پہلی بار وہ سکندر اعظم کے زمانے میں پیدا ہوا جہلم کا دریا اُن دنوں وہاں سے نہیں گزرتا تھا‘ جہاں سے اب گزرتا ہے۔ دریا کی گزرگاہ کوسوں دور تھی! جوں توں کر کے اس نے گدھا خریدا‘ پھر گاڑی بنوائی اور یوں گدھا گاڑی چلا کر گزر بسر کرنے لگا۔
ایک دن اچانک تہلکہ سا برپا ہو گیا۔ اُسے سکندر کی فوجوں نے پکڑ لیا اور پتھر ڈھونے پر لگا دیا کئی دن کام کرنے بعد اس نے ایک دن اجرت مانگی۔ یونانی افسر نے ایک سپاہی کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ سپاہی نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
دوسری بار وہ تغلق کے زمانے میں پیدا ہوا‘ اب کے حالات بہتر تھے۔ دفاع مضبوط تھا مغرب سے حملہ آور آتے تو انہیں مار بھگایا جاتا۔ وہ اچھے دن گزار رہا تھا۔ ملتان اور دہلی کے درمیان ایک گائوں تھا‘ وہاں دہلی سے بیوپاری آتے‘ گندم خریدتے۔ بہت سی گدھا گاڑیاں کرائے پر لیتے‘ اس کی گدھا گاڑی کو بھی کام مل جاتا۔
یہ زمانہ اُسے سکندر اعظم کے زمانے سے زیادہ ترقی یافتہ لگا۔ آخر ایک سسٹم تو تھا! بدقستی سے تغلق کا وہاں سے گزر ہوا۔ شاہی قافلہ ہزاروں گھوڑوں اور سینکڑوں ہاتھیوں پر مشتمل تھا اور اس کے گائوں کے راستے میں پڑائو کر رہا تھا۔ اُس شام بیوپاریوں نے اسے دیر سے فارغ کیا۔ گائوں لوٹتے لوٹتے شام ڈھل گئی۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ وہ شاہی پڑائو کے قریب سے گزر رہا تھا اچانک دو پہریدار اس پر پل پڑے اور اپنے حاکم کے پاس لے گئے۔ حاکم وزیر کے پاس لے گیا ۔ وزیر اعظم نے نمبر بنانے کے لیے اسے بادشاہ کے حضور یہ کہہ کر پیش کیا کہ اُس نے مغلوں کا جاسوس پکڑا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی کھال اتاری جائے۔
ابن بطوطہ ملتان سے دہلی جاتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ یہ ٹھیک وہی وقت تھا جب غریب گدھا گاڑی کی کھال اتاری جا رہی تھی۔ ایک گڑھا کھودا گیا۔ پھر اسے مُنہ کے بل لٹایا گیا یوں کہ اُس کی ناک والا حصہ گڑھے کے اوپر تھا۔ یہ ٹیکنیک اس لیے اختیار کی جاتی تھی کہ سانس لیا جا سکے۔ پھر جلّاد اس کی کھال اتارنے لگاوہ جلّاد کی بار بار منت سماجت کرتا کہ ایک ہی بار اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے مگر جلاد کو بادشاہ کے حکم سے سرتابی کی مجال کہاں! اگر جلّاد ایسا کرتا تو خود اس کی کھال اتاری جاتی!
تیسری بار وہ شاہجہان کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ان دنوں وہ لاہور اور بھمبر کے درمیانی علاقے میں گدھا گاڑی چلاتا تھا۔ مغلوں کو گرمیوں کا موسم کشمیر میں گزارنے کا خبط تھا۔ گویا کشمیر ان کے لیے ایسے ہی تھا جیسے آج کے شاہی خانوادوں کے لیے مری اور نتھیا گلی!
شاہ جہاں کشمیر جاتا تو اس کے ساتھ ایک لاکھ افراد ہوتے۔ ان میں لشکری‘ درباری‘ دکاندار سب شامل ہوتے۔ جہاں قافلہ رکتا‘ شہر بس جاتا‘ بازار لگ جاتا۔ ہر سپاہی اپنا کھانا خود پکاتا۔ یوں دھواں اٹھتا تو آسمان تک جاتا اورکوسوں تک کا علاقہ سیاہی میں چھپ جاتا۔ راہگیروں کو راستہ نظر ہی نہ آتا۔ قانون یہ تھا کہ شاہی سواری کے راستے کے قریب سے بھی کوئی گزرے تو احتیاطاً اُسے ختم کر دینا چاہیے۔ پہریدار لاٹھیاں گھما گھما کر چل پھر رہے تھے۔ اُس کا گزر وہیں سے ہوا۔پہریداروں نے ڈنڈے مار مار کر اسے ختم کر دیا اورلاش وہیں گدھا گاڑی کے اندر چھوڑ کرآگے چلے گئے۔
چوتھی بار وہ پیدا ہوا تو رنجیت سنگھ کی بادشاہی تھی۔ اب کے وہ گدھا گاڑی میں سواریاں ڈھوتا۔ راوی کے اس طرف سکھ سپاہی کھڑے تھے۔ اس کی گاڑی کے اردگرد پرداتنا تھا۔ سکھ سپاہیوں نے پوچھا‘ کون ہے اس نے جواب دیا خواتین سواریاں ہیں۔ سکھوں نے چادر کھینچ کر ایک طرف رکھ دی دو جوان لڑکیوں کو کھینچ کرگاڑی سے اتارنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اُس سے نہ رہا گیا۔اس نے چابک ایک سکھ کے کندھے پر زناٹے سے مارا۔ دوسرے نے کرپان نکالی اوراس کاپیٹ چاک کردیا۔یوں چوتھی بارجنم لینے کا تجربہ بھی ناکام رہا۔
