لیکن میں کیلے نہ خرید سکا۔ گلاس مانگ کر غسل خانے کا گندہ پانی پینے سے بھی طبیعت نہ سنبھلی ۔پہلے
اوک سے پانی پیا گیا تھا۔ میٹھی روٹی اور صندوق اسی ڈبے میں چھوڑ آیا تھا۔ صندوق تو کراچی آ کر لیا۔ میٹھی روٹیاںحیدر آباد میں لے آیا۔ نشست ایک اور آدمی کے حوالے کر دی خود نیچے پائنتی بیٹھا رہا۔ نیچے والا الجھا تو میں اوپر چلا گیا۔ وہ شخص اٹھ کر بیٹھ گیا باتیں کرنے لگا‘ کہنے لگا گھبرائو نہیں‘ دلی کی سیر دیکھ آئو۔ صبح تک میری آنکھ نہ لگی۔ ساڑھے چھ بجے کراچی اترا۔ سیدھا رئیس صاحب کے ہاں پہنچا۔ دروازہ بند‘ دوسری طرف کا کھلا ہوا‘ ایک بچہ سکول بس کا منتظر۔ جھانک کے دیکھا تو جرار داماد رئیس گھاس پر پانی چھڑک یا برسا رہے تھے ‘گپ ہونے لگی۔ میں نے کہا بھائی دیکھ لو کہیں پاسپورٹ وغیرہ جعلی نہ ہو۔ ہنستے رہے کہنے لگے اگر جعلی بھی ہو تب بھی جوابدہ تو ایجنٹ ہے ۔افسوس وہ چلا گیا اور تنہائی مجھے ایک بار پھر ڈسنے لگی۔ نہایا کپڑے بدلے‘ داڑھی صاف کرنے کا سامان زاہدہ کے ہاں پڑا ہوا ہے اس لیے داڑھی کل اترے گی۔ ناشتہ کیا دو انڈے سلائس ٹوسٹ مکھن ٹھنڈی چائے۔ زاہدہ کو فون کیا‘ وہ اپنی بے رخی محسوس کر گئی ہیں اس لیے آج پی فارم صحت کا سند نامہ پوچھ رہی تھیں۔ ویزے کے لیے یوسف جا چکے ہیں ‘پی فارم وغیرہ کل جمعرات بھی ہے کام کا آدھا دن تھا مگر ہو گا کل ہی۔ درشن سے خفا ہوں اس کو بھی بلا لیتا لیکن اس کا فون نمبر نہیں ہے ۔وحشت ہے‘ تنہائی کی۔ شام کو امام بخش سومرو کے ہاں جائوں گا۔ تقی صاحب رئیس صاحب کے دفتر میں آ گئے تھے۔ آج تو کہہ رہے تھے پیسے کا انتظام ہو جائے گا۔ انگوٹھا وغیرہ درج کر دیتے
ہیں پاسپورٹ میں‘ دیکھیے کیا ہو۔ تقی صاحب بہت خوش تھے کہتے تھے وہاں آپ لوگوں کا بڑا استقبال ہو گا ۔بارہ کروڑمسلمان وہاں موجود ہے پاکستان پر جان دینے کے لیے ‘امروہہ میں کمالؔ کا راج ہے۔ جب جاتے ہیں تو ڈی سی ‘ یہ اور وہ سب چلے آ رہے ہیں‘ بڑی چیز ہے‘ بڑھیا سگریٹ ہاتھ میں جلائے ٹہل رہے ہیں ‘کسی سے بات ہی نہیں کرتے۔ تقی صاحب پھر آ گئے ہیں کہتے ہیں اے ون ادیب کا نام تو یاد رکھتا ہوں باقی یاد نہیں رہتے۔ پڑھے ہوئے مواد کو گرفت میں لے لیتا ہوں ہندوستان سے آئے ہوئے ایک نوجوان سے گفتگو کر رہے ہیں‘ اب وہ نقل کرتا ہوں۔
تو اب انہوں نے جناب کلیسیا سے زیادتی شروع کی‘ بہت سے آدمیوں پر مظالم کیے گئے نقل نہیں کر سکتا (یعنی تقی صاحب کی گفتگو کوئی مختصر نویس ہو تو نقل کرے)ہندوستانی اور یونانی فلسفے پر گفتگو ہے ۔اس چنڈال چوکڑی کے دوسرے ممبر اختر فیروزاور محمود صاحب بھی آئے تھے‘ مجھے تو یہ سب چکر نظر آتے ہیں بڑے خرانٹ اور کائیاں لوگ ۔کہنے لگے چار ہزار تو کچھ بھی نہ ہوں گے اچھا‘ اب قلم روکتا ہوں‘ رئیس کے داماد بہت شریف آدمی ہیں اور ایک پرانا کارکن یوسف...
آج کا مقطع
حق وہ ہے‘ ظفر‘چھین لیا جائے جو بڑھ کر
یہ پھیلے ہوئے ہاتھ اُٹھانے کے لئے تھے