پانچویں بار یہ گدھا گاڑی والا انگریزی راج کے دوران پیدا ہوا۔ اب کے اُسے جنوبی پنجاب کے ایک زمیندارکا مزارع ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ زمیندار کا منشی اُسے جوکام بتاتا‘ وہ کرتا۔ اس کی قسمت گردش میں آ گئی‘ بڑی لام چھڑ گئی۔ انگریز ڈپٹی کمشنر نے سائیںکو کوٹھی پر طلب کیا اورحکم دیا کہ کم ازکم تیس نوجوان فوج کے لیے پیش کرے۔ گنتی پوری نہیں ہو رہی تھی وہ منشی کے پائوں دبا رہا تھا جب زمیندار نے منشی کو طلب کیا اور کہاکہ ایک بندہ کم پڑ رہا ہے‘ فوراً بندوبست کرے۔ منشی نے اسے پیش کر دیا۔ انگریز فوج اسے ہندوستان سے باہرپتہ نہیں کہاں لے گئی۔ ایک دن جرمنوں نے حملہ کیا اور گوروں کے ساتھ وہ بھی مارا گیا۔
چھٹی بار پیدا ہوا تو ہندوستان پر لارڈ مائونٹ بیٹن کی حکومت تھی اس کا گائوںجالندھر سے ذرا جنوب میں تھا۔ ملک تقسیم ہو گیا۔ وہ جہاں رہتا تھا اس کے اردگرد زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ غدر برپا ہوا تو اس نے بھی پاکستان جانے کی ٹھانی۔ گدھا گاڑی میں اپنے رشتہ داروںکو بٹھایا۔جالندھر سے وہ ایک بڑے قافلے کا حصہ بن گیا۔ زیادہ تعداد بیل گاڑیوں اورگدھا گاڑیوں کی تھی۔ پیدل بھی بہت سے تھے اس بار بھی اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہوسکا۔ امرتسر سے ذرا پہلے قافلے پر حملہ ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ اسی سے لڑنے کی کوشش کی اورکام آیا۔
ساتویںبار پیدا ہوا تو ملک پاکستان پر میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی۔ اس بار حالات مختلف تھے۔ جمہوری دور تھا۔ حکومت افراد کی نہیں‘ اداروں کی تھی۔ شناختی کارڈ کا زمانہ تھا۔ اب کسی حملہ آور کی فوج بیگار میں پکڑ سکتی تھی نہ کوئی بادشاہ کھال اتارنے کا حکم دے سکتا تھا۔ اب حکمران ایک لاکھ افراد کے ساتھ نہیں‘ چند درجن تیز رفتار گاڑیوں کے ساتھ نقل وحرکت کرتے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ پہریدار لاٹھیوں سے مار دیں سکھ بھی نہیں تھے۔ اپنا ملک تھا مسلمانوں ہی مسلمان تھے۔ اسلام پھل پھول رہا تھا۔
یہ جنم اس کا شیخو پورہ میں ہوا تھا بہت آرام سے گزررہی تھی۔ اس بار یقین تھا کہ وہ طبعی موت مرے گا اور کیا خبر‘ ایک بار طبعی موت نصیب ہو تو بار بار پیدا ہونے کے بکھیڑے سے نجات مل جائے۔ سسٹم کام کر رہا تھا‘ تھانہ تھا‘ کچہری تھی‘ جج تھے وکیل تھے‘ محتسب تھا‘ پریس تھا۔ الیکٹرانک میڈیا تھا۔ بین الاقوامی رپورٹر تھے وہ گدھا گاڑی چلاتا اوررب کا شکرادا کرتا کہ مار دھاڑ‘ قتل و غارت کا زمانہ چلا گیا اب جمہوریت ہے قانون ہے۔ اسمبلیاں ہیں‘ جواب دہی ہے۔ سسٹم ہے‘ نظام ہے۔‘کوئی کسی کی جان نہیں لے سکتا!
مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ہر زمانے میں مارنے کے طریقے الگ تھے۔ کبھی تلوارسے تو کبھی کھال اتار کر‘ کبھی کرپان سے تو کبھی لاٹھی سر پرمار کر‘ انصاف بھی ہر زمانے میں یکساں رہا ہے۔ سلطانی ہو یا جمہوریت‘ سکھا شاہی ہو یا انگریز کی حکومت! انصاف کی ادائیں وہی رہیں!
دروازے پر دستک ہوئی۔ سوئی گیس والا تھا اس کے ہاتھ میں بل تھمایا اوراگلے دروازے پر چلا گیا۔ وہ کونے والی دکان پر بِل پڑھوانے گیا۔89ہزارروپے کا بل تھا۔ نوّے سالہ گدھا گاڑی والے نے دل پر ہاتھ رکھا اورگر پڑا۔ محلّے والے ہسپتال لے گئے وہاں اس نے دم توڑ دیا۔
ہاں! جمہوریت کا یہ فائدہ ضرور ہواکہ موت ہسپتال میں بیڈ پر واقع ہوئی۔ رہا انصاف تو وہ اتنا ہی ہوا جتنا پہلے جنموں میں ہوتا رہا!